اگر امام کا صبر نہ ہوتا تو ایک صدی کے بعد اسلام کا اثر تک باقی نہ رہتا۔ امام کے صبر نے ابتدا سے آج تک اسلام کی حفاظت کی ہے۔ حقیقت میں اگر امام حسین اپنے تاریخی صبر کو کربلا میں ثبت نہ کرتے تو بلا شک ایک صدی کے بعد اسلام کا نام و نشان تک باقی نہ رہتا۔ امام حسین کی شخصیت کے دو پہلو ہیں؛ ایک جھاد اور شھادت کا پہلو ہے اور یہ ایک ایسا طوفان کہ جس کو تاریخ بیان کرتی ہے اور یہ طوفان اپنی برکات کو لئے ہوئے ایک دن برپا ہو گا دوسرا، معنوی اور عرفانی پہلو ہے کہ جو خاص طور پر دعائے عرفہ کی صورت میں واضح اور روشن ہے۔ ہمارے پاس دعائے عرفہ کی طرح کی بہت کم دعائیں ہیں کہ جس میں غم، معرفت الہی، اور خداوند کے ساتھ توسل ہو۔
دوسری دعائیں جو کہ روز عرفہ سے مربوط ہیں، صحیفہ سجادیہ میں موجود ہیں جو کہ حضرت امام حسین کے فرزند کی دعاوں کا مجموعہ ہے۔ میں ان دونوں کو آپس میں مقایسہ کر رہا تھا، پہلے دعائے امام حسین کو پڑھا اور پھر دعائے صحیفہ سجادیہ کو، میری نظر میں ایسا محسوس ہوا جیسے حضرت امام سجاد کی دعا روز عرفہ کی دعا کی شرح ہو۔ وہ متن ہے تو یہ شرح ہے، وہ اصل ہے تو یہ فرع ہے۔
اب ہم واقعہ عاشورا اور کربلا کی طرف پلٹتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہاں پر بھی میدان جنگ ہے لیکن پہلے لمحہ سے آخری لمحہ تک جو کچھ تاریخ میں نقل ہوا ہے حضرت امام انتہائی خشوع، خضوع اور توسل کے ساتھ اپنے چہرہ مبارک کو کربلا کی گرم زمین پر رکھا اور خدا وند متعال کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے کہا”الہی رضا بقضائک و تسلیما لامرک” مکہ سے خارج ہوتے ہوئے یہ فرمایا” من کان فینا باذلا مھج موطنا علی لقا اللہ نفسہ فلیرحل معنا” اسی تضرع خضوع، اور توسل اور معرفت کے ساتھ شروع کی اور زندگی کے آخری لمحہ تک رضا بقضائک کا جملہ دہراتے رہے۔ یعنی عاشورا، ایکعرفانی حادثہ ہے، الہی معرفت ہے، جنگ ہے، شہادت ہے، میدان جنگ ہے لیکن جب بھی آپ اس واقعہ کو اصلی نگاہ سے دیکھیں گے تو آپ کو نظر آئے گا کہ اس میں روحانیت، معرفت، معنویت، تضرع اور توسل اور دعائے عرفہ کے دلچسپ جملات موجود ہیں۔۔ پس امام حسین کا دوسرا پہلو، جہاد اور شہادت کی عظمت کا پہلو ہے۔
امام کے وجود کی خصوصیات اور برکات بہت زیادہ ہیں اور ہر ایک کی الگ الگ وضاحت اور تشریح ہے لیکن اگر کچھ برجستہ خصوصیات کو ان خصوصیات سے بالاتر بیان کرنا چاہئے۔ ان میں سے ایک صفت اخلاص ہے یعنی خدا کے وظیفہ کو انجام دینا اور ذاتی معاملات میں دخالت نہ دینا۔ دوسری صفت خدا پر اعتماد ہے ظاہرا نظر آتا تھا کہ یہ شعلہ کربلا کے صحرا میں خاموش ہوجائے گا۔ کس طرح ممکن ہے اس کو فرزدق شاعر نے دیکھا ہو لیکن امام نے نہ دیکھا ہو، نصیحت کرنے والے جو کہ کوفہ سے آئے تھے دیکھ رہے تھے لیکن حسین بن علی نے نہ دیکھا ہو جو کہ عین اللہ تھے۔ کیا امام نہیں دیکھ رہے تھے اور سمجھ نہیں رہے تھے۔ ظواہر یہی تھے لیکن خدا پر اعتماد یہ حکم کرتا تھا کہ ان ظواہر کو ایک طرف رکھتے ہوئے یقین کرے تاکہ حق اور حق بیانی ان پر غالب آجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی نیت اور ہدف کو مدنظر رکھنا چاہئے اگر ہدف کا تعین ہو جائے تو با اخلاص انسان کیلئے منزل مقصود تک پہنچنے کیلئے اتنا ہی کافی ہے۔
Muhammad PBUH
ایک عارف شخصیت نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اگر فرض کریں (اگر چہ ایسا نہیں ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام کام جو انجام پاتے تھے ان کا ہدف تھا کہ انجام پائیں اور انجام پاتے تھے لیکن یہ الگ بات ہے کہ کسی اور کے ذریعہ انجام پاتے تھے۔ کیا اس صورت میں بھی پیغمبر اسلام کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی نہیں تھے ؟ کیا وہ کہتے تھے کیونکہ یہ کام کسی اور کے ذریعہ ہونا ہے میں یہ نہیں کروں گا؟ کیا اس طرح تھا یا نہیں؟ ہدف یہ تھا کہ کام ہونا چاہئے کس کے ذریعہ ہو یہ مہم نہیں لیکن ہدف مہم ہے۔ “ذات،نفساور میں ” یہ با اخلاص شخصیت کیلئے اہم نہیں ہوتا ہے۔ اخلاص ہے، خدا پر اعتماد ہے، جانتا ہے کہ اس ہدف کو خدا وند متعال بخوبی انجام پائے گا کیوں کہ وہ فرماتا ہے “وان جند نا لھم الغالبون” بہت سارے گروہ کہ جو غالب ہیں میدان جہاد میں شہادت کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں اور غالب بھی وہی ہوتے ہیں۔
قیام کربلا کا بروقت انتخاب تیسری خصوصیت، موقع کی پہچان ہے۔ امام حسین نے موقع اور محل کی پہچان میں اشتباہ نہیں کیا تھا۔ واقعہ کربلا سے دس سال پہلے تک امامت کی ذمہ داری ان کے پاس تھی۔ آپ مدینہ میں دوسرے امور میں مصروف تھے اور کربلا میں نہ آئے۔ لیکن صرف اور صرف اس فرصت سے فائدہ اٹھایا کہ اس اہم کام کو انجام دینا چاہئے اس فرصت کو پہچانا اوراس کو نہیں چھوڑا اور پھر اس کو گلے سے لگالیا، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں خدا وند متعال نے ان کو اتنے بلند مقام پر پہنچایا “ورفعناہ مقاما علیا” تمام عوامل کہ جو دنیا دار اور ظالم حکمران چاہتے تھے کہ ختم کر دیں، اور لوگ ان کو بھول جائیں اور توہین کریں گے، خدا نے حفاظت میں رکھا اور ہمیشہ زندہ اور جاوید رکھا وجہ یہ تھی کہ تینوں خصوصیات رکھتے تھے پہلی: با اخلاص ہونا اپنے لئے کچھ پسند نہیں کیا، دوسری: خدا پر اعتماد رکھنا اور جانتے تھے کہ یہ کام اور اس کا ہدف حتمی ہے اور اپنے صحابہ پر بھی اعتماد تھا تیسرا: زمان اور مکان کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ امام کا صبر ، اسلام کی نجات ہے۔
حقیقت میں اگر امام اپنے تاریخی صبر کو رقم نہ کرتے تو اسلام کا اثر ہی ختم ہو جاتا اور آج امام حسین کے صبر کی برکت کی بدولت دین زندہ ہے، یہ صبر اتنا آسان نہ تھا۔ صبر فقط یہ نہیں ہے کہ انسان کو شکنجہ میں رکھیں یا کسی کی اولاد کو شکنجہ میں رکھیں اور ان کو قتل کر دیں یا قتل کی دھمکی دیں اور انسان صبر کرے لیکن یہ صبر کا اہم مرحلہ ہے لیکن اس سے بھی مہم تر یہ ہے کہ کوئی اس کے ذہن میں مختلف قسم کے وسوسے ڈالے کہ اس راہ کو جاری رکھنے سے روکے، وہی کہ جو امام حسین کے ساتھ کر رہے تھے کہ: حضور آپ کہاں جا رہے ہیں؟ اپنے آپ کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اپنے خاندان کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں، دشمن کو موقع دے رہے ہیں، اپنے آپ کو قاتلوں کے حوالے کر رہے ہو (ان کے ہاتھوں کو اپنے خون سے رنگنا چاہتے ہو)، جو کوئی بھی ملتا تھا امام حسین سے یہی کہتا تھا کہ آپاس اقدام کی وجہ سے دوسروں کی جان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور دشمن کو مسلط تر کرنا چاہتے ہیں اور آپ ان کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ایک بہت مہم اور تردید آور نکتہ ہے۔
Roza Hazrat Imam Hussain
یہ ایک واضح جنگ نہیں ہے کہ ایک آدمی کہے کہ میں جا رہا ہوں تا کہ قتل ہو جاوں، نہیں! ممکن ہے کہ امام حسین کیلئے یہ چیز بیان کی ہو کہ اگر آپ قتل ہو گئے تو آپ کے پیروکاروں کا قتل عام کریں گے، آپ کو زندہ رہنا چاہئے۔ آپ فرزند پیغمبر ہیں اپنی جان کی حفاظت کریں اور دوسروں کی جان کی بھی حفاظت کریں۔ لہذا عظیم اہداف کیلئے خدا پر اعتماد کر کے کوشش کرنی چاہئے اور خلوص کی انتہا کرتے ہوئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے اورہر قسم کی مشکلات اور مصیبتوں پر صبر کرنا چاہئے۔