تحریر : جنید رضا ام المؤمنین، محبوبہ محبوب خُدا، رفیقہ رسول، صدیقہ بنت صدیق، حرم رسول، مُحدّثہ، عفیفہ، عتیقہ، طیّبہ، طاہرہ، سیّدہ کونین حضرت عایٔشہ صدیقہ رضی اﷲتعالی عنھاحضور اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم کی ازواج میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ اور خدا کے ہاں سب سے محبوب زوجہ پیغمبر ہے۔آ پ کااسم گرامی ”عایٔشہ”لقب ”صدیقہ ”خطاب”ام المؤمنین”اور کنیت”ام عبداﷲ”ہے۔آپ کی ولادت باسعادت حضور اقدس ۖکی بعثت کے چار برس بعد شوّال کے مہینے میں ہوئی۔حضرت عایٔشہ نے اس دنیا میں سب سے پہلے جس گھر میں آنکھ کھولی وہ گھر نور اسلام سے منوّر تھا۔
آپ کے والد محترم حضرت ابوبکر صدیق اور والدہ محترمہ ام رمان آپ کی پیدائش سے قبل ہی اسلام لاچکے تھیں اور آپ خود بھی فرماتی ہے جب سے میں نے اپنے والدین کو پہچانا ان کو مسلمان پایاہے۔(بخاری شریف) حضرت عایٔشہ رضی اﷲتعالی عنھابچپن میں کھیل کود کی بڑی شوقین تھیں ،محلّہ کی لڑکیاں ان کے پاس جمع رہتی تھیں، آپ اکثر ان کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، تمام کھیلوں میں سے حضرت عایٔشہ کوسب سے زیادہ دوکھیل مرغوب تھے ،ایک گڑیاں کھیلنا اور دوسرا جھولا جھولنا۔ایک مرتبہ آپ گڑیا ں کھیل رہی تھیں، کہ رسول اﷲۖ پہنچ گیٔے ،گڑیوں میں ایک گھوڑابھی تھا ،جس کے داہیں باہیں دو پر لگے ہویٔے تھے، آپۖ نے پوچھا …!عایٔشہ یہ کیاہے …؟جواب دیا ”گھوڑاہے”آپ ۖنے فرمایا کہ گھوڑے کے تو پر نہیں ہوتے ،آپ نے برجستہ کہا،کیوں سلیمان کے گھوڑں کے تو پر تھے،آپۖ اس بے ساختہ پن کے جواب پر مسکرادیٔے۔ اس واقعہ سے آپکی فطری، حاضر جوابی،مذہبی واقفیت، ذکاوت ذہن اور سرعت فہم کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ہجرت کے وقت آپ کا سن آٹھ برس کا تھا ،لیکن اس کم سنّی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوّت حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرت نبویۖ کے تمام واقعات بلکہ تمام جزئی باتیں آپ کو یاد تھیں۔آپ جب چھ برس کی ہوئی، تو آپ کے والد نے حضور ۖ کے بھیجے ہوے پیغامِ نکاح کو قبول کرتے ہوئے چھ برس کی عمر میں آپ کا عقد حضور اقدسۖ کے ساتھ فرما دیا ،اور نکاح کے تین سال بعد(یعنی ٩ سال کی عمر میں آپ کی رُخصتی ہوئی ،اس طرح آپ زوجہ پیغمبر بن کرنبی کر یمۖ کے گھر تشریف لے آئی۔
حضور اقدسۖ آپ سے بے انتہا محبت فرماتے تھے اور آپ حضور ۖسے بہت محبت کرتی تھی اس کی دلیل یہ روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور ۖنے فرمایا ائے عایٔشہ تم مجھے اتنی اچھی لگتی ہو جیسے کجھور کو شہد میں ڈبو کر کھا یا جایٔے ،تو حضرت عایٔشہ نے فرمایا یارسول اﷲۖ آپ بھی مجھے اتنے اچھے لگتے ہو جیسے شہد کو ملایٔ کے ساتھ کھایا جایٔے،آپ ۖ اکثر وپیشتر آپ کے ہی گھر میں قیام فرماتے تھے، اور سفر میں بھی آپ کو اپنے ہمرا ہ لیجاتے تھے،کئی مرتبہ اﷲ رب العزّت نے حضرت جبرئیل کے ذریعے حضرت عایٔشہ کو سلام بھجوایا ،آپ نے بھی جواب میں اﷲ تعالی کو سلام بھجوایا،اس کے علاوہ دیگر ازواج سے آپ کو یہ بھی امتیازیت حاصل تھی ،کہ وحی ربّانی کا نزول آپ کے بستر پر ہوتاتھا، قرآن مجید کا اکثر حصہ آپ کے بسترمبارک پر نازل ہواتھا۔ آ پ رضی اﷲتعالی عنھاا خلاق کی پاکیزہ ٫انتہائی عبادت گزاراور جودوسخا کا سمندر تھی ،دن بھر روزہ میں رہتی اور راتوں کو دیر دیرتک جاگ کر عبادت کراکرتی تھیں، کئی کئی نوافل اور تسبیحات آپ کاروز کا معمول تھا،چاشت کی نمازخاص اہتمام سے پڑھتی تھیں اور فرماتی تھی کہ اگر میرے با پ بھی قبر سے اٹھ کرآجاے تب بھی اس نماز کو نہ چھوڑو گی۔
آپ کی سخاوت کا یہ ہال تھا کہ کبھی گھر سے کسی مسکین کو خالی ہاتھ نہ جانے دیا ،جتنا مال بھی آتاسارا اﷲ کے راہ میں خرچ کردیتی اور اپنے لئے کچھ نہ رکھتی تھیں ۔اﷲ رب العزّت نے آپ کی شان قرآن مجید میں بیان فرمائی، جب منافقین نے آپ پر تہمت لگائی تو اﷲ تعالی نے سورة نور میں آپ کی برائت کا اعلان فرما کر آپ کی شا ن کو دوبالا کردیا۔امّت پر تیمّم کا نزول آپ کا ہی احسان ہیں۔عابدہ٫زاہدہ ٫ہونے کے باوصف اﷲ سے بہت زیادہ ڈرنے والی اور آخرت کی فکر رکھنے والی تھیں خوف خدا ور خشیت الہی کوٹ کوٹ بھری ہوئی تھی۔ رقت قلب کا پیکر تھیں٫بہت جلد آبدیدہ ہوجاتی تھی۔
حضور اقدسۖ سے حضرت عائشہ کی شان میں بہت سی احادیث مروی ہے، چنانچہ حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریمۖنے ارشاد فرمایا.. عائشہ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی کھانوں پر۔ایک اور جگہ حضرت عمروبن عاص اور حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریمۖنے ارشاد فرمایا”عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب میرے نزدیک عائشہ اور مردوں میں ان کے والد (ابوبکر)ہیں”اسی طرح آپ کی شان ومقام حضرات صحابہ اکرام کی نظر میں بہت بلند واعلی ہے۔
حضرات صحابہ اکرام آپ رضی اﷲتعالی عنھا کی بہت عزّت واحترام فرمایا کرتے تھے، انہیں جب بھی کوئی مسئلہ یا کوئی حدیث پوچھنی ہوتی تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے،اکثرصحابہ آپ سے حضور اقدسۖکی گھریلوں زندگی کے متعلّق پوچھتے تھے ۔آپ سے دو ہزار سے زائداحادیث مروی ہیں ۔70فیصدسے زائد حضور اقدسۖکی گھریلوں زندگی آپنے امّت کے سامنے پیش کی۔آپ حضور اقدسۖکے ساتھ زندگی کے ہر موڑپر کھڑی نظر آئی۔حضورۖکے آخری ایّام مرض میں بھی آپ کو حضور ۖکی خدمت کا پورا موقعہ ملا،حضورۖ کی وفات سے قبل آپنے حضور ۖ کو مسواک چباکر دی،اور آپ حضور ۖکی وفات کے بعد بڑے فخر سے کہا کرتی تھیں ” میں پیغمبر ۖکی وہ محبوب زوجہ ہو کہ پیغمبر کے منہ مبارک میں آخری وقت میرا ہی لعاب گیا تھا” حضور اقدسۖکی وفات کے بعد آپ نے 48سال بیوگی کی حالت میں بسر کئے،اس زمانے میں اپنے روحانی فرزندان (صحابہ اکرام)کو قرآن وحدیث کی تعلیم دیتی تھی۔حضرت امیر معاویہ کی خلافت کے آخری زمانے میں آپ کے سفر آخرت کی تیاری رمضان المبارک کے مھینے میں ہوئی،چند ایّام تعلیل میں رہ کر17رمضان المبارک 58ہجری کو بعد از نماز عشاء اس دار فانی سے رخصت ہوکر خالق حقیی سے جا ملی۔.اﷲسے دعا ہے کہ اﷲتعالی ہمیں اپنی ماں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرماے اور ماں عائشہ کی عزّت ٫عظمت اور ناموس کے دفاع میںمرمٹ کر کل قیامت کے دن ماں کے ڈوپٹے کے سائے تلے جنت الفردوس میں جانے کی توفیق عطاء فرما۔(آمین )
تیری پاکیزگی پر نطق فطرت نے شہات دی تجھے عظمت عطاکی.عافیت بخشی فضیلت دی خدائے لم یزل کا بار ہا تجھ کو سلام آیا مبارک ہو وہ لب جن پر ازل سے تیرا نام آیا رسول اﷲۖنے رکھا ہے صدیقہ لقب تیرا فقط قریشی نہیں عرشی بھی کرتے ہے ادب تیرا شرف تیرئے ڈوپٹے نے یہ جنگ بدر میں پایا اسے پرچم بنا کر رحمت عالم نے لہرایا تیرا حجرہ امین خاص ہے ذات رسالت کا فرش پر ہوکے بھی ٹکڑا ہے یہ باغ جنّت کا تیرا حجرہ ہے وہ جسے گنبد خضرا بھی کہتے ہیں اس میں رحمت العالمین رہتے تھے رہتے ہیں
شفاعت کی تیرئے رحمت کدئے سے ابتدا ہوگی اس پر امّتوں کی مغفرت کی انتہا ہوگی
Junaid Raza
تحریر : جنید رضا متعلم ,جامعہ بنوریہ عالمیہ،سائٹ کراچی ای میل ایڈریس:junaid53156@gmail.com فون نمبر:0310-2238341 03032972058