انقلاب آفریں اور آہنی قیادت شیر خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہ

Hazrat Ali

Hazrat Ali

تحریر : ڈاکٹر ساجد خاکوانی

شیر خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہ اسلام لانے والے اولین لوگوں میں سے ہیں ،آپ کی عمر مبارک نو سال کی تھی جب محسن انسانیت ۖ کے دست مبارک پر مشرف بہ ایمان ہوئے۔مکی زندگی کے نشیب و فراز میں آپ دم بہ دم نبی اکرم ۖ کے ہمراہ رہے ۔مدینہ میں داماد نبی ۖ کا شرف حاصل ہوا،متعدد معرکوں میں داد شجاعت کے باعث ”شیر خدا” کا لقب پایا۔خیبر کی فتح اﷲ تعالی نے آپ کے ہاتھ پر عطا کی۔خلفائے راشدین کے دست راست رہے اور امت کے چوتھے خلیفہ کے طور پر قیامت تک مسلمان آپ کو یاد کرتے رہیں گے۔شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ کی ولادت باسعادت 603ء بمطابق 13رجب32میلادی کو حرم کعبہ میں ہوئی،یہ مدت ہجرت مدینہ سے کم و بیش اکیس سال بیشتر بنتی ہے۔ ”علی” نام رکھا گیا ”ابوالحسن” اور ”ابوتراب ”کنیتیں تھیں۔والدہ”حیدر(شیر)”کہ کر پکارتی تھیں ”مرتضی ”اور ”اسداﷲ”کے القابات اﷲ تعالی اور اسکے رسولۖ کی طرف سے عطا ہوئے جبکہ امت آپ کو ”امیرالمومنین” کے خطاب سے یاد کرتی ہے۔شیر خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہ نجیب الطرفین قریشی وہاشمی تھے۔

آپ ۖ کے سگے چچا زاد تھے۔آپ کی پرورش ونگہداشت وتربیت براہ راست نبی ۖ کی زیر نگرانی ہوئی۔آپ کے والدابوطالب بن عبدالمطلب کثیر العیال اور معاشی طور پر مفلوک الحال تھے،چنانچہ آپ ۖ نے حضرت عباس کو مشورہ دیا کہ جعفر طیار کی پرورش آپ کریں اور علی کی کفالت میں ۖ کرتا ہوں،اس وقت شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ کی عمر مبارک تین سال تھی۔اس طرح آپ کا دامن صحبت نبوی ۖ کے باعث بچپن ہی سے جہالت و مفسدات کی آلودگیوں سے پاک رہا۔ٍ بڑے ہوئے تو سفر و حضر میں آپ ۖ کے ساتھ رہنے لگے،گھر کے جملہ معاملات میں ہاتھ بٹاتے اور اپنی عمر کے اعتبار سے ذمہ داریوں کی ادائگی میں بھی معاونت کرتے۔اسی وجہ سے آپ کے اخلاق و عادات پر اخلاق نبوی ۖ کی گہری چھاپ تھی۔بعثت کے بعد جب رشتہ داروں کو دعوت دینے کا حکم ہوا تو آپ ۖ نے سب آل بنی ہاشم کو کھانے پر بلایا اور انہیں اپنی نبوت پر ایمان لانے کا کہا تواس وقت شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ نے فرمایا ”گو میں عمر میں چھوٹا ہوں ،میری ٹانگیں کمزور ہیں اور آشوب چشم میں مبتلا ہوں مگر میں آپ کا مددگار بنوں گا”۔اس وقت آپ کی عمر مبارک صرف آٹھ سال تھی۔

مکی زندگی کے پر آشوب دور میں آپ نبی پاک ۖ کے ساتھ ساتھ رہے،خود فرماتے ہیں کہ ”میں محسن انسانیت ۖ کے پیچھے پیچھے ایسے چلتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اس کے پیچھے چلتا ہے”تبلیغی اسفار میں باالعموم آپ ہی رفیق نبویۖ ہوتے۔تین سالہ شعب ابی طالب کے جاں گسل دورمیں بھی نبی ۖ کے ہم رکاب رہے۔ہجرت کے موقع پر آخری رات آپ ہی بسترنبویۖ پرمحو استراحت ہوئے یہ گویا موت کا بستر تھا اور آپ نے حکم نبویۖ کے سامنے جان کی پروا بھی نہ کی۔اگلے دن امانتیں لوٹا کر عازم مدینہ ہوئے۔آپ ۖ ابھی قبا کے مقام پر ہی قیام پزیر تھے کہ حضرت علی اس حال میں آپ سے ملے کہ دونوں پاؤں آبلوں سے بھرے تھے۔مواخات کے موقع پر آپ ۖ نے اپنے آپ کو انصار میں شامل فرما کر تو مہاجرین میں سے شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ کو اپنا مواخاتی بھائی قرار دیااور فرمایا تم دنیاوآخرت میں میرے بھائی ہو۔جب آپ کی عمر مبارک23,24سال کی ہوئی تو آپ ۖ نے اپنی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا کا نکاح آپ سے فرمادیا اس طرح آپ داماد نبیۖ بن کرعز و شرف میں پہلے سے اور آگے نکل گئے۔یہ 2 ہجری کا واقعہ ہے ۔

مدنی زندگی کے تمام غزوات میں شیر خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہ نبی ۖ کے دست راست رہے۔بدر،احد اور خندق کے معرکوں میں آپ نے عزم و ہمت اور شجاعت و جوانمردی کی عظیم الشان تاریخ رقم کی،صلح حدیبیہ کا معاہدہ آپ ہی نے تحریر کیا۔معرکہ خیبر میں تو مرحب جیسے بدمعاش پہلوان سے نپٹنا صرف آپ کا ہی خاصہ تھا،آپ نے اسکے وار کے جواب میں ایسا وار کیا کہ جبڑوں تک اسکا سر پھٹتا چلاگیا۔آخری قلعہ کا دروازہ آپ نے اپنے دست ایمانی سے اکھاڑ پھینکا تھا۔مکہ پر چڑھائی کے وقت جاسوسی کا خط لے جانے والی عورت کو بھی آپ نے پکڑاتھااور اس سے خط برآمد کیا ۔شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ صرف غزوہ تبوک میں شامل نہ ہوئے تھے کیونکہ آپۖ نے بطور جانشین آپ کو مدینہ رہنے کا حکم فرمایا تھا۔حجة الوداع سے واپسی پر غدیدخم نامی ایک جگہ آپ ۖنے قیام فرمایااور وہاں موجود مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہ کے فضائل و مناقب بیان فرمائے ۔آپ ۖ نے ایک موقع پرفرمایاکہ ”میں علم کاشہرہوں اور علی اس کادروازہ ہیں”۔وصال نبوی ۖ کے وقت آپ نے ہی آپۖ کوغسل اور آپ ۖ کی تجہیز و تکفین کا کام سرانجام دیا۔یہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالی عنہ کاحجرہ مبارک تھا جس میں حضرت علی نے چند دیگر اصحاب رسول ۖ کے ساتھ مل کر آپ ۖ کی آخری رسومات ادا کیں۔وصال نبوی ۖ اہل بیت کے لیے کسی سانحے سے کم نہ تھا لیکن شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ نے بڑے حوصلے،صبر اور ہمت سے اس مرحلے خود کواور اہل بیت نبوی کو بخوبی نکالا۔آل بنی ہاشم ،خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے لیکن حضرت علی کی دوراندیشی ہمیشہ کام آئی۔ابوسفیان اور دیگر اکابرین قریش اکثر حضرت علی کو خلافت پر قابض ہونے کا مشورہ دیتے لیکن حرص حکومت و حوص اقتدار کسی مومن کو عام طور پر اور شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ کو خاص طور پر زیب نہیں دیتا۔تاہم آپ خلفائے ثلثہ یعنی حضرت ابوبکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان کے زمانوں میں انکے دست راست رہے۔ایران پر چڑھائی کے موقع پر یہ شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ ہی تھے جنہوں نے حضرت عمر کو کسی طور بھی مرکزخلافت ,مدینہ منورہ, نہ چھوڑنے کا صائب مشورہ دیا تھا۔ایک موقع پر آپ نے خود اس کا اعتراف کیا جب ایک شخص نے سابق خلفاء کے دور میں پرامن حالات اورآپ کے دور خلافت میں حالات کی خرابی اورکاشکوہ کیاتو آپ نے فرمایا ہمیں مشورہ دینے والے تم ہو اور انہیں مشورہ دینے والے ہم تھے۔

خلیفہ دوئم حضرت عمر کی قائم کردہ کمیٹی جو حضرت عثمان،حضرت علی،حضرت طلحہ،حضرت زبیر،حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت سعدبن ابی وقاص پرمشتنل تھی ،اس کمیٹی نے اپنے فیصلے میںجو ترتیب مقرر کی تھی اس میں حضرت عثمان کے بعددوسرا نمبر آپ حجرت علی کرم اللہ وجہ کا ہی تھا۔چنانچہ شہادت عثمان کے بعد تین دن تک منصب خلافت خالی رہا ۔مدینہ پر بلوائیوں کا قبضہ تھا اور کوئی بھی نامور شخصیت بار خلافت اٹھانے کو تیار نہ تھی۔ان حالات میں انصار و مہاجرین کے بزرگ جمع ہو کر حضرت علی کے پاس تشریف لائے اور انہیں اس منصب کے قبول کرنے کی دعوت دی،ابتداََ آپ نے انکار کیا اور فرمایا کہ مجھے امیر کی نسبت وزیر بننا پسند ہے۔لیکن حالات کے بگاڑ کا حل اور امت کا اجماع دونوں امور آپ کی ذات پر ہی جمع ہو رہے تھے تب آپ کی ہمت عالیہ تھی جس نے اس نازک اور کڑے وقت میں 24ذوالحجہ35ھجری کو امت کی باگ دوڑ سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ نے عنان اقتدار سنبھالتے ہی گزشتہ خلفائے راشدین کی سنت کے مطابق اجتماع مسلمین کے سامنے ایک خطبہ دیا،آپ نے فرمایا”اﷲ تبارک وتعالی نے انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لیے قرآن مجید نازل فرمایا ہے ،اس میں خیر وشر سب کھول کھول کر بیان کر دیا گیا ہے ۔تم اﷲ تعالی کے عائد کردہ فرائض اداکرو،تمہیں جنت ملے گی۔اﷲ تعالی نے حرم پاک کو محترم ٹہرایا ہے۔مسلمانوں کی جان کو ہر چیز سے زیادہ قیمتی قرار دیاہے اور مسلمانوں کو خلوص واتحاد کی تلقین کی ہے۔مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ماسوائے جس کسی پر کوئی حد شرعی واجب ہو۔خدا کے بندوں سے معاملہ کرتے ہوئے خدا سے ڈرو،قیامت کے روز زمینوں اور مویشیوں کی بابت تم سے باز پرس ہو گی۔اﷲ تعالی کی اطاعت کرو اور اسکے احکامات کی خلاف ورزی سے بچو۔جہاں کہیں بھلائی کی بات دیکھو اسے قبول کرواور جہاں بدی نظر آئے اس سے پرہیز کرو”۔

عنان اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے جو مسئلہ درپیش ہوا وہ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کا قصاص تھا۔تمام بزرگوں کا اورامت کا مطالبہ تھا کہ قاتلوں کو فی الفور سزا دی جائے، شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ پرجیسے جیسے دباؤ بڑھتا گیا آپ کی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا کیونکہ خلیفہ ثالث ایک بلوے میں شہید کیے گئے تھے اور بلوے میں اصل قاتل کی تلاش کوئی آسان کام نہیں ہوتااور خاص طور پر جب سب بلوائی ایکہ کر لیں تو یہ ناممکن ہوجاتا ہے۔حضرت علی کا کہنا تھا کہ امن و امان قائم ہونے پراور حالات معمول پرآنے تک ہی قاتلین عثمان سے قصاص لینا ممکن ہوسکے گا، جبکہ دوسری طرف مدینہ بری طرح بدامنی کاشکار تھا۔ شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ کے باربار کہنے کے باوجود بلوائی مدینہ طیبہ چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ان حالات میں شام کے گورنرحضرت امیرمعاویہ نے جو حضرت عثمان کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے،شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ کی بیعت کرنے سے انکار کر دیااور قاتلین عثمان کو انکے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔امیرالمومنین حضر ت علی کرم اﷲ وجہ نے مفاہمت کی بہت کوشش کی لیکن امیر معاویہ نے قصاص عثمان کو سیاسی رنگ دے کر اس کے ذریعے امیرالمومنین کے خلاف عوام الناس کو بھڑکانا شروع کر دیا اور انکے قاصد نے مدینہ آکرواضع طور پر انصار و مہاجرین کے بزرگوں کے سامنے کہا کہ ہم قتل عثمان کا بدلہ شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ سے لینا چاہتے ہیں۔حالات بڑی تیزی سے جنگ کی طرف جارہے تھے۔

شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ ابھی امیر معاویہ سے معاملہ کرنے کی کوشش میں تھے کہ دوسری طرف ام المومنین حضرت عائشہ نے قصاص کانعرہ بلند کر کے توبصرہ پر قبضہ کر لیا ۔حضرت علی نے اپنی سپاہ کے ساتھ بصرہ کا رخ کیا مصالحت کی کوششیں کئی دنوں تک چلتی رہیں اور دونوں لشکر آمنے سامنے خیمہ زن رہے۔ایک رات گئے صلح جوئی کی کوششیں بارآور ثابت ہوئیں تمام شرائط طے پا گئیں اور فیصلہ ہوا کہ چونکہ رات بہت بیت چکی ہے اس لیے صبح کو معاہدہ لکھ لیا جائے گا اور افواج اپنے اپنے علاقوں کو لوٹ جائیں گی۔قاتلین عثمان جو دراصل دونوں طرف کی افواج میں پھیلے ہوئے تھے انہیں یہ صلح کسی طور بھی راس نہیں تھی کیونکہ جس دن امن قائم ہوتا اسی دن سے انکی گرفتاری اور قصاص کا عمل شروع ہو جاتا۔چنانچہ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت اگلے دن دونوں طرف کے بلوائیوں نے جنگ شروع کر دی۔قائدین سمجھتے رہے کہ فریق مخالف نے رات کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے لیکن حقیقت بہت مختلف تھی۔ام المومنین حضرت عائشہ اونٹ پر سوار تھیں اسی لیے اس جنگ کو جنگ جمل کہتے ہیں۔شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ نے اپنی افواج کو حکم دیا کہ اونٹ کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں،اونٹ کے بیٹھتے ہی بصری افواج تتر بتر ہو گئیں،انکا پیچھا کرنے،قتل کرنے اور گرفتار کرنے سے شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ نے منع کر دیا اور بصرہ کی چالیس بزرگ خواتین کے ساتھ ام المومنین کو مدینہ منورہ روانہ کر دیا۔

جنگ جمل کے بعد شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ نے کوفہ کو اپنا دارالحکومت بنایا اور امیرمعاویہ کو اطاعت کی دعوت دی اور نہ ماننے پرجنگ کی دھمکی بھی دی۔امیرمعاویہ کی مسلسل ہٹ دھرمی کے باعث مسلمان 36ھجری میں آمنے سامنے صف آرا ہو گئے۔یہ لڑائی جنگ صفین کہلاتی ہے ایک طویل اور تھکا دینے والی جنگ جس کے دوران گاہے گاہے صلح کی کوششیں بھی جاری رہیںلیکن بے سود۔جب شامی افواج شکست سے دوچار ہونے لگیں تو انہوں نے نیزوں پر قرآن اٹھا لیے کہ ہمارا تمہارا فیصلہ کتاب اﷲ کرے گی،اس پر علوی افواج نے لڑنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔دونوں طرف سے دو ثالث مقرر ہوئے دونوں نے فیصلہ کیا کہ شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ اور حضرت امیرمعاویہ ،دونوں کو معزول کر کے تو امت کے لیے نیا خلیفہ مقرر کیا جائے۔اعلان کے وقت حضرت علی کے ثالث ابو موسی اشعری نے طے شدہ فیصلے کا اعلان کیا لیکن ہزاروں مسلمانوں کے سامنے جامع مسجد میں امیرمعاویہ کا ثالث عمرو بن العاص اپنے معاہدے سے روگردانی کر گئے اور امیرمعاویہ کو مسلمانوں کا خلیفہ قرار دے دیا۔اس موقع پر پھر بزرگان امت درمیان میں آگئے اور طے کیا کہ دونوں اپنے اپنے علاقوں پر حکومت کریں کوئی دوسرے کے معاملے میں دخل نہ دے۔چنانچہ دونوں افواج واپس چلی گئیں ۔امیرمعاویہ اس کے بعدبھی شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ کے علاقوں پر فوج کشی کرتے رہے کبھی کامیابی اور کبھی ناکامی ان کا مقدر بنتی رہیں۔یہ کشمکش ابھی جاری تھی کہ خوارج نے خروج کر دیااور شیر خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہ کے لیے ایک نیا محاذ کھل گیا۔خارجی بہت دلیر اور مضبوط عقیدے کے مالک تھے اورجنگ سے ٹلتے نہ تھے۔انکی یہی خو ئے شجاعت ہی شہادت حضرت علی کا باعث بنی اورایک خارجی نے آپ پر فجر کی نماز میں حملہ کیا۔وار کاری ثابت ہوا اور21رمضان المبارک40ھجری کو آپ شہادت سے ہم آغوش ہوئے۔امام حسن بن علی نے جنازہ پڑھایا اور لاش کی بے حرمتی کے خوف سے نامعلوم مقام پر دفن کیا۔اس وقت آپ کی عمر مبارک63برس تھی اور مدت خلافت 4سال اور9ماہ ہے۔

آپ نے نظام خلافت کی اصلاح کی اور اسے اسلامی تصور جمہوریت کے قریب تر کیا،عمال کے محاسبے کا فاروقی نظام بحال کیا،رات کو شہروں کا گشت اپنا معمول بنایااور بہت سی فوجی اصلاحات بھی کیں۔لیکن چونکہ آپ کا سارا دور سورشوں اور بغاوتوں سے بھرا ہواتھا اس لیے آپ کو کھل کر اپنی صلاحیتیں استعمال کرنے کا موقع نہ ملا۔علم و فضل،امانت و دیانت اور زہدوتقوی آپ کی پہچان نہیں بلکہ آپ ان سب صفات جمیلہ کی پہچان ہیں۔امت مسلمہ ہمیشہ آپ کی گرویدہ رہی ہے اور کل امت خلیفہ راشد کی حیثیت سے آپ کی پیروکار ہے۔متعدد کتب آپ سے منسوب ہیں،”کتاب جامعہ”یا”کتاب علی”ایک مجموعہ ہے جس میں آپۖ کی مرویات اور متعدد احکام و مسائل جن کی املاء خود آپۖ نے دی تھی جمع ہیں۔”صحیفہ امام علی”میں بھی آپۖ کی زبان مبارک سے سنے ہوئے الفاظ جمع کیے ہیں۔”کتاب جفرواشعار”میں حضرت علی کرم اﷲوجہ کامنظوم کلام درج کیاگیاہے۔”نہج البلاغہ”میں حضرت علی کے خطبات جمع کیے گئے ہیں جوانہوں نے متعددمواقع پر ارشادفرمائے اوراس کے علاوہ آپ کے اقوال و ارشادات کااورنجی و سرکاری خطوط واحکامات کوبہت سی کتب میں جمع کردیاگیاہے۔عربی علماء کے مطابق صرف و نحوکے علم کے بانی حضرت علی کرم اللہ وجہ ہی ہیں،شروع میں یہ ایک ہی علم تھااور حضرت علی کرم اللہ وجہ نے سب سے پہلے اس علم کی مبادیات کاتعین کیاتھا۔حضرت فاطمہ رضی اﷲتعالی عنہ کے ہوتے ہوئے حضرت علی نے مزیدکوئی شادی نہیں کی تھی،بی بی صاحبہ کے بعد پھرآپ نے متعدد نکاح کیے ۔آپ کی کل اولاد کی تعدادباختلاف 27تک پہنچتی ہے،حضرت بی بی پاک کے بطن سے چلنے والی نسل ”فاطمی ”اولاد کہلاتی ہے جب کہ دیگر زوجات والے ”علوی”کہلاتے ہیں۔آپ کی نسل سے بعض نے حکومت بھی کی لیکن زیادہ تر اپنے اجدادسے کسب کرتے ہوئے فقیرانہ زندگی پر قانع رہے چنانچہ تصوف کے کم و بیش تمام سلسلے اولاد علی سے ہوتے ہوئے حضرت علی پر ہی ختم ہوجاتے ہیں اور یہ حضرت کااصل فیض ہے جو تاقیامت جاری رہے گا۔واقعہ کربلامیں آپ کی اولاد مبارکہ ایک بہت بڑے سانحے سے دوچارہوئی لیکن اہلبیت کی یہ قربانیاں دین کی حیات ابدی کا باعث ہیں۔

تحریر : ڈاکٹر ساجد خاکوانی