حضرت امام حسین علیہ سلام عراق روانہ کیونکر ہوئے؟

Hazrat Imam Hussain AS

Hazrat Imam Hussain AS

تحریر: محمد شعیب

حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جب مکہ میں قیام کیا تو یہاں کے گورنر عمرو بن سعید تھے جو حضرت سعید بن عاص رحمہ اللہ کے بیٹے تھے۔ انہوں نے حضرت حسین سے کوئی بدسلوکی نہ کی بلکہ نرمی کا برتاؤ کیے رکھا۔ اس دوران اہل کوفہ کی باغی تحریک نے آپ کی جانب خطوط کی بھرمار کر دی اور اپنے وفود ان کی جانب بھیجے اور کہا کہ ہم لوگوں نے گورنر حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دی ہے اور آپ بس جلد از جلد یہاں تشریف لے آئیے۔ حضرت حسین کا جو خط ابو مخنف نے نقل کیا ہے، اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہو کہ آپ کوفہ بغاوت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔

خط کے الفاظ یہ ہیں: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ حسین بن علی کی طرف سے اہل ایمان اور مسلمانوں کی جماعت کے نام۔ ہانی اور سعید آپ لوگوں کے خطوط لے کر میرے پاس آئے۔ آپ کے قاصدوں میں سے یہ دونوں افراد سب سے آخر میں آئے ۔ جو کچھ آپ لوگوں نے لکھا ہے کہ کہا ہے کہ “ہماری راہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہے، آپ آئیے۔ شاید اللہ آپ کے سبب ہمیں حق و ہدایت پر اکٹھا کر دے۔” میں نے اپنے چچا زاد بھائی، جن پر مجھے اعتماد ہے اور وہ میرے اہل خانہ میں سے ہیں، کو آپ کے پاس روانہ کیا ہے۔ میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ آپ لوگوں کا حال اور سب کی رائے وہ مجھے لکھ بھیجیں۔ اگر ان کی تحریر سے بھی یہی بات ثابت ہو گئی کہ آپ کی جماعت کے لوگ اور صاحبان عقل و فضل آپ میں سے اس بات پر متفق الرائے ہیں، جس امر کے لیے آپ کے قاصد میرے پاس آئے ہیں، اور جو مضامین آپ کے خطوط میں میں نے پڑھے ہیں تو میں انشاء اللہ بہت جلد آپ کے پاس چلا آؤں گا۔ اپنی جان کی قسم، قوم کا لیڈر تو وہی ہو سکتا ہے

جو قرآن پر عمل کرے، عدل کو قائم کرے، حق کا طرف دار ہو اور اللہ کی ذات پر توکل رکھے۔والسلام۔ (طبری۔ 4/1-151) اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا کوئی ارادہ بغاوت کا نہ تھا بلکہ آپ صرف اصلاح احوال چاہتے تھے۔ آپ سے متعلق یہ بدگمانی کرنا کہ آپ کوفہ جا کر مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنا چاہتے تھے، بالکل غلط ہے۔ حضرت حسین کی روانگی کے بارے میں مخلصین کا موقف کیا تھا؟ اس کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عراق روانگی کا ارادہ کیا تو آپ کے مخلص دوستوں اور رشتے داروں نے آپ کو نہایت ہی اچھے اور مخلصانہ مشورے دیے۔

یہ مشورے ابو مخنف کے حوالے سے طبری نے بھی درج کیے ہیں اور بلاذری نے دیگر راویوں کے حوالے سے انہیں درج کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جو رشتے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے چچا تھے، مگر عمر میں ان سے کچھ ہی بڑے تھے کے بارے میں طبری نے بیان کیا ہے: عبداللہ بن عباس نے حسین کی روانگی کا سنا تو ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: “بھائی! لوگوں میں یہ بات مشہور ہو گئی ہے کہ آپ عراق کی طرف روانہ ہونے لگے ہیں۔ مجھے تو بتا دیجیے کہ آپ کا ارادہ کیا ہے؟” انہوں نے کہا: “انشاء اللہ انہی دو دن میں روانگی کا ارادہ ہے۔” انہوں نے کہا: “میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، ایسا نہ کیجیے۔

اللہ آپ پر رحمت فرمائے، مجھے یہ تو بتائیے کہ کیا آپ ان لوگوں میں جا رہے ہیں جنہوں نے اپنے حاکم کو قتل کر کے اپنے شہروں کی ایڈمنسٹریشن سنبھال لی ہے اور اپنے دشمن کو نکال باہر کیا ہے؟ اگر وہ ایسا کر چکے ہیں تو پھر چلے جائیے ۔ اگر ان پر حاکم مسلط ہیں اور اسی کے عہدہ دار شہروں سے خراج وصول کر رہے ہیں اور پھر بھی یہ آپ کو بلا رہے ہیں تو یہ محض آپ کو جنگ چھیڑنے کے لیے بلا رہے ہیں۔ مجھے خوف ہے کہ یہ لوگ آپ کو دھوکہ دیں گے، آپ کو جھٹلائیں گے، آپ کی مخالفت کریں گے، آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے اور اگر آپ سے پیچھے ہٹ گئے تو پھر یہی لوگ آپ کے خلاف انتہائی سخت حملہ کر دیں گے۔” حسین نے جواب دیا: “میں اللہ سے خیر کا طالب ہوں اور دیکھتا ہوں کہ کیا ہوتا ہے؟”

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب بصرہ کے گورنر تھے تو باغی تحریک کے سرکردہ لوگوں کو نہایت قریب سے دیکھ چکے تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ یہ باغی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو محض اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں، اس وجہ سے انہوں نے نہایت ہی شد و مد سے آپ کو عراق جانے سے روکا۔ اس کے برعکس حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ آپ وہاں جا کر حالات کی اصلاح کر سکتے ہیں۔ اسی دن شام یا اگلے دن صبح ابن عباس پھر آئے اور کہنے لگے:
“بھائی! میں برداشت کرنا چاہتا ہوں مگر مجھے صبر نہیں آتا۔ مجھے اس راستے میں آپ کی ہلاکت اور تباہی کا اندیشہ ہے۔

اہل عراق (کی باغی تحریک) دراصل دغا باز لوگ ہیں۔ ان کے پاس ہرگز نہ جائیے۔ اسی شہر میں ٹھہرے رہیے کہ آپ اہل حجاز کے سردار ہیں۔ اگر اہل عراق آپ کو بلاتے ہیں تو انہیں لکھیے کہ اپنے دشمن سے پہلے اپنا پیچھا چھڑائیں۔ اس کے بعد آپ ان کے پاس چلے آئیں گے۔ اگر آپ کو یہ بات منظور نہیں ہے تو یمن کی طرف چلے جائیے۔ وہاں قلعے ہیں، پہاڑ ہیں اور ایک وسیع ملک ہے۔ آپ کے والد کے ساتھی وہاں موجود ہیں۔ آپ سب سے الگ تھلگ رہ کر ان سے خط و کتاب کیجیے اور قاصد بھیجیے۔ اس طریقہ سے مجھے امید ہے کہ جو بات آپ چاہتے ہیں، امن و عافیت کے ساتھ آپ کو حاصل ہو جائے گی۔ ” حضرت حسین نے جواب دیا: “بھائی! واللہ میں جانتا ہوں کہ آپ خیر خواہ اور شفیق ہیں۔ لیکن میں تو اب روانگی کا مصمم ارادہ کر چکا ہوں۔”

ابن عباس بولے: “اگر جانا ہی ٹھہرا تو خواتین اور بچوں کو ساتھ نہ لے جائیے۔ واللہ! مجھے ڈر ہے کہ کہیں حضرت عثمان کی طرح آپ بھی اپنی خواتین اور بچوں کے سامنے قتل نہ کر دیے جائیں۔” ( ایضاً ۔ 4/1-176)۔
ابو مخنف کو چونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے خاص بغض ہے، اس وجہ سے اس نے ان کی ایسی تصویر پیش کی ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جلد از جلد مکہ سے چلے جائیں۔ لیکن ان کی اپنی ایک روایت میں اس کے خلاف بات نظر آتی ہے جو اس نے عبداللہ بن سلیم اور مذری بن مشمعل سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم لوگ کوفہ سے حج کے لیے نکلے اور مکہ پہنچے۔ آٹھ ذی الحجہ کو ہم حرم شریف میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت حسین اور عبداللہ بن زبیر دن چڑھنے کے وقت حجر اسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کے پاس کھڑے ہیں۔ ہم ان کے قریب ہو گئے۔ ہم نے ابن زبیر کو حسین سے کہتے سنا: “اگر آپ چاہیں تو یہاں مقیم رہیں اور اس معاملے کی قیادت سنبھال لیجیے۔

ہم آپ کے مددگار اور خیر خواہ ہوں گے اور آپ کی بیعت کر لیں گے۔ ” حسین نے جواب دیا: “میں نے اپنے والد سے یہ بات سنی ہے کہ ایک دنبہ مکہ کی حرمت کو حلال کر دے گا۔ میں وہ دنبہ نہیں بننا چاہتا ہوں۔” اس پر ابن زبیر نے کہا: “اچھا آپ یہاں رہیے اور حکومت میرے حوالے کر دیجیے۔ میں آپ کی ہر بات مانوں گا اور کوئی بات آپ کی مرضی کے خلاف نہ ہو گی۔ ” حسین نے کہا: “مجھے یہ بھی منظور نہیں۔” پھر یہ دونوں حضرات چپکے چپکے باتیں کرتے رہے کہ ظہر کا وقت ہو گیا اور لوگ منی کی طر ف چلے۔ حسین نے کعبہ کا طواف کیا ، صفا و مروہ کی سعی کی، بال کتروائے اور عمرہ کا احرام کھول دیا۔ پھر آپ کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔ ( ایضاً ۔ 4/1-177)۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن زبیر، حضرت حسین رضی اللہ عنہم سے کتنے مخلص تھے۔ حضرت حسین ابھی مقام تنعیم تک پہنچے تھے کہ ان کی ملاقات فرزدق شاعر سے ہوئی جو کہ عراق سے آ رہے تھے۔

انہوں نے بھی آپ کو جانے سے روکا اور کہا: “لوگوں کے دل آپ کے ساتھ اور تلواریں بنو امیہ کے ساتھ ہیں۔” اس کے بعد حضرت حسین کے کزن عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم نے انہیں ایک خط لکھا اور اسے اپنے بیٹوں عون اور محمد کے ہاتھ بھیجا۔ اس خط میں لکھا تھا: “میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ میرا خط دیکھتے ہی واپس چلے آئیے۔ مجھے ڈر ہے کہ آپ جہاں جا رہے ہیں، وہاں آپ ہلاک نہ ہو جائیں اور اہل بیت کو تباہ نہ کر دیا جائے۔ اگر آپ کو قتل کر دیا گیا تو دنیا میں اندھیرا ہو جائے گا۔ اہل ہدایت کے راہنما اور اہل ایمان کا سہارا آپ ہی کی ذات ہے۔ روانگی میں جلدی نہ کیجیے، اس خط کے پیچھے میں بھی آ رہا ہوں۔ والسلام۔”

عبداللہ بن جعفر، (گورنر مکہ) عمرو بن سعید کے پاس گئے اور ان سے کہا: “حسین کے لیے ایک خط لکھیے، اس میں انہیں امان دینے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک اور احسان کرنے کا وعدہ ہو۔ انہیں لکھیے کہ وہ واپس چلے آئیں۔ شاید انہیں آپ کے خط سے اطمینان ہو جائے اور وہ راستے سے واپس آ جائیں۔” عمرو بن سعید نے کہا: “جو آپ کا جی چاہیے، لکھ کر میرے پاس لے آئیے، میں اس پر مہر لگا دوں گا۔” عبداللہ بن جعفر خط لکھ کر عمرو کے پاس لے آئے اور کہا: “اس پر مہر لگا کر اپنے بھائی یحیی بن سعید کے ہاتھ روانہ کیجیے۔ یحیی کے جانے سے انہیں اطمینان ہو جائے اور وہ سمجھ لیں گے کہ جو آپ نے لکھا ہے، دل سے لکھا ہے۔” عمرو نے ایسا ہی کیا۔ یہ خط لے کر یحیی اور ابن جعفر دونوں حضرت حسین کے پاس پہنچے ۔ یحیی نے انہیں خط دیا اور دونوں نے واپسی پر بھرپور اصرار کیا۔

( ایضاً ۔ 4/1-179) خود ابو مخنف کی روایات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پہلے گورنر مدینہ اور پھر گورنر مکہ، جو دونوں بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے، نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے کوئی بدسلوکی نہ کی تھی اور یہ لوگ آپ کا بہت احترام کرتے تھے۔ عمرو بن سعید سے جیسے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما نے خط لکھوا لیا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ حضرت حسین کی کتنی قدر کرتے تھے۔ مروان بن حکم، جن کے بارے میں یہ مشہور کر دیا گیا ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے تھے اور ان کے خلاف سب و شتم کرتے تھے، نے گورنر عراق ابن زیاد کو ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا:

مروان نے ابن زیاد کو یہ خط بھیجا۔ اما بعد: آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ حسین بن علی آپ کی طرف آ رہے ہیں۔ وہ سیدہ فاطمہ کے بیٹے ہیں جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ہیں۔ خدا کی قسم! حسین سے زیادہ کوئی شخص بھی ہمیں محبوب نہیں ہے۔ خبردار! غیض و غضب میں آ کر کوئی ایسا فعل نہ کر بیٹھنا کہ اس کا مداوا نہ ہو سکے اور عام لوگ اسے رہتی دنیا تک بھلا نہ سکیں۔ والسلام۔ ( ابن کثیر۔ 11/507) عمرو بن سعید بن عاص اور مروان بن حکم کے ان خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ بنو امیہ اور آل علی میں دشمنی کی داستانیں، محض داستانیں ہی ہیں اور بنو امیہ کو بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ویسی ہی محبت تھی جیسی ہمیں ہے۔

Hazrat Imam Hussain AS

Hazrat Imam Hussain AS

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے ان مخلص رشتے داروں کی بات کیوں نہ مانی اور اہل کوفہ کے باغیوں پر اعتبار کر کے وہاں کیوں چلے گئے؟ اوپر بیان کردہ خط کو پڑھنے سے اس کی جو وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کا کوئی ارادہ بغاوت برپا کرنے کا نہ تھا بلکہ آپ ان باغیوں کو کنٹرول کر کے حکومت وقت کے معاملات کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔ حکومت کے رویے سے بھی ظاہر یہی تھا کہ یہ لوگ حضرت حسین کا احترام کر رہے تھے۔ اس سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی یہی امید ہو گی کہ آپ کے خلاف کوئی سخت اقدام نہ کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہی ہوتا مگر باغیوں نے یہ نوبت آنے سے پہلے ہی کوفہ میں اقدام بغاوت کر دیا اور پھر مسلم بن عقیل کو چھوڑ کر خود غائب ہو گئے۔ گورنر کوفہ ابن زیاد نے بھی اپنی عجلت پسندی میں نہایت ہی ظالمانہ انداز میں انہیں شہید کر دیا جس سے حالات بگڑتے چلے گئے۔

سانحہ کربلا میں کیا واقعات پیش آئے؟ اس کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کوفہ کی جانب چلے۔ اس کے بعد کے واقعات طبری نے عمار الدہنی کے حوالے سے کچھ یوں نقل کیے ہیں: حسین بن علی کو مسلم بن عقیل کا خط پہنچا تو آپ وہاں سے روانہ ہو کر ابھی اس مقام تک پہنچے تھے جہاں سے قادسیہ تین میل کے فاصلے پر تھا (یعنی ابھی کوفہ سے اسی نوے کلومیٹر دور تھے) کہ حر بن یزید تمیمی سے ملاقات ہوئی۔ حر نے پوچھا: “آپ کہاں جا رہے ہیں؟ فرمایا: ” اسی شہر (کوفہ ) جانے کا ارادہ ہے۔” حر نے عرض کیا: “واپس چلے جائیے۔

وہاں آپ کے لیے خیر کی کوئی امید نہیں ہے۔” یہ سن کر حسین نے واپس جانے کا ارادہ کیا۔ مسلم کے سبھی بھائی آپ کے ساتھ تھے، انہوں نے کہا: “واللہ! جب تک ہم مسلم کا انتقام نہ لے لیں گے یا سب کے سب قتل نہ ہو جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے۔” آپ نے کہا: “پھر تمہارے بغیر زندگی کا کیا مزا؟” یہ کہا اور آگے بڑھے۔ جب ابن زیاد کے لشکر کے ہراول دستے کے کچھ سوا ر آپ کو نظر آئے تو آپ کربلا کی طرف مڑے۔ ایک آبادی جو نشیب میں واقع تھی، اسے آپ نے اپنے لشکر کی پشت پر رکھا تاکہ اگر جنگ ہو تو ایک ہی جانب سے ہو۔ آپ وہیں اترے اور اپنے خیمے نصب کر دیے۔ آپ کے ساتھیوں میں پینتالیس سوار اور سو پیادے تھے۔

عمر بن سعد بن ابی وقاص کو عبیداللہ بن زیاد نے رے (موجودہ تہران) کی گورنری دی اور یہ فرمان بھی لکھ دیا اور کہا: “میری جانب سے آپ ان صاحب (حسین) سے جا کر نمٹ لیجیے۔” ابن سعد نے کہا: “مجھے اس کام سے معاف رکھیے۔” ابن زیاد کسی طرح نہ مانا، تو اس نے کہا: “آج رات کی مہلت دیجیے۔” اس نے مہلت دی تو یہ اپنے معاملے میں سوچتے رہے۔ صبح ہوئی تو ابن زیاد کے پاس آئے اور اس کا حکم ماننے پر راضی ہو گئے اور حسین بن علی کی طرف روانہ ہوئے۔ جب یہ ان کے پاس پہنچے تو حسین نے فرمایا: “تین آپشنز میں سے ایک اختیار کر لیجیے۔ (1) یا تو مجھے چھوڑ دیجیے کہ میں جہاں سے آیا ہوں، وہیں چلا جاؤں۔ (2) یا مجھے یزید کے پاس جانے دیجیے۔ (3) یا کسی سرحد کی طرف چلا جانے دیجیے۔” عمر بن سعد نے اس بات کو قبول کر لیا۔

(عمر نے ابن زیاد کو یہ بات لکھ بھیجی تو ) اس نے جواباً لکھا: “وہ جب تک اپنا ہاتھ، ہمارے ہاتھ میں نہ پکڑا دیں، ایسا نہیں ہو سکتا ہے۔” حسین نے فرمایا: “یہ تو کبھی نہیں ہو سکتا۔” اس بات پر لڑائی چھڑ گئی اور حسین کے تمام ساتھی قتل ہو گئے۔ ان میں سترہ اٹھارہ نوجوان ان کے گھر والوں میں سے تھے۔ ایک تیر آ کر ایک بچے کو لگا جو ان کی گود میں تھے۔ حسین ان کا خون پونچھتے جاتے اور کہتے جاتے تھے: “اے اللہ! ہمارا اور ان لوگوں کا تو انصاف فرما۔ انہوں نے ہمیں اس لیے بلایا کہ ہماری مدد کریں گے اور اب ہم لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔” اس کے بعد آپ نے ایک چادر منگوائی ، اسے پھاڑا اور گلے میں پہن لیا۔ پھر تلوار لے کر نکلے، لڑے اور شہید ہو گئے۔ رضی اللہ عنہ ۔ آپ کو بنی مذحج کے ایک شخص نے قتل کیا اور آپ کا سر کاٹ کر ابن زیاد کے پاس لے گیا اور کہا: “میرے اونٹوں کو مال و زر سے بھر دیجیے۔ میں نے جلیل القدر بادشاہ کو قتل کیا ہے، میں نے اسے قتل کیا ہے جس کے ماں باپ بہترین مخلوق تھے اور جو نسب کے اعتبار سے خود بھی بہترین خلق ہے۔”

ابن زیاد نے اس شخص کو حسین کے سر کے ساتھ یزید کے پاس بھیج دیا۔ اس نے حسین کا سر مبارک یزید کے سامنے رکھ دیا۔ اس وقت اس کے پاس ابو برزہ اسلمی بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ چھڑی سے آپ کے لبوں کو کھٹکھٹا رہا تھا اور یہ شعر پڑھ رہا تھا: “ہم نے اپنے پیاروں کو خود قتل کر دیا، انہوں نے بھی ہمارے خلاف سرکشی اور نافرمانی کی تھی۔” ابو برزہ کہنے لگے: “اپنی چھڑی کو ہٹاؤ۔ واللہ! میں نے بار بار دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دہن یہاں رکھ کر بوسہ لیتے تھے۔”

ابن سعد نے حسین کے اہل و عیال کو ابن زیاد کے پاس روانہ کر دیا۔ آپ کے اہل بیت میں خواتین کے ساتھ ایک بیمار لڑکے کے سوا کوئی باقی نہ رہا تھا۔ ابن زیاد نے حکم دیا کہ اسے بھی قتل کر دو۔ زینب یہ سن کر بیمار سے لپٹ گئیں او رکہنے لگیں: “جب تک مجھے بھی قتل نہیں کرو گے، تو اس وقت تک اسے بھی قتل نہ کر سکو گے۔” ابن زیاد کو ترس آ گیا اور وہ اس ارادے سے باز رہا۔ اس نے ان سب کا سامان تیار کروایا اور انہیں سوار کروا کے یزید کے پاس بھیج دیا۔ یہ لوگ جب یزید کے پاس پہنچے تو اس نے اہل شام میں اپنے درباریوں کو جمع کیا۔ اس کے بعد اہل بیت کو دربار میں لایا گیا۔ اہل دربار نے اسے مبارک دی۔ انہی لوگوں میں سے ایک نیلی آنکھوں اور سرخ رنگت والے نے اہل بیت میں سے ایک لڑکی کو دیکھ کر کہا: “امیر المومنین! یہ مجھے دے دیجیے۔” سیدہ زینب نے کہا: “واللہ! نہ یزید کو یہ اختیار حاصل ہے اور نہ تمہیں اور تم اس وقت تک یہ نہیں کر سکتے جب تک کہ جب تک تم دین اسلام سے خارج نہ ہو جاؤ۔ ” یزید نے اس شخص کو روک دیا۔ پھر اس نے ان اہل بیت کو اپنے گھر والوں میں بھیج دیا۔ اس کے بعد ان کی روانگی کا سامان تیار کر کے ان سب کو مدینہ کی طرف روانہ کر دیا۔

جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو بنو عبدالمطلب کی ایک خاتون بکھرے بالوں کے ساتھ سر پر چادر رکھے ان کے استقبال کو نکلیں۔ وہ رو رو کر کہہ رہی تھیں: “لوگو! تم کیا جواب دو گے جب پیغمبر تم سے پوچھیں گے کہ تم نے آخری امت ہو کر میرے بعد میری اولاد اور اہل بیت سے کیا سلوک کیا؟ کچھ لوگ ان میں سے قیدی ہوئے اور کچھ قتل کر کے خاک و خون میں لتھڑا دیے گئے۔ میں نے تمہیں جو ہدایت دی، اس کا بدلہ یہ نہ تھا کہ میرے خاندان کے ساتھ میرے بعد برائی کرو۔”

( طبری۔ 4/1-180-182 ) سانحہ کربلا کا یہ واقعہ جو عمار الدہنی نے حضرت محمد باقر رحمہ اللہ کی طرف منسوب کر کے بیان کیا ہے، ان تفصیلات سے خالی ہے جو ابو مخنف نے روایت کی ہیں۔ ابو مخنف کی روایتیں تاریخ طبری کے مکتبہ مشکاۃ ورژن میں میں 90 صفحات میں پھیلی ہوئی ہیں اور انہوں نے خوب نمک مرچ لگا کر واقعے کو بیان کیا ہے اور اس میں حسب عادت مختلف صحابہ پر چوٹیں بھی کی ہیں جن میں خاص کر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نمایاں ہیں۔ ابو مخنف کی روایات میں بالکل اسی قسم کی جذباتیت پائی جاتی ہے جیسی ہم اپنے زمانے کے واعظوں اور ذاکروں کے بیانات میں دیکھتے ہیں۔ وہ صورتحال کا ایسا نقشہ کھینچتے ہیں کہ گویا اس دور میں خیر بالکل رخصت ہو گئی تھی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سوا تمام صحابہ و تابعین معاذ اللہ دین کی حمیت و غیرت سے خالی ہو گئے تھے اور انہوں نے غاصب اور ظالم حکمرانوں کو قبول کر لیا تھا۔

ابو مخنف کے مقابلے میں عمار الدہنی کی روایت ان تمام چیزوں سے پاک ہے۔ حضرت محمد باقر بن زین العابدین رحمہما اللہ ایک نہایت ہی قابل اعتماد راوی ہیں۔ آپ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے ہیں اور آپ کے والد ماجد حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ سانحہ کربلا کے چشم دید گواہ ہیں۔ عمار الدہنی نے آپ سے سن کر یہ واقعہ بیان کیا ہے۔ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ کسی راوی نے اس واقعے میں اپنی جانب سے کچھ ملاوٹ نہیں کی ہے تو اس بیان سے ہم یہ نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔

1 ۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ کو چھوڑ کر کوفہ کی جانب چلے۔ جب آپ اس کے قریب پہنچے تو آپ کی ملاقات حر بن یزید سے ہوئی اور حر نے آپ کو کوفہ جانے سے منع کیا۔ اس موقع پر حضرت حسین نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا اور واپسی کا ارادہ کیا لیکن مسلم بن عقیل کے بیٹوں نے آگے بڑھنے پر اصرار کیا جس پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے انہیں چھوڑنا مناسب نہ سمجھا۔ ابو مخنف کی روایت میں ہے: عبداللہ اور مذری نامی دو شخص، جن کا تعلق بنو اسد سے تھا، حج کو گئے تھے۔

وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حج سے فارغ ہوئے تو ہمیں اس کے سوا اور کوئی فکر نہ تھی کہ راستہ ہی میں حسین تک پہنچ جائیں اور دیکھیں کہ ان کے ساتھ معاملہ پیش آیا ہے۔ ہم اپنی اونٹنیوں کو دوڑاتے ہوئے چلے (اور بالآخر حضرت حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچ گئے۔۔۔۔ ) ہم نے کہا: “ہمیں سچی خبر مل گئی ہے اور ہمارے بنو اسد ہی کے ایک ایسے شخص نے دی ہے جو صائب الرائے ہے اور فضل اور عقل رکھتا ہے۔ اس نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ ابھی کوفہ ہی میں تھا کہ مسلم بن عقیل اور ہانی قتل ہو چکے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ ان دونوں کے پاؤں پکڑ کر بازار میں گھسیٹتے ہوئی لایا گیا ہے۔ ” یہ سن کر آپ نے کہا: “انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ان دونو ں پر اللہ کی رحمت ہو۔” آپ بار بار یہی کہتے رہے۔

ہم نے عرض کیا: “ہم آپ کو اللہ کی قسم دیتے ہیں کہ اپنی جان اور اپنے اہل بیت کا خیال کیجیے اور اسی جگہ سے واپس چلے جائیے۔ کوفہ میں نہ کوئی آپ کا یار و مددگار ہے اور نہ آپ کے حمایتی ہیں بلکہ ہمیں تو خوف اس بات کا ہے کہ وہ لوگ آپ کی مخالفت کریں گے۔ ” یہ سن کر عقیل بن ابی طالب کے فرزند (مسلم کے بھائی) اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے: “واللہ! جب تک ہم بدلہ نہ لیں گے ، اس جگہ سے نہ ہلیں گے یا پھر ہمارا حال بھی وہی ہو جو ہمارے بھائی کا ہوا ہے۔ ” یہ سن کر آپ نے دونوں افراد کی طرف دیکھا اور فرمایا: “ان لوگوں کے بعد زندگی کا کوئی مزہ نہیں۔” ہم سمجھ گئے کہ آپ نے کوفہ کی طرف جانے کا ارادہ کر لیا ہے۔ ہم نے کہا: “اللہ آپ کے لیے بہتری کرے۔ ” آپ نے جواب دیا: “اللہ آپ دونوں پر بھی رحمت فرمائے۔” آپ کے بعض ساتھیوں نے کہا: “کہاں مسلم بن عقیل اور کہاں آپ۔ کوفہ میں آپ جائیں گے تو سب آپ کی طرف دوڑیں گے۔”

( ایضاً ۔ 4/1-187) 2۔ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے مذاکرات کے لیے بھیجا جو کہ حضرت حسین کے قریبی رشتہ دار تھے اور طبری کی روایت کے مطابق مسلم بن عقیل نے انہی کو یہ وصیت کی تھی کہ وہ حضرت حسین تک ان کا پیغام پہنچا دیں کہ اہل کوفہ نے دھوکہ دیا ہے۔ آپ نے عمر سے فرمایا: “تن آپشنز مںح سے ایک اختالر کر لےرف ۔ (1) یا تو مجھے چھوڑ دیےگی کہ مں جہاں سے آیا ہوں، وہں چلا جاؤں۔ (2) یا مجھے یزید کے پاس جانے دیےتا۔ (3) یا کسی سرحد کی طرف چلا جانے دیےاو۔” عمر نے اس بات کو قبول کر لیا مگر ابن زیاد نہ مانا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اسی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا بغاوت کا کوئی ارادہ نہ تھا اور اگر کہیں ذہن میں یہ خیال آیا بھی تھا تو اس وقت دور ہو گیا تھا۔ اگر ابن زیاد انہیں یزید کے پا س جانے دیتا تو آپ اپنے تحفظات یزید کے سامنے پیش کر دیتے۔

Hazrat Muslim ibn Aqeel AS

Hazrat Muslim ibn Aqeel AS

3۔ ابن زیاد نے اصرار کیا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ پہلے اس کے پاس آ کر اس کے ہاتھ پر یزید کی بیعت کریں۔ حضرت حسین نے اس کے پاس جانا مناسب نہ سمجھا کیونکہ وہ پہلے مسلم بن عقیل کو قتل کر چکا تھا۔ بات بڑھ گئی اور جنگ شروع ہو گئی۔ اس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے۔ آپ کی شہاد ت کے بعد آپ کے اہل و عیال کو ابن زیاد کے پاس لایا گیا جس نے آپ کے سرمبارک سے گستاخی کی۔ پھر ان سب کو یزید کے پاس بھیج دیا گیا۔ یزید کے دربار میں موجود ایک شخص نے اہل بیت کی ایک خاتون پر بری نظر ڈالی تو یزید نے اسے منع کر دیا۔ اس کے بعد اس نے ان سب کو اعزاز و اکرام کے ساتھ مدینہ بھیج دیا۔

تحریر: محمد شعیب