تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی حضرت عثمان ہرونی کی نگاہِ خاص اور تزکیہ نفس کے سخت مجاہدوں سے گزرنے کے بعد حضرت معین الدین چشتی دنیا کی سیر پر نکل پڑے تا کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں اللہ کے خاص بندوں سے مل کر اپنی روحانی پیا س کو مزید بجھا سکیں ‘بغداد شریف میں جناب شیخ عبدالقادر جیلانی سے ملاقات کے بعد آگے بڑھے ‘غوث پاک نے آپ کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ عثمان ہرونی کا یہ چراغ لاکھوں لوگوں کو منزل مراد تک پہنچائے گا ‘ہر بزرگ نے خو اجہ معین الدین کو نظر بھر کر ہر زاوئیے سے دیکھنے کے بعد آپ کے اعلی روحانی مقام کا اعتراف کیا ‘بصرہ میں ایک کامل فقیر سے ملاقات ہوئی جو صاحب کشف تھے آپ اُن کے ساتھ قبر ستان گئے انہوں نے محسوس کیا کہ صاحب قبر عذاب میں مبتلا ہے تو عذاب قبر کے خو ف سے نعرہ ما ر کر گرے اور جاں جہاں آفرین کے سپر د کر دی ‘شدت خو ف سے جسم پا نی ہو کر نمک کی طرح بہہ گیا ‘بقو ل خوا جہ چشت کے ایسا خو ف میں نے کبھی کسی پر طا ری ہو تے نہیں دیکھا ‘دوران سیاحت ایک غار میں شیخ محمد الواجدی سے ملا قات ہو ئی شدید ریاضت کے با عث جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکاتھا روحانی مقام کا یہ عالم تھا کے دو شیر غلا موں کی طرح دائیں با ئیں کھڑے تھے ‘فرمایا ڈرو نہیں یہ تم پر حملہ نہیں کر یں گے جس دل میں اللہ تعالی کا خوف ہو تا ہے اُسے کو ئی خو ف نہیں ہو تا ‘بزرگ کہنے لگے اِس غا رمیں عرصہ تیس سال سے ہوں ‘صرف ایک با ت کی فکر ہے کہ اگر ذرہ برابر بھی نما زکی شرط پو ری نہ ہو ئی تو سب کچھ ضا ئع ہو جا ئے گا پھر حدیث سنا ئی حق تعالیٰ کے نزدیک کو ئی گنا ہ اِس سے بڑھ کر نہیں کہ نما ز کو شرائط کے ساتھ ادا نہ کیا جا ئے ‘بد خشا ں میں حضرت جنید بغدادی کے پو تے سے ملے جن کی عمر ایک سوچالیس سال تھی اُن کا ایک پا ئوں نہیں تھا جس کی وجہ انہوں نے یہ بتا ئی کہ چالیس سال پہلے اعتکا ف چھو ڑ کر با ہر جانے کا ارادہ کیا تو غیب سے آواز آئی کہ اے غا فل تم اپنا وعدہ بھو ل گئے۔
اُسی وقت اپنا ایک پا ئوں کاٹ ڈالا ‘ابھی تک حالت گر یہ میں ہوں کہ بد عہدی کی وجہ سے اپنا کالا منہ کس طرح خدا کے سامنے لے کر جائوں گا ۔ بخا را میں ایک نابینا درویش سے ملا قات ہو ئی انہوں نے وجہ یہ بتا ئی کہ غیر پر نظر پڑی تو آواز آئی دعویٰ ہما ری محبت کا اور نگا ہ کسی دوسرے کی طرف ‘میں نے تا ئب ہو کر اپنے اند ھے ہونے کی دعا کی جو فوری قبو ل ہو ئی ۔ قدرت کے عظیم پلا ن کے تحت حضرت خوا جہ معین الدین چشتی کر ہ ارض پر پھیلے عظیم ترین بزرگوں سے ملنے کے بعد اکسیر بن چکے تھے جس طرح مقنا طیس کے پا س رہ کر لو ہے میں بھی اثرات آجا تے ہیں اِسی طرح خوا جہ چشت پا رس بن چکے تھے ‘جن پر نظر ڈالتے اس کی کثافت دھو ڈالتے دوران سیا حت آپ شہر بلخ تشریف لا ئے یہاں پر مو لانا حکیم ضیا الدین بلخی مذہبی دنیا وی علوم میںیکتا تھے اُن کے مدرسے میں سینکڑوں طا لب علم اپنی علمی پیا س بجھا تے تھے ‘مولانا صاحب ظا ہری علوم کے زعم میں مبتلا تھے تصوف کو شجر ممنو عہ کہتے تھے کہ تصوف افیون ہے ایسا بخا ر جو جس کو چڑھ جا ئے وہ دیوانوں کی طرح با تیں کر تا ہے ‘تصوف ذہنی خلل ہے ‘مو لانا صاحب کا خو اجہ چشت سے ٹا کرا ہو گیا دوران سیا حت خوا جہ صاحب تیرکما ن ساتھ رکھتے تھے ‘آپ جنگل سے شکا ر کرتے پھر اُسی سے افطا ری بھی کرتے ‘ایک دن آپ نے پر ند ہ شکا ر کیا خا دم کو کبا ب بنا نے کا حکم دیا ‘خو د نما ز میں مشغو ل ہو گئے جب کھانا تیا ر ہو گیا تو اتفا قاً مو لا نا ضیا الدین صاحب ادھر سے گز رے شاہ چشت نے انہیں کھا نے کی دعوت دی۔
حکیم صاحب آکر درویش چشت کے دستر خوان پر بیٹھ گئے ‘شاہ اجمیر نے پرندے کی بھنی ہو ئی ران مو لا نا صاحب کے سامنے رکھی ‘مو لانا صاحب نے جیسے ہی پرندے کا لذیذ گو شت منہ میںڈالا گو شت جیسے ہی حلق سے اترا مو لانا صاحب کو لگا یہ گو شت نہیں نو ر کا گو لا تھا جو اندر اُتر تے ہی روح کے پردوں کو چیرتا ہوا گہرائیوں تک نو ر کے پھو ارے پھو ٹاتا چلا گیا تیز نو ر کی روشنی با طن کے اندھیروں میں ہلچل مچا تی ہو ئی اندھیروں کو اجا لوں میں بدل رہی تھی نشے سرور کی ایسی کیفیت جس سے مو لانا کبھی واقف نہ تھے سرور کی شدت سے ہو ش و حوا س کھو بیٹھے ‘شاہ چشت مولانا کی حالت سے واقف تھے آپ نے اپنا نو الا مولانا صاحب کے منہ میں ڈال دیا اِس سے مولانا صاحب کی حالت سنبھلنا شروع ہو گئی ‘مو لانا صاحب کی دنیا بد ل چکی تھی ‘دلوں کے شہنشاہ شاہ چشت کو ٹکٹکی با ندھ کر دیکھنے لگے ‘مولانا آپ کے رخ روشن کو بغور دیکھ رہے تھے ‘شاہ چشت بو لے مو لا نا کیا دیکھ رہے ہیں تو مو لا نا بو لے آپ نے ایک لمحے میں میرا سارا علم کا خزانہ لو ٹ لیا اور میں خا لی ہو گیا مجھے ایسا نشہ دیا جس سے میں نا واقف تھا ‘مو لا نا آگے بڑھے خوا جہ معین الدین کے قدموں پر ہا تھ رکھ کر بیعت اور غلا می کی درخوا ست کی ‘آپ نے مولانا صاحب کو بیعت کی سعا دت سے سرفراز فرمایا ‘مو لانا نے جا کر اپنا سارا کتب خا نہ دریا میں ڈال دیا اور راہ سلوک کے مسا فر بن گئے ۔ دوران سیا حت آپ سبز وار تشریف لا ئے قدرت کو اہل علا قہ پر تر س آیا تو درویش با کمال کو سبز وار بھیج دیا۔
آپ کی شہرت سن کر مقامی با شندے آپ کے پاس آئے اور اپنی داستا ن غم سنا ئی کہ ہما را گو ر نر بہت ظا لم جابر ہے اُس کے ظلم سے تنگ آکر لو گ شہر چھو ڑ گئے قبر ستان میں جا سوئے لیکن اِس ظالم کے ظلم میں کمی نہیں آتی ‘مشہور صوفی شاعر حامد بن فضل نے اُس کے ظلم کو اِس طرح بیان کیا ہے ظالم گورنر یا د گار محمد معمولی باتوں پر عبرت ناک سزائیں دیتا تھا لوگوں کا جینا حرام کیا ہواتھا اُس نے شہر کے با ہر با غ بنا یا ہوا تھا جسے وہ جنت کہتا تھا جہاںرقص و سرور کی محفلیں برپا ہو تیں خو برو کنیزیں نا چ گانا اور شراب پلا تیں ‘شاہ اجمیر اُس با غ میں گئے شاہ ِ چشت اُس کے با غ میںپہنچے وضو کیا اور نماز میں مصروف ہو گئے ‘خادم نے دیکھا تو خو ف سے کانپنے لگا کہ یہ کس طرح باغ میں آگئے ‘اِسی دوران یا د گار کے اور بھی ملا زم آگئے اُن کے چہرے بھی خو ف سے پیلے ہو گئے کہ یا دگا راُن کی گر دنیں کا ٹ دے گا ‘خو اجہ جی نے اُن کو حوصلہ دیا کہ کچھ نہیں ہو گا اِسی دوران ظالم یا د گا ربھی اپنے عیا ش دوستوں کے ہمراہ آگیا ‘درویش با کمال پر نظر پڑی تو آتش فشاں کی طرح پھٹنے لگا کہ یہ کون ہے جو اُس کی جنت میں داخل ہو گیا ہے ‘ملا زمین خو ف سے تھر تھرکا نپ رہے تھے خا دموں کی حالت دیکھ کر شہنشاہِ چشت آگے بڑھے اور یاد گار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا فقیر اپنی مر ضی سے یہاں آیا ہے جسے کسی کی اجا زت کی ضرورت نہیں ‘یا د گا رکی نظریں جیسے ہی شاہ چشت سے ٹکرائیں ‘حالت غیر ہو گئی زبان اور جسم پتھر کے ہو گئے آتش جلال کی تاب نہ لا سکا ‘لڑکھڑا یا اور بے جان بت کی طرح زمین پر گر گیا ‘تکبر غرور کا پتھر زمین بو س ہو چکا تھا ظالم فرعون زمین بو س ہو چکا تھا۔
اپنے حکمران کی بے بسی دیکھ کر تمام غلاموں اور عیا ش دوستوں نے بھی درویش چشت کے سامنے اقرار تابعداری کیا اوراپنے سر احترام میں زمین پر رکھ دئیے ‘وہ آتش جلال کا رنگ دیکھ چکے تھے جس کی تاب نہ لا سکے ‘ظا لم یا دگار کیڑے مکو ڑوں کی طرح بے بسی کی تصویر بنا’بے جان لا شے کی طرح زمین پر پڑا تھا شاہ چشت نے اشارہ کیا پا نی لا کر اِس کے منہ پہ چھڑکو ‘یا دگا رکے چہرے پر پا نی پڑتے ہی وہ ہو ش میںآگیا ‘کھڑے ہو نے کی کو شش کی لیکن نا کام رہا ‘سرک کر شہنشاہِ چشت کے قدموں میں سر رکھ دیا درویش با کمال کی آواز بلند ہو ئی کیا تم اپنے غرور اور گنا ہوں سے تو بہ کر تے ہو ‘یا د گا ر کی لرزتی آواز بلند ہو ئی میں اپنی سیا ہ کا ریوں سے تو بہ کر تا ہوں ‘شہنشاہ آپ نے میرے بے نور اندھے سینے کو روشن کر دیا ‘یادگار نے اٹھنے کی کو شش کی لیکن ناکام رہا خوا جہ چشت نے جھک کر اُس کی پشت پر ہا تھ رکھا تو یا د گا ر لڑکھڑاتا ہوا کھڑا ہو گیا نظریں جھکا ئے غلاموں کی طرح کھڑا تھا آپ نے وضو کا حکم دیا ‘یا د گار نے وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کی ‘اب وہ نگا ہِ درویش سے بد ل چکا تھا ‘بیعت کی درخواست کی آپ نے غلامی میں لے لیا اگلے ہی دن ساری دولت شاہِ چشت کے قدموں میںڈھیر کر دی ‘آپ نے حکم دیا اِسے مظلوموں میں بانٹ دو ‘یاد گار نے کھڑے کھڑے ساری دولت غریبوں میں بانٹ دی ‘غلاموں کنیزوں کو آزاد دیا اور راہِ حق کا مسافر بنا آپ نے رشد و ہدا یت کے لیے وہیں پر مقرر کیا جو کل تک گمراہ تھا آج دعوت حق دے رہا تھا یا دگار کا مزار آج بھی نو ر کی کر نیں بکھیر رہا ہے۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org