حضرت خواجہ غلام حسن سواگ رحمة اللہ علیہ

Hazrat Khawaja Ghulam Hasan Peer Sawaagh

Hazrat Khawaja Ghulam Hasan Peer Sawaagh

تحریر: صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی
تصوف کا روشن مینار
عالمِ انسانیت کا سب سے بڑااورا ہم مسئلہ بلکہ فریضہ یہ ہے کہ اعلیٰ اقدار اور بہترین اخلاق وعادات کی زیادہ سے زیادہ ترویج اور نشرواشاعت کی جائے اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں انسانی اخلاق و اقدار کے بہترین عملی نمونے دنیا کے سامنے پیش کئے جائیںاس موضوع پر زیادہ سے زیادہ کتابیں لکھی اور شائع کی جائیں اور معلوم انسانی تاریخ میں اعلیٰ اخلاق و اوصاف کے حامل اوران کے پیامبروں کی مبارک زندگیوں کے حالات وواقعات کی نشرواشاعت کی جائے ،ابتدائے آفرینش سے دنیا ئے انسانیت دو عظیم مسئلوں سے دوچار ہے ہر چند حضرت انسان نے ہواؤں کو مسخر کرلیا چاند اس کا معمولی شکار قرار پاگیا ہے مگر یہ دو مسائل اپنی شدت اوراہمیت کے اعتبار سے گھٹنے کی بجائے برابر بڑھ رہے ہیں یہ مسائل ہیں بھوک اورافلاس سے عدم تحفظ اورامن وآشتی کی آرزو۔

ہردور کا انسان کبھی اپنے طورپر اور کبھی آسمانی ہدایت کی روشنی میں برابر ان مسائل کے حل کے لئے کوشاں رہا ہے پوری طرح مطمئن نہ ہو کر وہ مغرب کی سائنس اورٹیکنالوجی کی طرف دیوانہ وار لپکا کہ شاید اسے اپنے درد کا شافی درماں یہیں سے مل سکے لیکن افسوس کہ اس کا یہ خواب بھی سراب ثابت ہوا ایک صدی کے تلخ تجربات نے اسے آج یہ سوچنے پرمجبور کر دیا ہے کہ انسانی جسم کی سہولت او روقتی فائدے کی خاطر سائنس نے بلاشبہ بہت مفید ایجادات اور اضافے کئے ہیں تاہم انسانیت کو اس کی حقیقی منزل جو یقینا امن و آشتی اور انسانی بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ ایک ہمدرد ،غمگسار، خیرخواہ اورجنت نظیرمعاشرے سے کوسوں دور کر دیاہے آج کاانسان جہاں اخلاقی اور روحانی اعتبار سے وحشی دور کو بھی پیچھے چھوڑ گیاہے ٹھیک وہاں اس نے اپنے آپ کو مادی اعتبار سے بھی تباہی وبربادی کے نشانے پر لاکھڑا کیاہے ۔

اس دردناک صورتحال نے پوری دنیاکے مفکرین کوسوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ غالباً انسانی زندگی کے طوفان کے آگے بند باندھنے یااس کا رخ موڑنے کے لئے مذہب اور عقیدے سے زیادہ موثر ومفید اور کوئی ذریعہ نہیں ہے یہی وہ طاقت ہے کہ اسے رہنما بنا کر انسانی زندگی کی حقیقی منزل تک پیش رفت کی جاسکتی ہے اسکے سوا دوسرے تمام راستے نہ صرف یہ کہ اصل منزل تک پہنچنے کے لئے مسدود ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے تمام راستے اصل منزل سے مزید دوری کا سبب ثابت ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں ظاہر ہے کہ ان حالات میں وہی نظریہ تمام دکھوں کاعلا ج ثابت ہوسکتا ہے جس میں ماؤ شما کی تمیز نہ ہو، کالے گورے اورعربی عجمی میں تفریق کاروادار نہ ہو جس میں شاہ وگدا ،ا میر وغریب برابر اور شانہ بشانہ کھڑے ہوںجو الخلق عیال اللّٰہ (ساری مخلوق اللہ کاکنبہ ہے )کاعالمگیر نظریہ پیش کر کے دنیائے انسانیت کو ایک ہی گھرانے اور کنبے کے افراد قرار دیتاہو ، جہاں ایک فرد کے پاؤں میں کانٹا چبھے تو اس کی کسک سارا خاندان محسوس کرتاہو گویا
خنجر چلے کسی پے تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا در د ہمارے جگر میں ہے۔

Hazrat Saadi

Hazrat Saadi

حضرت سعدی کے الفاظ میں صورت حال کچھ یوں ہے
بنی آدم اعضائے یکدیگر اند
کہ در آفرینش زیک جوہر اند
چوں عضو بدرد آورد روزگار
دگر عضوہا را نماند قرار
یہ آفاقی نظریہ اسلام نے پیش کیاسرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا معاشرہ قائم فرمایا جسے چودہ سوسالہ تاریخ اسلام میں ہر دور کے صوفیاء اور فقراء نے اپنے عمل وکردار سے اسے زندہ تابندہ رکھا ،حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمة اللہ علیہ کے یہ الفاظ ہمارے اسی مثالی طرزِ حیات کاتعارف کراتے ہیں آپ نے فرمایا:
یکے خار نہد تو ہم خار نہی ایں دنیا خار خار باشد …
میان مردماں ہم چنین است کہ بانغزاں نغزای
باکوزاں کوزای اما میان درویشاں ہم چنین نیست
کہ با نغزاں نغزیٰ باکوزاں ہم نغزی ١
”اگر کوئی کانٹا رکھے اور تو بھی اس کے بدلے میں کانٹا رکھے تو کانٹے ہی کانٹے ہو جائیں گے عام لوگوں کا دستور تو یہ ہے کہ اچھے کے ساتھ اچھا اور برے کے ساتھ برا پیش آتے ہیں مگر درویشوں کا دستوریہ نہیں ہے یہاں نیک و بد دونوں کے ساتھ نیک ہونا چاہیے۔”

مشائخ کرام کے د ستور العمل کا سرمایہ یہ رہا ہے
ہر کہ مارا رنجہ داد راحتش بسیار باد
ہر کہ مارا یار نبود ایزد اورا یار باد
ہر کہ خارمے افگند در راہ مااز دشمنی
ہر گلے کز باغ عمرش بشگفد بے خار با
حضرت قبلہ خواجہ غلام حسن سواگ رحمة اللہ علیہ نے ایک دفعہ لنگر عالیہ سے متعلق اپنے ایک مرید سے انتہائی درد مندی اور گلو گیر آواز میں فرمایا کہ ”میرے بھائی! بعض اوقات مجھے بھوک ستاتی ہے سب کچھ آپ لوگوں (لنگر)کا ہے اگر میرے پاس کچھ ہو تو میں کچھ چنے لے کر کسی برتن میں رکھ دوں تاکہ بھوک کی صورت میں خود بھی کھائوں اور سفر پر جانے والے درویشوں کو بھی اس میں سے دے دیا کروں ” ۔

نقشبندی سلسلہ کے سر خیل اور آبروئے مسند تصوف حضرت خواجہ غلام حسن سواگ رحمة اللہ علیہ ایک بے لوث اور بے ریا مردِ درویش تھے آج تک کسی کو بھی آپ کے در سے خالی ہاتھ جاتے نہیں دیکھا گیا آپ نے ہمیشہ بھوک میں مبتلا انسانیت کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا ہے اور آپ کسی بھوکے انسان کو کھانا کھلا کر سکون محسوس کرتے تھے آج بھی آپ کے آستانے پر حاضر ہونے والا لنگر کھائے بغیر نہیں جا سکتا حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی رحمة اللہ علیہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ اکثر روزہ سے ہوتے بعض دفعہ سحری کے وقت خواجہ عبد الرحیم (خادم) کھانا لے کر جاتے اور عرض کرتے حضور ! آپ نے افطاری کے وقت بہت ہی کم کھایا تھا سحری کے وقت کچھ تناول نہ فرمائیں تو ضعف بڑھ جائے گا۔ یہ سن کر آپ زارو قطار رونے لگے اور فرمایا
”چند یں مسکیناں و درویشاں در کنج ہائے مساجد و گرسنہ و
فاقہ زدہ اند ایں طعام در حلق چگونہ فرو رود”
”کتنے مسکین اور درویش مساجد کے کونوں اور بازاروں میں بھوکے پڑے ہوئے ہیں بھلایہ کھانا میرے حلق سے کیوں کر اُتر سکتا ہے”۔

Attributes

Attributes

ایک انسان کو بہتر انسان بنانا، اسے تمام اخلاقی صفات سے آراستہ کرنا، اسے خدمت گزار ، ہمدرد ، رضا کار، خدا ترس، جفا کش ، بردبار ، ایثارپیشہ ، نرم دل اور نرم خو بنانا ایسا آسان کام نہیں جو چٹکیوں میں کر لیا جائے قارئین سے مخفی نہیں کہ انسان کو سکھانا اور سدھانے سانپ کا سکھلانے سدھانے سے کہیں مشکل ہے، اس لئے ضروت تھی کہ بڑے بڑے ادارے ہوں جہاں انسان کو انسان بنانے کی عملی تربیت گاہیں قائم ہوں کیونکہ آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا”۔

یہ اسلام کا اعجاز ہے کہ جب تک اس کی حکومتیں مثالی (خلافت راشدہ) رہیں تو یہ حکومتیں اس عظیم الشان کام کے خود بڑے ذمہ دار ادارے کی حیثیت رکھتی تھیں مگر جونہی یہ مثالی حکومتیں ختم ہوئیں اور بادشاہوں کے پاس منتقل ہو گئیں تو اسلام کے ان اعلیٰ اخلاقی اور روحانی اداروں کی سنبھال اور دیکھ بھال کے لئے ہزاروں کی تعداد میں صوفیاء اور مشائخ میدانِ عمل میں نکل آئے انہوں نے دنیا کے گوشے گوشے میں اپنی خانقاہیں قائم کر لیں، اپنی بے نفسی، منکسر مزاجی اور فکر و عمل کی پاکیزگی کے ذریعے انسانیت کی خدمت میں مصروف ہو گئے، اگر ہمارے پاس تصوف اور روحانیت کا یہ عظیم الشان ادراہ نہ ہوتا تو جہاں اسلام (معاذ اللہ) اپنی کشش کھو چکا ہوتا، وہاں دنیا بھی کب کی نفسانیت ہوا و حرص، چھینا جھپٹی اور زر پرستی کے اندھیروں میں مبتلا ہوکر اپنی حقیقی منزل کا نشان گم کر چکی ہوتی اور کچھ عجب نہیں کہ بے شمار علاقوں سے اقتدار کے خاتمے کے بعد مسلمان اپنا بستر بوریا لپیٹ چکے ہوتے
تصوف کیا ہے؟۔

اسلام کے عمل پہلو تزکیہ نفس اور تصفیہ اخلاق کا نام تصوف ہے۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت مبارکہ کا مقصد یہ بیان فرمایاہے ارشاد ہوا۔
بعثت لاتمم مکارم الاخلاق میں اخلاقی محاسن کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں ۔
اخلاقی زندگی کے دورخ ہیں۔ ایک انسان کا دوسرے انسان سے بہتر رشتہ ،اور دوسرے انسان کا اپنے خالقِ حقیقی سے بہتر رشتہ ، ان دونوں رشتہ کے حقوق کی بہتر ادائیگی کا نام تصوف ہے۔حضرت اما م غزالی رحمة اللہ علیہ نے مختلف علوم و فنون میں کمال حاصل کرنے اور انہیں چھاننے کھنگالنے کے بعد فرمایا
”صوفیا ئے کرام با لخصوص اللہ تعا لیٰ کے راستے پر چلنے والے ہیں ان کی سیرت سب سے اچھی، ان کا راستہ سب سے سیدھا، ان کے اخلاق بہترین اخلاق ہیں، اگر سارے دانشمندوں کی عقل، فلسفیوں کا فلسفہ اور شریعت کے رموز جاننے والے علماء کا علم جمع کر لیا جائے تا کہ ان کی سیرت یا اخلاق میں کچھ تبدیلی کر دیں یا اسے بہتر چیز سے بدل دیں تو انہیں اس کی گنجائش نہیں ملے گی، اس لئے کہ ان کے تمام حرکات و سکنات ظاہر وباطن میں نورِ نبوت کے چراغ سے ماخوذ ہیں اور روئے زمین پر نبوت کے سوا کوئی نور نہیں ہے جس سے روشنی حاصل کی جا سکتی ہو”
تصوف کے بارے میں خود تصوف کے ائمہ اکابرین کیا فرماتے ہیں ملاحظہ ہو ،سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

Quran

Quran

” ایں راہ کسے یابد کہ کتاب بردست راست گرفتہ باشد و سنت مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بردست چپ و در روشنائی ایں دو شمع مے رود تا نہ در مفاک شبھت افتدو نہ در ظلمت بدعت”
یہ راہ تو صرف وہی پا سکتا ہے جس کے دائیں ہاتھ میں قرآن اور بائیں ہاتھ میں سنتِ رسول ہو ،اور وہ ان دو چراغوں کی روشنی میں راستہ طے کرے تا کہ نہ شبہات کے گڑھوں میں گرے اور نہ بد عت کی تاریکی میں بھٹکے”۔
شیخ ابو بکر لحمستانی رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں۔
”الطریق واضح و الکتاب و السنتہ قائم بین اظھرنا”
”راستہ واضح ہے اور کت ب و سنت ہمارے سامنے ہیں ”
حضرت شیخ نصرالدین چراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
(مشرب پیر)…حجت نمی شود دلیل از کتاب و سنت مے باید
پیر کا مسلک حجت نہیں ہے دلیل قرآن و حدیث سے ہونی چاہیے۔
حضرت شاہ کلیم اللہ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
”اے برادر تغاوت مراتب فقرا اکر امروز خواہی کہ دربابی بجانب شریعت اونگاہ کن کہ شریعت معیاراست”
” میرے بھائی اگر آج تم فقرا کے مدارج دیکھنا چاہتے ہو تو شریعت پر ان کے عمل سے اسباب کا اندازہ لگا لو کیونکہ معیار شریعت ہے”۔

” پیر چناں با ید کہ دو احکام شریعت و طریقت وحقیقت عالم باشد و چوں ایں چینی باشد او خود بیچ نامشرو ع نہ فرمایہ۔ ”
” پیر ایسا ہونا چاہئے جو شریعت ، طریقت اور حقیقت کے احکام کا عالم ہو وہ ایسا ہو گا تو خود کسی نا جائز امر کے بارے میں نہیں کہے گا”
ابو الحسین نوری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
التصوف ترک کل حظ للنفس۔
”تصوف نفس کی تمام خواہشات چھوڑنے کا نام ہے۔”
ابو علی قز وینی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
” التصوف ھو الااخلاق المرضیة ”۔
”تصوف پسندیدہ اخلاق کا نام ہے۔”
ابو محمد الجریری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
التصوف الدخول کل خلق سنی والخروج منی کل خلق دنی۔
”تصوف ہر اچھی خصلت اپنانے اور ہربری عادت سے بچنے کا نام ہے۔”۔

سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کو ایک آفاقی پیغام کی حیثیت سے پیش کیا تھا اس پیغام کا سارا پر وگرام عدل، انصاف، مساوات اور ایک فلاحی معاشرے کے قیام پر مبنی تھا۔ خلافتِ راشدہ کے بعد اس پر وگرام کی قیادت اور سیادت ہمیں صوفیاء کے ہاں نظر آتی ہے انہوں نے انسانیت کو ایک کنبہ قرار دے کر بلا تفریق رنگ و نسل ، مذہب و ملت، خدمت کو اپنا شعار بنایا تبلیغ کے سلسلے میں انہوں نے خاص طور پر دور دراز ممالک میں جس حکیمانہ ژرف نگاہی اور دور اندیشی سے کام لیا،وہ انہی کاحصہ ہے انہوں نے مخصوص سماجی و ثقافتی روایت سے براہ راست ٹکر یا تصادم کی بجائے خود ان سے تبلیغ کاکام لیا ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ انہیں نسبتاً غیرِ اولیٰ طریقے اختیار کرنے پڑے چونکہ ان کی پشت پر کوئی سیاسی قوّت موجود نہیں تھی اس لئے وہ ایسا کرنے میں حق بجانب تھے۔

ہمیں حیرت ہے کہ ہمارے بعض جدید قسم کے مفکرین، صوفیاء کے اندازِ تبلیغ پر نکتہ چینی کرتے نہیں تھکتے آخر وہ کیوں نہیں سوچتے کہ با لفرض بقول آپ کے صوفیاء کی یہ اپاہج تبلیغ بھی نہ ہوتی تو برِ صیغر میں آپ کی پوزیشن کیا ہوتی؟ اور کیا برابری کی بیناد پر کسی قسم کی گفتگو کرنے کے آپ اہل بھی ہوتے؟ ہمیں یہ بات تسلیم ہے کہ تصوف کے راستے کچھ خرابیاں آئیں مگر ہمارے پاس اساطین صوفیاء کی مدون کردہ اصول و فروع پر بے شمار بنیادی کتابیں موجود ہیں جن کی روشنی میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا جا سکتا ہے آج خواجہ غلام حسن سواگ رحمة اللہ علیہ کے سالانہ عرس پر حاضری کی سعادت حاصل کرنے والے عقیدتمندوں سے گزارش ہے کہ وہ اُن تعلیمات کو ورد ِ زبان اور حرزِ جاں بنالیں جو صاحب ِ مزار نے ہمارے لیے چھوڑی ہیں

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر: صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی