چاہت مصطفیٰ۔۔سید الشہداء حضرت امام حسین

Hazrat Imam Hussein

Hazrat Imam Hussein

تحریر: حافظ کریم اللہ چشتی پائی خیل، میانوالی

جس نے حق کربلا میں ادا کر دیا اپنے نانا کا وعدہ وفا کر دیا
گھر کا گھر سب سپرد خدا کر دیا کر لیا نوش شہادت کا جام
اس حسین ابن حیدر پہ لاکھوں سلام

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ “اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم کوان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو انہوں نے وہ پوری کردیں (اس پر) اللہ پاک نے فرمایا “میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنائوں گا انہوں نے عرض کیا (کیا) میری اولاد میں سے بھی ؟ ارشاد ہوا (ہاں مگر) میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچتا۔ (البقرہ ١٢٤)اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں اپنے اولی العزم اور بزرگ پیغمبر حضرت سیدناا براہیم کو مختلف آزمائشوں میں مبتلا کرنے اوران سے کامیابی سے گزرنے اور پھر اس پر انعام کا تذکرہ فرمایا ہے جو لوگ آزمائش سے بھاگ جاتے ہیں وہ پست رہتے ہیں اور جو لوگ آزمائش ک وسینے سے لگاتے ہیں وہ عظیم ہ وجاتے ہیں آزمائش ہرکسی کو نصیب نہیں ہوتی آزمائش میں ڈالابھی اسی کو جاتا ہے جس سے اللہ پاک کو پیار ہوتا ہے اور وہ اپنے محبوب بندوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے پیارکیااوراس پیارکے نتیجے میں انہیں آزمائش میں ڈالااوروہ ہرآزمائش میں سُرخرو رہے سلسلہ آزمائش جو حضرت ابراہیم سے شرو ع ہوا تھا حضرت امام حسین پر آ کر ختم ہوا۔

امام عالی مقام حضرت امام حسین کی ولادت باسعادت5 شعبان ہجرت کے چوتھے سال ہوئی سرکارمدینہ ۖکوآپ کی پیدائش کی اطلاع دی گئی تو آپۖ تشریف لائے ۔ آپ کے کان میں اذان کہی دعا فرمائی اورآپۖنے حسین نام رکھاآپ کے نام رکھنے کی روایت یوںہے حضرت سیدناعلی المرتضیٰ فرماتے ہیں کہ جب امام حسن پیداہوئے توان کانام حمزہ رکھااورجب امام حسین پیداہوئے توان کانام ان کے چچاکے نام پرجعفر رکھا (حضرت علی المرتضی فرماتے ہیں )مجھے نبی کریمۖ نے بلاکرفرمایامجھے ان کے یہ نام تبدیل کرنے کاحکم دیاگیاہے (حضرت علی فرماتے ہیں ) میں نے عرض کیا “اللہ اوراس کا رسولۖ بہترجانتے ہیں پس آپۖنے ان کا نام حسن وحسین رکھے۔(مسنداحمدبن حنبل) حدیث مبارکہ میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ حضورۖنے فرمایا”کہ مجھے حکم آیاہے کہ میں دونوں نام بدل دوں اس کامطلب یہ ہواکہ ولادت کے ساتھ ہی امام حسن وامام حسین کا معاملہ زمینی نہ رہانام تک بھی زمینی رکھنے کی اجازت نہ ہوئی بلکہ نام بھی آسمان سے بھیجے گئے امام حسین کودنیاکے پیمانوں پرتولنے والو امام حسین کانام بھی دنیاسے نہیں آیابلکہ آسمانوں سے بھیجاگیا۔حضرت عمران بن سلیمان سے روایت ہے کہ حسن اور حسین اہل جنت کے ناموں میں سے دونام ہیںجو کہ زمانہ جاہلیت میں کسی کے نام نہیں رکھے گئے تھے اللہ تعالیٰ نے حسن اورحسین کے نام چھپا رکھے تھے حتیٰ کہ نبی کریم ۖ نے اپنے نواسوں کے نام حسن اورحسین رکھے۔پانچ سوسال کے پورے عرصہ میں کسی بچے کانام حسن وحسین نہیں رکھاگیا۔نبی کریمۖکی محبت کی خاطراللہ پاک کویہ گوارانہیں ہواجومصطفیۖ کے محبوب ہونے والے ہیں ان کانام بھی کسی اورکارکھاگیاہو۔

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

جنت کی زینت سیدناامام حسن وامام حسین رضی اللہ تعالی عنہمامصطفیۖخداکی چاہت اورحسین مصطفیٰ ۖکی چاہت جوحسین کوتکلیف دے وہ مسلمان کیسے رہ سکتاہے حسن وحسین جنت کے دوستون ہیں حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ حضورنبی کریمۖنے فرمایاحسن اورحسین عرش کے دوستون ہیں لیکن وہ لٹکے ہوئے نہیں اورآپ ۖ نے ارشادفرمایاجب اہل جنت جنت میں مقیم ہوجائیں گے توجنت عرض کرے گی اے پروردگارتونے مجھے اپنے ستونوں میں سے دوستونوں سے مزین کرنے کاوعدہ فرمایاتھااللہ تعالیٰ فرمائے گاکیامیں نے تجھے حسن اورحسین کی موجودگی کے ذریعے مزین نہیں کردیا(یہی تومیرے دوستون ہیں) (طبرانی ،المعجم الاوسط) ایک اورحدیث پاک میں آتاہے حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمۖنے فرمایاایک مرتبہ جنت نے دوزخ پرفخرکیا اورکہامیں تم سے بہترہوںدوزخ نے کہامیں تم سے بہترہوں جنت نے دوزخ سے پوچھا کس وجہ سے ؟دوزخ نے کہا اس لیے کہ میرے اندر بڑے بڑے جابرحکمران فرعون اورنمرودہیں اس پرجنت خاموش ہوگئی اللہ پاک نے جنت کی طرف وحی کی اورفرمایاتوعاجز ولاجواب نہ ہومیں تیرے دو ستونوں کوحسن اورحسین کے ذریعے مزین کروں گاپس جنت خوشی اورسرورسے ایسے شرماگئی جیسے دلہن شرماتی ہے۔ (طبرانی المعجم الاوسط)جنت حسن اورحسین کے نام پرفخرکرتی ہے اوردوزخ کومخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اے دوزخ حسن اورحسین میرے پا س ہیں اس لئے میں بہترہوں۔

آقاۖکی بارگاہ میں حسنین کریمین کامقام محبوبیت حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتاہوں کہ ہم حضورنبی کریمۖکے ساتھ (سفرمیں)نکلے ابھی ہم راستے میں ہی تھے کہ آپۖنے حسن وحسین علیہ السلام کی آوازسنی دونوں رورہے تھے اوردونوں اپنی والدہ ماجدہ سیدة النساء فاطمة الزہراسلام اللہ علیھاکے پاس تھے آپۖ ان کے پاس تیزی سے پہنچے راوی کہتے ہیں کہ میں نے آپ ۖکوسیدة النساء فاطمة الزہراسلام اللہ علیھاسے یہ فرماتے ہوئے سنامیرے بیٹوں کو کیاہواکیوںرورہے ہیں؟ سیدة النساء فاطمة الزہراسلام اللہ علیھانے بتایاانہیں سخت پیاس لگی ہے حضورنبی کریمۖپانی لینے کے لئے مشکیزے کی طرف بڑھے ان دنوں پانی کی سخت قلت تھی اورلوگوں کوپانی کی شدیدضرورت تھی آپۖنے لوگوں کوآوازدی کیاکسی کے پا س پانی ہے ؟ہر ایک نے کجائوں سے لٹکتے ہوئے مشکیزوں میں پانی دیکھامگران کوقطرہ تک نہ ملاآپۖ نے سیدہ فاطمہ الزہراسلام اللہ علیھاسے فرمایاایک بچہ مجھے دیں انہوں نے ایک پردے کے نیچے سے دے دیاپس آپۖنے اسکوپکڑکراپنے سینہ مبارک سے لگایامگروہ سخت پیاس کی وجہ سے مسلسل رورہاتھااورخاموش نہیں ہورہاتھاپس آپۖ نے اس کے منہ میں اپنی زبان مبارک ڈال دی وہ اُسے چوسنے لگاحتیٰ کہ سیرابی کی وجہ سے سکون میں آگیامیں نے دوبارہ اس کے رونے کی آوازنہ سنی جب کہ دوسرابھی اسی طرح(مسلسل رورہاتھا)پس حضورۖنے فرمایادوسرابھی مجھے دے دیں توسیدة النساء فاطمة الزہراسلام اللہ علیھانے دوسرے کوبھی حضورۖکے حوالے کردیاحضورۖنے اس سے بھی وہی معاملہ کیا(یعنی زبان مبارک اس کے منہ میں ڈالی)سووہ دونوں ایسے خاموش ہوئے کہ میں نے دوبارہ ان کے رونے کی آوازنہ سنی۔

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیںکہ حضورۖہمارے پاس اس حالت میں تشریف لائے کہ ایک کاندھے پرحضرت سیدنا امام حسن اورایک کاندھے پرحضرت امام حسین تھے آپۖکبھی حضرت امام حسن کوچومتے تھے اورکبھی حضرت امام حسین کوایک شخص نے آپۖسے عرض کیایارسول اللہۖ”آپ ان دونوںکوبہت محبوب رکھتے ہیں؟آپۖنے فرمایاجس نے ان دونوں کومحبوب رکھابیشک اس نے مجھے محبوب رکھااور جس نے ان دونوں سے بغض رکھااس نے درحقیقت مجھ سے بغض رکھا۔(البدایہ والنہایہ)حضرت سعدبن مالک فرماتے ہیں کہ میں آقاۖکی خدمت اقدس میں حاضرہوااس وقت امام حسن وامام حسین آپکی پشت مبارک پرکھیل رہے تھے “میں نے عرض کیایارسول اللہۖکیاآپ ان دونوںسے بہت محبت ر کھتے ہیں فرمایاکیوں نہ محبت رکھوں جبکہ یہ دونوں دنیامیں میرے پھول ہیں۔(کنزالعمال)حضرت زیدبن ابی زیاد فرماتے ہیں کہ حضورۖسیدہ فاطمة الزہرا کے گھرکے دروازے کے پاس سے گزرے اورحضرت امام حسین کے رونے کی آوازسنی توآپۖنے فرمایا!بیٹی اسکورونے نہ دیاکروکیاتمہیں معلوم نہیں کہ اسکے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔(نورالابصار) حضرت اسامہ بن زید فرماتے ہیں کہ میں ایک رات کسی کام کے سلسلے میں آقاۖکی خدمت اقدس میں حاضرہواآپۖاس حالت میں باہرآئے کہ آپۖکے پاس کوئی چیزکپڑے میں لپیٹی ہوئی تھی میں نے عرض کیااے اللہ کے نبی ۖیہ کیاہے ؟پس آپۖنے کپڑااٹھایا وہ سیدناحضرت امام حسن وامام حسین تھے فرمایایہ دونوں میرے اورمیری بیٹی کے بیٹے ہیں اے اللہ میں ان کومحبوب رکھتاہوں توبھی ان کومحبوب رکھ اورجوشخص ان کومحبوب رکھے تواسکوبھی محبوب رکھ۔(کنزالعمال)حضرت سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمۖسے سناکہ آپۖ فرماتے تھے کہ سیدناحضرت امام حسن و سیدناحضرت امام حسین یہ دونوں میرے بیٹے ہیں جس نے ان دونوںکومحبوب رکھااس نے مجھ کومحبوب رکھا اورجس نے مجھ کومحبوب رکھااس نے اللہ پاک کومحبوب رکھا اورجس نے اللہ پاک کومحبوب رکھااللہ پاک نے اس کوجنت میں داخل کیااور جس نے ان دونوں سے بغض رکھااس نے مجھ سے بغض رکھااور جس نے مجھ سے بغض رکھااس نے اللہ پاک سے بغض رکھااورجس نے اللہ پاک سے بغض رکھااللہ پاک نے اسکودوزخ میں داخل کیا۔

Allah

Allah

حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں آقاۖکی خدمت اقدس میں حاضرہواآپ نے حضرت امام حسن وحضرت امام حسین کواپنی پشت پربٹھایاہوا تھااورآپ دونوں ہاتھوں دونوں گھٹنوں پرچل رہے تھے تومیں نے کہا(اے شہزادو) تمہاری سواری کتنی اچھی ہے ؟توآپۖنے فرمایاسوار بھی بہت اچھے ہیں۔(کنزالعمال،البدایہ والنہایہ)حضرت یعلیٰ بن مرُّہ فرماتے ہیں کہ حضورۖنے فرمایا”(سیدناامام) حسین مجھ سے ہے اورمیں (سیدناامام)حسین سے ہوںجو (سیدناامام) حسین کومحبوب رکھتاہے وہ اللہ کومحبوب رکھتاہے حسین فرزندوں میں سے ایک فرزندہے۔(ترمذی،مشکوٰة)حضرت حذیفہ الیمان فرماتے ہیں کہ ہم نے ایک دن حضورۖکوبہت مسرور دیکھاتوعرض کیا۔یارسول اللہۖ!آج ہم آپ کوبہت مسرور و خوش دیکھتے ہیں رحمت دو عالم نورِمجسم شفیع معظم ۖنے فرمایا”میں کیوں نہ خوش ہوں جبکہ جبریل امین میرے پاس آئے ہیں اورانہوں نے مجھے بشارت دی ہے کہ بلاشبہ حضرت امام حسنامام حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اوران کاباپ ان سے بھی افضل ہے(کنزالعمال) فرمان رسول ۖمیرے ماں باپ حسنین پرقربان حضرت زربن حیش روایت کرتے ہیں کہ”ہم نے ایک روزدیکھاسجدے میں شہزادے آپۖکے کندھوں پرچڑھ جاتے ہیں۔۔پھرآپط کی پشت مبارک سے اترآتے ہیں ۔۔۔۔ساری نمازمیں یہی کیفیت رہی۔۔

۔۔کچھ لوگ جنہیں معلوم نہ تھاکہ شہزادے حضورۖکے کندھوں پر روزانہ چڑھتے ہیں انہوں نے اشاروں سے شہزادوں کوروکناچاہاحضورۖنے فرمایامیری نمازکے دوران میرے سجدوں میں حسن وحسین کندھوں پرچڑھیں یامیری گودمیں بیٹھیں انہیں کوئی منع نہ کرے دعوھمابابی وامیانہیں چھوڑدو (یعنی سوارہونے دو)میرے ماں باپ ان پرقربان ہوں (بیہقی ،السنن الکبریٰ )حضرت عبداللہ بن عمر ،حضرت عمرفاروق سے روایت کرتے ہیں کہ خداکی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں ہماری جان ہے ہم نے اپنے کانوں سے سناکہ حضورۖسیدہ کائنات حضرت فاطمة الزہراسلام اللہ علیھاسے مخاطب تھے وہ نبی جسے ہرکوئی حضورۖمیرے ماں باپ آپۖ پرقربان ہوںکہہ کرپکارتاہے خداکی قسم ہم نے سناحضورۖنے سیدہ کائنات حضرت فاطمة الزہراسلام اللہ علیھاسے بات کی توفرمایا”میری فاطمہ میرے ماں باپ تجھ پرقربان “۔اورآج فرمارہے ہیں حسن وحسین میرے ماں باپ تجھ پرقربان ۔آقاۖاللہ پاک کے پیغمبرہیں نمازمیں آئیں توشہزادوں کوکندھوں پربٹھالیں خداجانے اس محبت کاعالم کیاہے جن کے قد م چومنے کوعرش ترستاہے ،جن کااستقبال اللہ پاک قاب قوسین پروہ مصطفےٰۖ باہرسے نکلتے ہیں توحسن وحسین حضورۖکے کندھوں پرسوارہوتے ہیں ۔حضرت عمربن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے حسن وحسین علیہ السلام کوحضورۖکے کندھوں پرسواردیکھا توحسرت بھرے لہجے میں کہاکہ آپ کے نیچے کتنی اچھی سواری ہے آپۖنے ارشادفرمایاذرایہ بھی تودیکھوکہ سوارکتنے اچھے ہیں ۔اللہ پاک اپنی رحمت کے صدقے ،نبی رحمتۖورنواسۂ رسولۖکے صدقے ہمارے گناہ معاف فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین

Hafiz Kareem Ullah Chishti

Hafiz Kareem Ullah Chishti

تحریر: حافظ کریم اللہ چشتی پائی خیل، میانوالی
0333.6828540