تحریر: کٹہرا /ایم آر ملک حضرت لعل عیسن کے شہر میں اس وقت تک عوامی نمائندگی کی اہلیت مجید خان نیازی کا احاطہ کرتی ہے عمران خان کی طرح مجید خان نیازی بھی پاکستان کی بات کرتا ہے اور اس کے اندر ایک محب وطن انسان رہتا ہے مگر اس کے مد مقابل احمد علی اولکھ نے اپنے اُمیدوار ذاتی مفاد کی خاطر میدان میں اُتارے مجید خان نیازی کے عوامی کردار کی تاریخ اس بات کی غماز ہے کہ جب بھی عوام کے بنیادی حقوق کی خاطر لڑنے،کٹ مرنے کا مرحلہ آیا میں نے مجید خان نیازی کو ہمیشہ عوا م کے شانہ بشانہ کھڑے دیکھا تھانہ میں بیٹھے کسی بھی راشی ایس ایچ او یا واپڈا میں بیٹھے کسی بھی بدمعاش ایس ڈی او کی بدمعاشی کے سامنے مجید خان کو میں نے دیوار بنتے دیکھا مگر یہ خاصہ کسی سردار یا وڈیرے،گدی نشین یا تھل کے سرسید کاجعلی لاحقہ لگانے والے سیاست دان میں نظر نہیں آتا ایسے سیاستدانوں کے مفادات ایک ہوتے ہیں۔
وہ آپس میں لڑتے نہیں مگر عتاب عوام کے حصہ میںضرور آتا ہے وہ تھانے کی سیاست کرتے ہیں،جھوٹے پرچے کراکر کسی غریب کو اپنے ٹائوٹ تھانیدار سے چھتر مرواتے ہیں اس طرح اس کی عزت نفس مجروح کرکے عوام کو یہ سبق دیتے ہیں کہ اگر کسی نے ہماری حکم عدولی کی تو اس کا یہی حشر ہوگا اسکے حواری عوام کے اندر یہ تاثر پھیلاتے ہیں ملک صاحب نتھ پا ڈتی اے احمد علی اولکھ نے بھی یہی کیا عوام کو انصاف دینے والے رب نواز خان کھتران جیسے ایس ایچ او کو راجن پور جیسے دور دراز علاقے میں تعینات کرکے اپنے من کی آگ کو ٹھنڈا کیا۔
Honesty
رب نواز خان کو صرف جرم ِ ایمانداری اور تھانے میں بیٹھ کر کسی غریب سائل کو انصاف دینے کی سزا ملی اور تو اور عابد انوار علوی اور بشارت رندھاوا کے عہدے چھینے گئیملک صاحب نے اپنی انا اونچی رکھنے کے زعم میں نظریاتی ورکروں کے نظریات کو ملیا میٹ کر دیامحض چند خوشامدیوں کی خوشامد میں آکرجس شخص کی ہوس کا پیٹ چھ وزارتیں نہ بھر سکیں اُس نے ایک نظریاتی ورکر کا عہدہ چھین کر ضلعی صدارت کی پگ اپنے سر پر رکھ لی اور جہاں مفاداتیوں اور خوشامدیوں کی رائے کا قد نظریاتی ورکروں کی رائے سے اونچا ہو جائے وہاںبہتری کی اُمید سراب ہوا کرتی ہے اور پھر بشارت رندھاوا اور عابد انوار علوی جیسے نظریاتی ورکروں کی وہاں کیا حیثیت اور اہمیت ہوگی جہاں حکمرانی کا تصور مغل شہنشاہوں جیسا ہو جو کسی کے سامنے جواب دہ نہ تھے ۔
مگر اقتدار کا ہما سدا سر نہیں بیٹھتا پاکستان میں اقتدار کبھی بھی عوامی خدمت کانام نہیں رہا ہر شخص محض اپنی تجوریاں بھرنے کیلئے الیکشن لڑتا ہے اگر اقتدار کسی خواہش کا نام ہے تو احمد علی اولکھ وہ خواہش پوری کر چکے وزارتوں کی طویل فہرست لیکر چلنے کے باوجود ان کے وہ دوست ان سے نالاں ہیں جو 1985ء سے ان کے نام کی مالا جپتے آئے ہیں کیا مجید خان نیازی کی یہ بات جھوٹ ہے کہ آپ کے سیکریٹری ماسٹر اقبال کے نام ڈیڑ ھ سو ایکڑ اراضی ہے ؟کیا بودلہ چوک پر خرچ سات روپے ہوا ؟ فتح پور کی سٹریٹ لائٹس پر 40 لاکھ اور سکولوں کوملنے والے سات کروڑ پر مجید نیازی کے سوالات کا جھٹلایا نہیں جاسکتا شرافت کا لبادہ اوڑھ کر آپ بھی اپنی کرپشن کی جیب بھرتے رہے۔
PTI
؟بہت کچھ ہے جو آپ کے دور ِ اقتدار میں ہوا مجید خان نیازی تو عوام کو آپ کا اصل چہرہ دکھا رہا ہے بخدا چوہدری الطاف حسین اگر 2008ء کے عام انتخابات میں حلقہ پی پی 262 کا چنائو کرتے تو احمد علی اولکھ ایم پی اے نہ ہوتے فتح پور شہر کو ٹراما سنٹر سے محروم محض اس لئے کیا گیاکہ کریڈٹ کی تختی پر کہیں چوہدری الطاف کا نام نہ آجائے لیکن وہ یہ کریڈٹ عدالت سے لے چکے مجید خان نیازی کی بات اور ہے اُس نے جب عوامی مفادات پر موروثی سیاست کا بے ہنگم ناچ دیکھا تو اس کے خاتمہ کیلئے عوام کی عدالت میں آنے کا فیصلہ کیا عوام کی عدالت میں وہی اُترتے ہیں جن کے پلے سچ ہوتا ہے اور عبدالواحد خان کے بیٹے کے اندر میں نے ہمیشہ سچ دیکھا سچائی ہی کامیابی کا زینہ ہو تی ہیمجید خان نے تحریک انصاف کو چنا تو محض اس بنا پر کہ عمران خان احتساب عام ،انصاف سرِ عام اور اقتدار میں عوام کا نعرہ لیکر چلا ہے۔
67برسوں سے ہوتا یہ آیا ہے کہ عوام کو ٹشو پیپر کی طرح الیکشن میں استعمال کیا اور چلتے بنے عوام کے ووٹ کی طاقت ان لٹیرے اور وڈیرے سیاست دانوں کی نظروں میں محض اتنی ہوتی ہے میں مجید خان نیازی سے ملا اس کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے
Local-Elections
کہ لوٹ مار کرنے والوں کو عوام کی عدالت سے شکست ہو اس لئے کہ عوام نے جن لوگوں اورسرداروں کو اپنا مسیحا سمجھا انہوں نے تھانہ میں بیٹھ کر اپنے ووٹروں کیپیٹھ پر چھتر مروائے انتقامی سیاست کے راج کانفاذ کیا جھوٹے اور بے بنیاد پرچوں نے عوام کا جینا حرام کر دیا وہ لوگ بھی نام نہادشرافت کے پیکر کے انتقام کا نشانہبنے جنہوں نے اِس کی جیت میں دن رات ایک کر دیا بلدیاتی انتخابات میںشہری اور دیہی علاقوں میں اب لوگوں کو موروثی سیاست کے جبر سے نکل کر اپنے طبقہ سے اہل قیادت کو چننا ہو گا۔