امہات المؤمنین سیدہ حضرت خدیجہ طاہرہ رضی اللہ عنہا وہ نیک بخت خاتون ہیں، جن سے خلاصئہ کائناتۖ کا پہلا عقد ہوا اور جنھوں نے محمدبن عبد اللہ کو محمد رسول اللہ ہوتے ہوئے دیکھا۔آپ رضی اللہ عنہانے حضورۖ کو امورِ خانہ داری سے فارغ کرکے دین کی وہ خدمت انجام دی، جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ آپ رضی اللہ عنہا تاحیات حضورۖ کے نکاح میں رہیں اور آپ نے صحیح معنوں میں اپنا تن، من، دھن اللہ اور اس کے رسول ۖپر نچھاور کر دیا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بعض خصوصیاتقریش کا قبیلہ بلکہ عام طور سے اہلِ مکہ بت پرستی کے شرک میں مبتلا تھے اور یہ شرک انھیں اتنا پیارا تھا کہ اس کے خلاف کوئی لفظ سننا بھی ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا، لیکن جاہلیت کے اس دور میں گنتی کے دو چار آدمی ایسے بھی تھے جن کو فطری طور پر بت پرستی سے نفرت تھی؛ ان میں ایک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہابھی تھیں۔ اس دور کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ واحد خاتون تھیں جو شرک و بت پرستی سے بے زار تھیں۔اللہ تعالیٰ نے ان پر دوسرے بہت سے انعامات کے علاوہ دولت مندی کی نعمت سے بھی نوازا تھا۔ رسول اللہۖکا حال اس کے برعکس تھا۔ انھوں نے اپنی پوری دولت گویا آپ کے قدموں میں ڈال دی اور آپ کو اس سلسلے کی فکروں سے آزاد کر دیا۔ قرآن مجید کی سورہ والضحیٰ میں اسی صورتِ حال کے بارے میں فرمایا گیا ہے: وَوَجَدَکَ عَائِلًا فَاَغْنَیٰ۔اے پیغمبر! تم کو تمھارے پروردگار نے مفلس اور نادار پایا، پھر مستغنی کر دیا۔ اس سلسلے میں یہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ زید بن حارثہ، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے زر خرید غلام تھے، انھوں نے دیکھا کہ زید کو رسول اللہۖسے خاص انس و محبت ہے اور آپ کا معاملہ بھی زید کے ساتھ خصوصی درجے کی شفقت و پیار کا ہے، تو انھوں نے زید کو حضورۖہی کی ملکیت میں دے دیا، پھر آپ ۖ نے ان کو آزاد کر دیا اور عربوں کے اس وقت کے رواج کے مطابق ان کو اپنا منہ بولا بیٹا، بنا لیا یہاں تک کہ ان کو زید بن حارثہ کے بجائے زید بن محمد ہی کہا جانے لگا۔
۔پھر جب نکاح کے پندرہ سال بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ۖکو شرفِ نبوت سے سرفراز فرمایا اور آپ ۖپر وہ شدید غیر معمولی حالات آئے، تو اس وقت آپ ۖکو جس طرح کی دانش مندانہ و ہمدردانہ تسلی کی ضرورت تھی، وہ اللہ تعالیٰ کی خاص توفیق سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاہی سے ملی اور جب وہ آپ ۖکو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیںـ جو مکہ کی پوری آبادی میں موحد، صحیح العقیدہ نصرانی اور توریت و انجیل کے عالم تھےـ اور انہوں نے رسول اللہ ۖسے غارِ حرا کی واردات اور سرگذشت سن کر یقین و وثوق کے ساتھ آپ کے مبعوث من اللہ نبی ہونے کی بات کہی، تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھی ان کی اس بات کو دل سے قبول کر لیا، بلکہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ رسول اللہ ۖکے حالات و اوصاف کے پندرہ سالہ تجربہ کی بنا پر پہلے ہی سے ان کا دل آپ کی ہر بات کی تصدیق کے لیے تیار ہو چکا تھا۔
اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ پوری امت میں وہ سب سے پہلے رسول اللہ ۖکے مبعوث من اللہ نبی ہونے کی تصدیق کرنے والی ہیں۔پھر جب آپ نے بحکمِ خداوندی توحید اور دینِ حق کی دعوت کا کام شروع کیا تو پوری قوم آپ کی دشمن بن کر کھڑی ہو گئی۔ ہر ممکن طریقے سے آپ کو ستانا برسوں تک ان بدنصیبوں کا محبوب ترین مشغلہ رہا۔مظلومیت کے اس پورے دور میں حضرت خدیجہ ?نہ صرف آپ کی غم خوار و غم گسار بلکہ پوری طرح شریکِ حال رہیں، یہاں تک کہ جب ان ظالموں نے مکہ کی قریباً پوری آبادی کو اپنے ساتھ لے کر آپۖ کا اور آپ کے خاندان بنو ہاشم کے ان تمام لوگوں کا بھیـ جنھوں نے اگرچہ آپ کی دعوت اسلام کو قبول نہیں کیا تھا، لیکن نسبی اور قرابتی تعلق کی وجہ سے آپ کی کسی درجے میں حمایت کرتے تھےـ بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور آپۖ اور آپ کے وہ قریبی رشتے دار بھی شعبِ ابی طالب میں محصور کر دیے گئے اور ایسی ناکہ بندی کی گئی کہ کھانے پینے کی ضروریات بھی ان کو نہ پہنچ سکیں، یہاں تک کہ ان لوگوں کو کبھی کبھی درختوں کے پتے کھا کر گذارہ کرنا پڑا۔ اس حالت میں بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاشعب ابی طالب میں آپ کے ساتھ رہیں، حالاں کہ ان کے لیے بالکل ممکن تھا کہ وہ ان دنوں اپنے گھر ہی رہتیں۔(معارف الحدیث) تو آئیے یہاںاختصار کے ساتھ اس نیک خاتون کا ذکرِ خیر کریں۔
نام و نسب خدیجہ نام، اُمّ ہند کنیت، طاہرہ لقب۔ سلسلہ نسب یہ ہے: خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی۔ قصی پر پہنچ کر ان کا خاندان رسول اللہ ۖ کے خاندان سے مل جاتا ہے۔ والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھا اورلُوی بن غالب کے دوسرے بیٹے عامر کی اولاد تھیں۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد اپنے قبیلہ میں نہایت معزّز شخص تھے، مکہ آکر اقامت کی۔ عبدالدار بن قصی کے جو اُن کے ابن عمّ تھے حلیف بنے اور یہیں فاطمہ بنتِ زائدہ سے شادی کی، جن کے بطن سے عام الفیل سے 15 سال قبل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔سنِ شعور کو پہنچیں تو اپنے پاکیزہ اخلاق کی بنا پر طاہرہ کے لقب سے مشہور ہوئیں۔ (سیرة الصحابہ)
پہلی مسلمان خاتو ن ترمذی شریف میں ہے کہ بعض اہلِ علم کا کہنا ہے کہ مَردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آٹھ برس کی عمر میں مسلمان ہوئے، اور عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ ایمان لائیں ۔(ترمذی)
سب سے افضل خاتون حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہیوہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ۖکو فرماتے ہوئے سنا کہ (سابقہ) امت میں سب سے بہتر مریم بنتِ عمران ہیں اور (اس) امت میں سب سے بہتر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔(بخاری)
ٍجنت کی خوش خبری عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ۖنے عمرہ کیا اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ عمرہ کیا۔ جب مکہ پہنچے تو آپ نے طواف کیا ہم نے بھی طواف کیا۔آپۖ صفا اور مروہ کے پاس پہنچے، ہم بھی آپ کے ساتھ وہاںآئے۔ ہمۖ آپ کو اہلِ مکہ کی طرف سے آڑ میں لیے ہوئے تھے، اس لیے کہ کہیں تیر نہ ماردیں۔ میرے ایک ساتھی نے ابن ابی اوفی سے پوچھا کہ کیا آپ کعبہ میں داخل ہوئے تھے؟ انھوں نے کہا: نہیں۔ اس نے پھر کہا کہ ہم سے بیان کیجیے جو آپ نے خدیجہ کے متعلق بتایا تھا۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے فرمایا تھا: خدیجہ کو جنت میں ایک گھر کی خوش خبری سنادو، جو موتی کا ہوگا۔ اس میں شور و غل نہ ہوگا اور نہ کوئی تکلیف ہوگی۔(بخاری)
ربِ کریم اور جبریلِ امین کا سلامحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل رسول اللہ ۖکے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک برتن لیے آرہی ہیں، جس میں سالن یا کھانا یا پینے کی کوئی چیز ہے، جب یہ آپ ۖکے پاس آجائیں تو اللہ تعالیٰ کی اور میری طرف سے اُنھیں سلام کہیے اور جنت میں موتی کے محل کی بشارت د یجئے جس میں نہ شور و شغب ہوگا نہ تکلیف۔(بخاری)