روزِ اول سے اہلِ اقتدار کی یہ روش رہی ہے کہ اپنا اقتدار قائم اور نام اونچا رکھنے کے لیے نجانے کتنی گردنوں کو بزورِ طاقت جھکایا اپنے شاہی محلات کے خزانے بھرنے کے لیے شہروں کے شہروں ، ملکوں کے ملک اجاڑے اپنے ایک لمحے کے آرام کے لیے نجانے کتنوں کو مبتلائے اذیت کیا اپنی شان کے لیے کتنوں کو ذلیل کیا اپنی بقا کے لیے کِتنوں کو موت کے گھاٹ اتارا حصول تاج کے لیے سگے بھائیوں کی گردنیں اڑا دیں ذاتی آسائش کے لیے ہزاروں کو آزمائش میں ڈالا نام و نمود کے لیے شہروں کے شہر نیست و نابود کر دئیے ۔ دوسری طرف جب اہل حق پر نظر پڑتی ہے تو ان کے روشن چہروں پر آثار عبا دت تو نظر آتے ہیں مگر نشان ملامت ہر گز نہیں اِن کے دامن پر فقر کے پیوند تو ہیں مگر گدائی کا دھبہ تک نہیں ۔ اِن کی وراثت ہیرے جواہرات نہیں حسن اخلاق و کردار ہے اِن کا ترکہ شاہی محلات نہیں بلکہ حسن اخلاق اور اعلی اقدار ہیں یہی وہ لوگ جو کتنی روحوں کو معرفت کی چمک دے گئے کتنے ہاتھوں کو مصروف ِ دعا اور کتنی زبانوں کو ذکر کی لذت سے ہمکنار کر گئے ۔ دنیا کا چپہ چپہ ان کے روشن کارناموں کا گواہ ہے ارضِ بسطام سے خاک سرہند تک اور کو چہ بغداد سے اجمیر کی پہاڑیون تک یہ داستان مہر و وفا تو ذرے ذرے پر رقم ہے انہی روشن لوگوں کے دم قدم سے رنگِ محفل ابھی پھیکا نہیں پڑا ورنہ ہر دور کے جابر ظالم چنگیز اور ہلاکو نے اِس بزمِ رنگ و بو کو اجاڑنے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑی اپنے نام کے خطبے پڑھوانے والوں کو کو ئی فاتحہ خواں نہ ملا اقتدار اور شہرت کی چکا چوند میں زندگی میسر کر نے والوں کو مرنے کے بعد قبر پر کو ئی چراغ جلانے والا نہ مل سکا جن کے شاہی محلات کے کبھی بہت چرچے تھے آج ان کی مٹی برباد ہے جن کے ناموں پر شہر بستے تھے آج ان کی قبروں پر گمنامی کے ڈیرے ہیں۔
جن کی نوبت کی صدا سے گونجتے تھے آسمان دم بخود ہیں قبروں میں ہوں نہ یاں کچھ بھی نہیں ۔
روز اول سے جب بھی کسی مردِ درویش کے گرد حاجت مندوں کا میلا لگا تو حکمرانوں نے ہمیشہ اِسے اپنی توہین سمجھا ایسا ہی ایک واقعہ مغلیہ دور میں لا ہو ر میں پیش آیاشہر لاہور کو یہ خاص اعزاز حاصل رہا ہے کہ ہر دور میں کسی نہ کسی بڑے کامل درویش کا یہاں بسیرا رہا ہے شہر لاہور میں مغل بادشاہ اکبر کی بیٹی اپنے لیے ایک شاندار فلک بوس شاہی محل تیا کرا رہی تھی شاہی محل پر روپیہ پانی کی طرح بہا یا جا رہا تھا پو ری دنیا کے قابل ترین ماہر تعمیرات اِس عالی شان محل کو دن رات بنانے میں مصروف تھے اِس محل کے سامنے ہی ایک درویش کامل کا ڈیرا تھا جو روحانیت میں بہت بڑے مقام کے حامل تھے انہوں نے بھی ایک بلند فلک بوس دمدمہ بنوانے کا ارادہ کیا دمدمہ کا مطلب عارضی قلعہ ہے ۔درویشِ وقت نے یہ دمدمہ ایک اونچے ٹیلے پر بنانے کا ارادہ کیا اور انتظامات شروع کر دئیے جب تما م تیاریاں مکمل کر لی گئیں تو سب سے بڑا مسئلہ یہ سامنے آیا کہ تمام ماہر مزدور اور مستری یعنی معمار سب کے سب شہزادی سلطان بیگم کے شاہی محل کی تعمیر میں مصروف تھے۔
جب مزدوروں اور معماروں کو بلایا گیا تو انہوں نے بنانے سے صاف انکار کر دیا کہ ہم شہزادی کے محل کی تعمیر میں مصروف ہیں اور جو اجرت ہمیں شہزادی دیتی ہیں وہ آپ نہیں دے سکیں گے اور سارا دن ہم وہاں کام کر تے ہیں اِس لیے آپ کے پاس کا م نہیں کر سکتے درویش نے دلنواز مسکراہٹ سے کہا آپ اجرت پر پریشان نہ ہو ں آپ کو جتنی اجرت وہاں سے ملتی ہے اتنی ہی ہم بھی دیں گے بلکہ ایک پہر کا معاوضہ پورے دن پر دیں گے اور اگر آپ دن میں وہاں مصروف ہیں تو آپ رات کو ہمارے ہاں مزدوری کریں آپ کو منہ مانگی مزدوری دی جائے گی مزدوروں نے درویش کی بات مان لی اب وہ دن کو شاہی محل کی تعمیر کر تے اور رات کو درویش کے دمدمہ کو تیار کر تے اِسی دوران ایک رات چراغوں کا تیل ختم ہو گیا بہت کوشش کے بعد بھی جب تیل نہ ملا تو کامل درویش نے کہا آپ تیل کہ جگہ میرے کنویں کا پانی چراغوں میں ڈالیں وہ تیل کا کام دے گا درویش کے حکم کی تعمیل کی گئی مردِ درویش کے منہ سے نکلے ہو ئے الفاظ بارگاہِ الہی میں قبولیت اختیار کر گئے پھر مزدوروں اور اہل لا ہور نے دیکھا پانی کے چراغ جلنا شروع ہو گئے۔
آپ کی یہ کرامت اتنی زیادہ مشہور ہوئی کہ مزدور اب بلا معا و ضہ کام کر نے کو تیار ہو گئے لیکن درویش نے یہ بات نہ مانی آپ کا یہ معمول تھا مزدور جیسے ہی اپنا کام ختم کر تے آپ اپنے مصلے کے نیچے سے رقم نکال کر دے دیتے مزدور حیرت میں تھے کہ مصلے کے نیچے کو ن سا خزانہ ہے جہاں سے انہیں مزدوری دی جاتی ہے پھر دمد مہ کی سات منزلیں تیا ہو گئیں درویش کی عمارت کی شان کے سامنے شا ہی محل بے رونق اور پست نظر آنے لگا تو درباریوں اور مصاحبوں نے شہزادی بیگم کے کان بھرے کہ درویش کے دمدمہ کی اونچائی سے شاہی محل میں بے ستری ہو نے کا احتمال ہے شہزادی نے درویش کو پیغام بھیجا کے تمھارے دمدمہ کی اونچائی سے ہمارے محل میں بے پردگی ہو تی ہے۔
لہذا تم کو حکم دیا جا تا ہے کہ فوری طور پر اِس عمارت کو گرادو اور ہم سے مقابلہ بازی ترک کر دو درویش نے شاہی پیغام سنا تو کہا تمہیں اپنے شاہی مقام اور عمارت پر بہت ناز ہے لیکن کیونکہ تم نے پردے کی بات کی ہے جو خدا کے احکام سے متعلق ہے اس لیے ہم اِس پر عمل کر تے ہیں لیکن یاد رکھو عنقریب تمھارا شاہی محل اور گلشن کا نام و نشان نہیں رہے گا اور پھر دمدمہ کی سب سے اوپر والی چھت پر حالت وجد میں دھمال ڈالنی شروع کر دی آپ کے جلال سے 5منزلیں زمین بوس ہو گئیں صرف دو منزلیں رہ گئیں جو آج بھی زائر ین کو توجہ کا مرکز بنتی ہیں ۔ وقت نے کروٹ لی بعد میں سکھوں کی حکومت آئی تو شہزادی کا محل اور باغات اجاڑ دئیے گئے اِسطرح درویش کامل کی پیشن گوئی سچ ثابت ہو ئی شاہی محل اور باغات کا آج نام تک نہیں جبکہ درویش کامل کا دمدمہ آج بھی مرجع خلائق ہے اور مقبرے کی شکل میں متلاشیان حق کی تو جہ کا مرکز ہے درویش کامل کا نام حضرت بابا شاہ جمال تھا جو جلال و جمال کا مرقع تھے۔
آپ کا شجرہ نسب حضرت امام حسین سے جا ملتا ہے آپ کے والد حضرت عبدالواحد کشمیر کے رہنے والے تھے جو کشمیر سے سیالکوٹ آکر آباد ہو ئے قدرت نے عبدالواحد کو دو عظیم بیٹوں سے نوازا جن کے اسمائے گرامی حضرت شاہ جمال اور حضرت شاہ کمال تھے دنیاوی تعلیم کے بعد حضرت شاہ جمال نے عظیم بزرگ حضرت پیر ککرا بیگ کے ہاتھ پر سہروردی سلسلے میں بیعت کی جن کی زیر نگرانی آپ نے عبادت ریاضت مجاہدے کئے مرشد کی صحت نے آپ کو پارس بنا دیا مسلسل ریاضت اور مجاہدوں کی بدولت جمال میں جلال کا رنگ آگیا تھا مرشد کے حکم پر آپ لاہور تشریف لا ئے اور اچھرہ کے قریب ہی آباد ہو گئے جس جگہ آپ کا مزار ہے یہی وہ جگہ تھی جہاں آپ تشریف لا ئے آپ کا شمار ان علمائے حق میں ہو تا ہے جنہوں نے اکبر کے دین الہی کی کھل کر مخالفت کی آپ صاحب کرامت بزرگ تھے آپ کی لا زوال شہرت چاروں طرف پھیل چکی تھی آپکا ایک ہندو عقیدت مند اکثر آپ کے پاس حاضری دیتا جو بے اولا د تھا آپ نے اس کو دو خربوزے دئیے اور کہا دونوں میاں بیوی کھا لو تمھارے ہاں دو بیٹے پیدا ہو نگے ایک مسلمان ہو گا دوسرا ہندو ہو گا مردِ درویش کے الفاظ بارگاہِ الہی میں قبول ہو ئے ہندو کے ہاں دو بیٹے پیدا ہو ئے ایک پیدائشی مختوں تھا ہندو دونوں بیٹے لے کر آپ کے بارگاہ میں حاضر ہوا مختوں بیٹا آپ نے رکھ لیا۔
دوسرا ہندو لے گیا مسلمان بچے کا نام شیخ فخر الدین رکھا گیا آپ نے اس کو بیٹا بنا لیا اس کی تربیت کی شادی کی اِس بیٹے نے بھی آپ کی خدمت والد کی طرح کی ایک بار شاہ جمال اپنے بیٹے کے گھر گئے اور آواز دی فورا گھر سے باہر نکل آ تابع فرما بیٹے نے فوری تعمیل کی اپنے اہل و عیال کے ساتھ با ہر نکل آیا تو فوری مکان دھماکے سے گر گیا تو شاہ جمال بو لے مجھے کشفی قلبی سے اطلاع ملی کہ تمھارا مکان گرنے والا ہے آپ کے مریدوں میں حسن شاہ جو شیخ حسو تیلی کے نام سے مشہور ہے وہ غلہ فروشی کا کام کر تا جو ہر گاہک سے کہتا اپنے ہاتھ سے تول لو اس کا کاروبار بہت پھیلا اتنا امیر ہو گیا کہ تو لنے والے با ٹ سونے کے بنا لیے مرید مرشد کی خدمت میں سونے کے باٹ لے کر حاضر ہو اتو مرشد نے حکم دیاسونے کے باٹ دریا میں ڈال دو مرید نے تعمیل کی اگلے دن لوگوں کو سونے کے باٹ دیکھے تو جان گئے یہ تو حسو تیلی کے ہیں وہ لے کر حسو تیلی کے پاس آگئے مرید مرشد کے پاس لے کر پھر آگیا کہ اب کیا حکم ہے تو مرشد بو لے تیرا ایمان داری کا کمال یہ ہے کہ دریا بھی تیرے باٹ واپس کر دیتا ہے ۔روحانیت کا یہ سورج 14ربیع الثانی کو وفات پا گیا۔ آپ کا سالانہ عرس ہر سال بہت شان سے فیروز پور روڈ اچھرہ کے قریب شاہ جمال کا لونی میں آن بان سے منایا جا تا ہے۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org