تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی حضرت انسان نے جب سے اِس بزم جہاں میں قدم رکھا ہے اِس کے امن اور خوبصورتی سے کھیلتا آیا ہے اپنی انا کی تسکین کے لیے اِس کو انسانوں اور حیوانوں کے خون سے داغدار کیا ہے ہر دور میں طاقتوروں نے کمزوروں کو بے دردی سے کچلا ہے ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد بچوں کو غلام اور عورتوں کو جنسی تسکین کے لیے جانوروں کی طرح ہانک کر لے جاتے جب بھی کسی پاگل سر پھرے کا دماغ الٹتا وہ شہروں کے شہر صفحہ ہستی سے مٹا دیتا’ جدید دور کے انسان کی سفاکی اور درندگی کا مظاہرہ ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے سے دیکھا جا سکتا ہے جب چشم زدن میں لاکھوں انسان لاشوں میں تبدیل اور معذور ہو گئے۔
وحشت درندگی ، قتل و غارت ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں دیکھی جا سکتی ہے لیکن ہر دور میں کچھ لوگ امن پیا رمحبت کے علمبردار نظر آتے ہیں یہ ہیں کو چہ تصوف کے لو گ جو نفرت علا قائی اور مذہبی تعصب کو بھلا کر دھرتی پر امن اور خو شبوکے پھول کھلا تے آئے ہیں ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہب والوں کو ہر دور میں کا فر قرار دے کر مو ت کے گھاٹ اتا رتے آئے ہیں لیکن جب ہم کو چہ تصوف میں جھا نکتے ہیں تو عقل حیران رہ جا تی ہے کہ یہاں پر ہر طرف پیارہی پیا ر’ امن ہی امن’ محبت اور امن کی سو غا تیں ہی نظر آتی ہیں ہندوستان پر اکبر اعظم کی حکمرانی کا دور تھا شہر لا ہور میں شیخ حسین لاہوری کا تذکرہ عام تھا آپ ہر وقت حالت جذب و سکر میں دنیا ما فیا سے بے خبر نا چ گا نے میں مصروف رہتے اِسی دوران ایک دن آپ حالت مستی میں لا ہور کے علا قے شاہدرہ سے گزر رہے تھے کہ آپ کی نگا ہ ایک خوبصورت بر ہمن زادے پر پڑی اور پھر ایک نظر ہی اثر کر گئی بر ہمن زادہ بے پنا ہ حسن و خوبصورتی کا مالک تھا شیخ حسین اُس لڑکے پر فریفتہ ہو گئے لڑکے کی عمر سولہ سال تھی جو شادی شدہ تھا لڑکے کا نام ما دھو تھا جو اپنے والدین کے ساتھ ہنسی خو شی زندگی گزار رہا تھا۔
شیخ حسین کے اندر عشق کی چنگاری نے بھا نبھڑ کا روپ دھا را کہ دن را ت شیخ حسین مادھو کے گھر کا طواف کر نے لگے کو چہ عشق کبھی بھی آسان نہیں رہا آبلہ پا ئی تو عشق کر نے والوں کا مقدرہے’ دنیا والے جو بھی سمجھیں لیکن اہل حق کسی انسان کے حسن و جما ل کو دیکھ کر خا لق کائنات کی صنا عی میں کھو جا تے ہیں ۔ شیخ حسین بھی مادھو کے حسن و جمال میں خد ا کی قدرت کے جلو ے دیکھتے تھے کہ عظیم خا لقِ کائنات کیسی شاہکارتصویریں تخلیق کر تا ہے شیخ حسین ما دھو کے عشق میں دنیا سے بے خبر ہو تے گئے یہ سلسلہ عشق کئی سال چلتا رہا شیخ مادھو کے عشق میں بے قرار اور بد نام ہو تے گئے کھا نے پینے کی ہو ش گم مسلسل کو چہ جاناں کا طواف اِسی جنوں میں شیخ حسین ایک دن کو چہ جاناں میں تیز دھوپ میں ما دھو کے انتظار میں کھڑے تھے کہ ادھر سے مادھو کا گزر ہوا’ مادھونے بے قرار درویش کو دیکھا تو اُس کے پاس آیا اوردرویش کی بے قرار آنکھوں میں غور سے دیکھا اور بو لا کتنے سا لوں سے تم میرے پیچھے پڑے ہو خو د بھی بد نام ہوتے ہواور مجھے بھی بد نام کر تے ہو کیو ں ایسا کر تے ہو تو شیخ حسین نے انتہا ئی دلگداز انداز میں کہا میں تیرے پیچھے نہیں کسی اور کے تعاقب میں تیرے پیچھا آتا ہوں ما دھو نے حیرت سے پو چھا تو میرے پیچھے نہیں کسی اور کی تلاش میں ہے تو وہ کون ہے تو درویش بو لا جب توعشق کی بھٹی سے کندن بن کر نکلے گا تو تجھے پتہ چلے گا۔
ما دھو حیران پریشان چلا گیا ما دھو کے دل پر چوٹ سی لگ گئی تھی اور پھر شیخ حسین کا جنون کام کر گیا ما دھو لال بھی اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھا وہ دن رات شیخ حسین کے مکان پر پڑا رہتا اب مادھو لال اور شیخ حسین کے قصے عام ہو نے لگے برہمن غضبناک ہو کر مادھو لال کے گھر آئے اور اس کے باپ سے کہنے لگے تمہا رے بیٹے مادھو لال نے ہندودھرم کی عزت و آبرو خاک میں ملا دی ہے ما دھو لال ایک مسلمان کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا کھاتا پیتا ہے اُ س نے ہما رے دھرم کو ذلیل و رسو ا کر دیا ہے برہمنوں کے شدید احتجاج پر مادھو لال کے والد نے اپنے بیٹے کو بلا کر سختی سے کہا کہ آج کے بعد تم مسلمان درویش سے نہیں ملو گے لیکن ما دھو نے صاف انکار کر دیا کہ میں شیخ حسین سے ملے بغیر نہیں رہ سکتا کو ئی نادیدہ قوت ہے جو مجھے اُس کے پاس لے جا تی ہے ما دھو کا جنون دیکھ کر برہمنوں نے شیخ حسین کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔
چند بدمعاشوں کی ڈیوٹی لگا ئی کہ وہ جا کر شیخ حسین کو قتل کر دیں اب ان بد معاشوں نے رات کو شیخ حسین کو قتل کر نے کے لیے جانا شروع کر دیا لیکن وہ جیسے ہی شیخ حسین کے مکان پر پہنچتے مکان کا دروازہ غائب ہو جا تا جب وہ کئی راتوں تک جاتے رہے اور بار بار دروازہ غائب ہو جا تا جب وہ بار بار نا کام ہو ئے تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ دن میں جہاں شیخ حسین نظر آئے انہیں فوری طور پر قتل کر دیا جا ئے اب وہ جہاں کہیں بھی شیخ حسین کو دیکھتے تو اُس پر جیسے ہی حملہ آور ہو نے کی کو شش کرتے شیخ حسین اُسی وقت نظروں سے اوجھل ہو جا تے جیسے وہ وہاں تھے ہی نہیں بار بار یہاں بھی ناکامی کے بعد بد معاشوں نے شکست تسلیم کرلی کہ ہم شیخ حسین کو قتل نہیں کر سکے یہاں ناکام ہو کر پنڈتوں نے اب نیا فیصلہ یہ کیا کہ ما دھو اب یا تو تم مسلمان درویش کو چھوڑو گے یا پھر ہندو دھرم ‘یہاں بھی مادھو لال نے یہ فیصلہ سنایا کہ میں کسی بھی صورت شیخ حسین کو نہیں چھوڑ سکتا اگر آپ نے مجھے زیا دہ مجبور کیا تو میں ہندو دھرم چھو ڑ دوں گا اب ما دھو لال کے والدین اور پنڈتوں نے ما دھو لال کو بہت ساری گا لیاں دیں اور مایوس ہو گئے۔
پھر ایک ایسا واقعہ پیش آتا ہے جس نے شیخ حسین کے روحانی مقام کاپتا دیا بیساکھ کی پہلی تاریخ کو ہندو دریا ئے گنگا میں غسل کرنے جا تے تھے ما دھو لال کے والدین نے مادھو سے کہا کہ تم بھی غسل کر نے ہما رے ساتھ چلو والدین کا یہ خیال تھا کہ مسلمان درویش نے ما دھو پر جو جا دو کر رکھا ہے وہ اِس اشنان سے دھل جا ئے گا اور ما دھو ٹھیک ہو جا ئیگا ما دھو نے شیخ حسین سے آکر عرض کی شیخ حسین ایک لمحے کے لیے بھی ما دھو کی جدا ئی بر داشت نہیں کر سکتے تھے شیخ حسین نے ما دھو کو منع کر دیا لہٰذا ما دھو نے اپنے والدین سے کہہ دیا کہ وہ غسل کر نے نہیں جا ئے گا جب وہ سب لو گ چلے گئے تو شیخ حسین کو احساس ہوا کہ ما دھو میری وجہ سے نہیں گیا ما دھو کو بلا یا اور پوچھا گنگا اشنان کب ہے تو ما دھو نے بتا یا حضور کل تو ٹھیک ہے کل مجھے یا د دلا نا اگلے دن ما دھو نے شیخ کو یاد دلا یا تو آپ نے ما دھو سے فرمایا آنکھیں بند کر کے میرے پا ئوں پر پائوں رکھ کر کھڑے ہو جا ئو مادھو نے ایسا ہی کیا اور جب مرشد کے کہنے پر آنکھیں کھو لیں تو خود کو گنگا کے کنا رے کھڑا پا یا خو شگوار حیرت سے اپنے والدین اور عزیز و اقا رب کے ساتھ گنگامیں اشنان کیا اور پھر شیخ حسین ما دھو کو لا ہور لے آئے ما دھو کے والدین سخت پریشان ہوئے کہ ما دھو اچانک آیا اور اشنان کر کے واپس بھی چلا گیا اور جب واپس آکر بیٹے سے سارا حال سنا تو اُن کی آنکھیں کھل گئیں اب و ہ شیخ حسین کے روحانی مقام سے واقف ہو چکے تھے۔
مادھو کی مخالفت چھو ڑ دی اِس طرح شیخ حسین اور ما دھو کی دوستی اور عشق گہرے سے گہرا ہو تا گیا ایک مرتبہ بسنت پر ما دھو لال گلاب لا ئے اور آپ پر ڈال دیئے شیخ حسین پر وجدانی کیفیت طا ری ہو گئی جذب میں گلیوں با زاروں میں رقص کر تے گئے اِس طرح آپ نے یہ تہوار منانا شروع کر دیا ۔ پھر ایک دن شیخ حسین نے ما دھو لال کو مان سنگھ کی فوج میں ملا زمت کا حکم دیا ما دھو جانا نہیں چاہتے تھے لیکن مرشد کے حکم پر چلے گئے ما دھو نے مان سنگھ کی فوج میں کئی سال گزارے’ واپسی سے ایک سال پہلے شیخ حسین وصال فرما گئے واپسی پر ما دھو لال اپنے حواس کھو بیٹھے شیخ حسین وصیت کر گئے تھے میری میت کو شاہدرہ میں امانتا دفنایا جا ئے اورپھر جب مادھو لال آئے گا تو وہ میرے جسد خاکی کویہاں سے نکال کر بابو پو رے لے جا ئے گا اور وہی میرا سجا دہ نشین ہو گا آپ کی وصیت کے مطا بق ما دھو لال آپ کے سجا دہ نشین بنے اور تقریبا پینتیس سال تک جلو ہ افروز رہے حضرت ما دھو نے تقریبا تہتر سال کی عمر میں وفات پا ئی جس طرح زندگی میں شیخ حسین اور ما دھو لال ساتھ ساتھ رہے اِسی طرح قدرت نے مر نے کے بعد بھی دونوں کو پہلو بہ پہلو رکھا آپ کے مزار آج بھی باغبان پورہ میں عاشقوں کے لیے مرجع خلا ئق ہیں صدیا ں گزرنے کے بعد آج بھی شیخ حسین اور ماد ھو لال مذہبی تعصب سے آزاد انسانوں میں امن اورمحبت کی خوشبو بانٹ رہے ہیں۔