حضرت فاطمہ نبی کریمۖ کی سب سے محبوب صاحبزادی ہیں۔ ا پ کا لقب زہرا ہے۔ آپ بعثت نبویۖ سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں۔آپ کی والدہ حضرت خدیجتہ الکبرٰی رسول اللہ ۖپر ایمان لانے والی سب سے پہلی خاتون تھیں۔حضرت عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ”جنتی خواتین میں افضل ترین خدیجہ، فاطمہ، مریم اور آسیہ ہیں”۔ایک اورحدیث میں آپ کو تمام عورتوں کی سردار بھی کہا گیاہے۔حضرت فاطمہ کم عمری سے ہی نہایت زیرک اور حق پرست تھیں۔مکی دور کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک روز نبی پاکۖ کعبہ کے قریب نماز ادا کرنے میں مصروف تھے کہ کفار نے آپۖ کو ایذاء پہنچانے کا منصوبہ بنایا ۔”عقبہ بن معیط”نامی سردار جودیگر سرداران قریش کے ساتھ وہاں موجود تھااور آپ ۖکو نماز ادا کرتے دیکھ رہا تھا ،وہاں سے اٹھا اور اونٹ کی اوجھڑی اٹھا لایا ۔اونٹ کی وزنی اوجھڑی اس نے سجدے کی حالت میںآپ ۖکی پشت مبارک پر رکھ دی ۔اس دوران کسی نے حضرت فاطمہ کو اس واقعہ کی خبرکردی،یہ سن کر آپ خانہ کعبہ پہنچیں اور روتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے اپنے والد کی پشت سے وہ اوجھڑی ہٹائی ،اورقریش کے ان سرداروں کے لیے بددعا فرمائی۔نبوت کے ابتدائی زمانے کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک دن رسول اللہۖ بازار سے گزرہے تھے کہ ایک گستاخ کافر نے آپ ۖکے سر اقدس میں مٹی ڈال دی اوراپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھاگ نکلا۔آپ ۖاسی حالت میں گھر واپس آ گئے۔
حضرت فاطمہ نے جب آپۖ کی یہ حالت دیکھی تو رونے لگیں۔وہ آپۖ کا سر دھوتی جاتیں اور فرط غم سے روتی جاتیں۔آپ ۖنے انہیں تسلی دی اور فرمایا ”بیٹا صبر کرو!۔اللہ تمہارے باپ کا حامی وناصر ہے ۔وہ تمہارے والد کو قریش کی دست درازیوں اور ایذاء رسانیوں سے محفوظ رکھے گا۔حضرت فاطمہ کی شادی آپ کے چچازاد بھائی حضرت علی سے ہوئی ،جنہوں نے بارگاہ رسالت میں ہی پروش پائی تھی۔نبی کریمۖ نے پیغام نکاح پر حضرت فاطمہ کی خاموشی کو ان کی رضا مندی سمجھ کر قبول فرمالیا ۔حضرت علی نے اپنی زرہ بیچ کر مہر ادا کیا۔نیز شادی کے سامان اور گھر کی ضروری اشیاء کا انتظام کیا۔غرض حضرت فاطمہ کا نکاح انتہائی سادگی سے سرانجام پایا۔آپ ۖنے اس موقع پر خصوصی طور پران دونوں کے لیے دعا فرمائی۔حضرت فاطمہ نے نہایت سادہ اور پر مشقت زندگی بسر فرمائی۔گھر کے تمام کام خود سرانجام دیتیںیہاں تک کہ چکی بھی خود پیستیں،جس کی وجہ سے آپ کے ہاتھوں میں آبلے پڑ جاتے تھے۔
گھریلو ذمہ داریوں میں مدد کے لیے آپ نے نبی کریمۖ کی خدمت میں حاضر ہوکر ایک لونڈی کا مطالبہ کیا۔آپ ۖنے فرمایا ”بیٹی !میں تمہیں ایسی بات نہ بتاوں ،جو لونڈی اور غلام سے بہتر ہو؟آپ بولیں”میرے پیارے ابا جان! فرمائیے وہ کیا بات ہے ؟”۔آپ ۖنے انہیں نصیحت فرمائی کہ جب رات کو آرام کرنے لگو تو 33 بارسبحان اللہ33بارالحمداللہ33اللہ اکبرپڑھ لیا کروکیونکہ یہ لونڈی یا غلام سے بہتر ہے۔حضرت فاطمہ نے اصرار کرنے کی بجائے انتہائی سعادت مندی سے فرمایا کہ ”میں اللہ اوراس کے رسول کی رضا پر راضی ہوں۔تسبیح کے یہ کلمات” تسبیحات فاطمہ”کے نام سے معروف ہیں۔اپنی محبوب بیٹی کے لیے نبی اکرم ۖنے مال ودولت اور آسائشات کو پسند نہیں فرمایا۔ گویا حقیقی محبت کا پیمانہ یہ نہیں کہ جس سے محبت ہو،اس کے قدموں میں تمام دنیاوی نعمتیں ڈھیر کر دی جائیں،بلکہ محبت کا تقاضاہے یہ کہ محبوب ہستی کی آخرت سنوارنے کے لیے حتی المقدور کوشش کی جائے۔ آپ عادات واطوار اور حلیہ میں اپنے والد محترم سے مشابہت رکھتی تھیں،نیز بے حدسخی اور فیاض تھیں۔
رسول اللہۖ کو حضر ت فاطمہ سے خصوصی لگاو تھا۔وہ اپنے والد محترم کو دیکھتے ہی احتراما کھڑی ہو جاتیں۔اسی طرح حضرت فاطمہ جب آپ کے گھر تشریف لے جاتیں توآپۖ بھی کھڑے ہوکر شفقت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی پیشانی پر بوسہ دیتے۔رسول اللہۖ حضرت فاطمہ کو اپنی تمام اولاد سے بڑھ کر چاہتے تھے۔ ایک موقع پر آپۖ نے فرمایا ”فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ،جو چیز اسے اذیت دے ،اس سے مجھے اذیت ہوتی ہے اورجو بات اسے پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے”۔آپۖ کی علالت کے دوران ایک مرتبہ حضرت فاطمہ آپ ۖکی خدمت میں حاضر ہوئیں۔آپ ۖنے انہیں اپنے پاس بٹھا کرسرگوشی میںکچھ فرمایا،جسے سن کر وہ رونے لگیں۔آنحضور ۖنے دوبارہ ان سے آہستہ آواز میں کچھ فرمایا ،جسے سن کر وہ مسکرانے لگیں۔آنحضور ۖکے وصال کے بعد حضرت عائشہ کے دریافت فرمانے پر حضرت فاطمہ نے بتایاکہ حضورۖ نے فرمایا تھا کہ ”اے فاطمہ! میرے وصال کا وقت قریب آگیا ہے اورمیرے گھروالوں میں سے تم سب سے پہلے مجھ کو ملو گی اور میں تمہارے لیے کتنا بہترین پیش روہوں۔”اس موقع پر میں رو پڑی توآپۖ نے فرمایا کہ ”کیا تم اس بات سے راضی نہیں کہ تم تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار بنو؟اس بات پر میں ہنس پڑی ”۔حضرت فاطمہ کو اللہ تعالی نے حضرت حسن اور حسین جیسے بے مثال بیٹے عطا فرمائے۔
آنحضرت ۖکا ارشاد ہے کہ ”جس نے حسن اور حسین سے محبت کی ،اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بعض رکھا ،اس نے مجھ سے بعض رکھا۔ حضرت فاطمہ کو اللہ تعالی نے دو بیٹیاں حضرت زینب اور ام کلثوم بھی عطا فرمائیں۔حیا ایمان کا لازمی جز وہے ۔خصوصا ایک عورت کا تو زیور ہی حیا ہے ،آپ میں ایمان کا یہ حصہ بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔آپ حد درجہ حیا دار اور گوشہ نشین خاتون تھیں۔
ایک مرتبہ رسول اللہۖ نے عورت کی بہترین صفت کے بارے میں پوچھا تو حضرت فاطمہ نے جواب دیا کہ ”عورت کی سب سے اعلی وارفع خوبی یہ ہے کہ نہ وہ کسی غیرمرد کودیکھے اور نہ کوئی غیر مرد اسے دیکھے۔آپ نے وفات سے پہلے اپنی تدفین کے بارے میں جو ہدایات فرمائیں،ان میں پردے کا خیال رکھنے بارے میں باتیں بھی تھیں۔حیا کا اس سے اعلی درجہ کیا ہوسکتا ہے کہ انسان موت کے بعد بھی اپنے پردے کا خیال سے غافل نہ ہو۔حضرت فاطمہ الزھرا کی وفات ہجرت کے گیارویں سال ماہ رمضان میں نبی پاک ۖ کے وصال کے چھے ماہ بعد ہوئی،آپ کا انتقال رات کے وقت ہوا اور ان کی وصیت کے مطابق انہیں رات کے وقت ہی دفن کیا گیا۔