تحریر : مبشر ڈاہر سیدنا عمر نے جمادی الثانی سن 13 ہجری کو مسند خلافتِ نبویۖ سنبھالی اور بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے رعایا اور امت کی فلاح بہبود کا کام شروع کردیا ریاست مدینہ منورہ اس دور میں بالکل ایک نئی نویلی ریاست وجود میں آئی تھی اور بے شمار مشکلات کا شکار تھی، سیدنا عمر نے امور ریاست، عوامی فلاح، سرکاری اداروں کی بنیاد، ترویج اور اصلاحات کا کام بیک وقت شروع کر دیا اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں انقلابی تبدیلیوں کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوگئے، شب روز کی ان تھک تگ و دو اور انقلابی پالیسیوں نے اس ریاست کو رہتی دنیا تک مثالی بنا دیا اورکرہ ِ ارض پر بسنے والے لوگ آج تک کے اس چھوٹی سی نو وارد ریاست میں نہایت محدود ساڑھے دس سال کے مختصر ترین عرصے میں ہونے والی انقلابی تبدیلیوں کواپنی یادداشتوں میں سموئے ہوئے ہیں۔
بت پرستی، توہمات اور شرک سے لتھڑے ہوئے معاشرے کو ایک نئے دینی نظام پر عمل پیرا بھی کیا اوراس کے بالکل متوازی دینی احکامات پر بغیر کوئی سودے بازی کئے من وعن، تعلیمات نبوی ۖکی روشنی میں شرعی احکامات کا عمل پیرا بھی کیا اور اس کے ساتھ ساتھ حدود اللہ کا نفاذ بھی من و عن عمل میں لائے ، شرعی احکامات ، حدود اللہ ،اسلامی تعلیمات، تعلیمات نبویۖ کو مضبوط کر نے ساتھ ساتھ اپنی ریاعا کی فلاح و بہبود کے لیے نہ صرف اس دور کے مطابق بہترین اقدامات کیے بلکہ ایسی انقلابی اصطلاحت متعارف کروائی کہ صدیاں ان اصطلاحات کا پرچار کرتی نظر آئیں اور گیارہ سو سال بعدسولویں صدی عیسوی میں یورپ و امریکہ کی عیسائی حکومتوں نے انہی بشری حقوق اور اصلاحات کو اپنے شہریوں کے لیے ”جدید انقلابی اصطلاحات” کے نام سے متعارف کروایا۔
آج تک کے مروجہ بشری حقوق،بیت المال،صوبائی اوراضلاعی تقسیم کا طریقہ کار، اولڈ ایج ہاؤس ، موثرعدالتی نظام، ترکے و وراثت کی تقسیم کاری کا نظام،گلیوں میں روشنی کا انتظام جیسی انتظامی اصلا حات ” اولیات فاروقی” کی کرشمہ سازی کا بہترین مظہر ہیںاس تحریر کا موضوع عوامی فلاح وبہبود اور انتظامی اصطلات کے متعلق ہیں حالانکہ سیدنا عمرنے مذہبی معاملات میں فیصلہ سازی کے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں،جغرافیائی حدود کے اعتبار سے ایک محدود ریاستِ مدینہ کو دنیا کی سب سے بڑی اور مضبوط ریاست کے طور پر متعارف کروایا۔
تمام تر انقلابی اصطلاحاتِ فاروقی خوفِ ربی اور تربیتِ نبویۖ کی مرہونِ منت تھیں کہ ایک نو آموز اور کمزور ریاست، نہایت پیچدہ اور مشکل حالات سے دوچار حکومت کومحض ساڑھے دس سال کے مختصر عرصے میں نہایت دانش مندانہ حکمتِ عملی اپنا کر رعایا اور عوام الناس کونہ صرف احساسِ محرومی سے نکالا بلکہ خوفِ خدا اور اپنے منصب کے ساتھ انصاف پسندی کی عمدہ مثال قائم کی۔
خیر کہاں سیدنا عمر جیسے عظیم الشان اور دانشمند حکمران اور کہاں آج کے شیر کی کھال اوڑھے یہ ”زر دار” اور” شریف زادے ”حکمران جن کے کرتوت دیکھ کرتو”یہود” بھی شرماتے ہیں،جنہوں نے دولت بنانے اور چھپانے میں پوری تاریخ انسانی میں اپنا ثانی نہیں چھوڑا ، سرے محلات سے لے کر پاناما کے حماموں تک سب کے سب ننگے ہیں، قومی دولت چوری کرنے اس گندے دھندے کویہ اپنی ہنر مند ی گردانتے ہیں اور نجی محافل میں یہ لوگ تمام تر چوریوں ، ڈاکہ زنیوں کو اپنا ہنرو فن گردانتے ہیں اپنے اپنے کالر اٹھا اٹھا کر اتراتے ہیں ، کس درجہ ہنر مندی سے ساری قوم کو بے وقوف بنایا ہے ،عوامی مفاد کی سیاست کہاں ہو رہی ہے ،کہنے کو تو حزبِ اختلاف حکومتی ایوانوں پر عوامی مسائل کے حل کے لیے دباؤ قائم رکھنے کے لیے ہوتی ہے لیکن یہاں پر تو سبھی کرسی کرسی کھیل رہے ہیں ، عمران خان پاناما کو نہایت سیان پتی سے تاخیر کر کے اسے 2018ء کے انتخابی سٹنٹ کے طور پر استعمال کرنے کے خواہش مند نظر آتے ہیں، کیوں کہ گزشتہ چار حلقوں والے معاملے کا عدالتی فیصلہ کروا کر اس سٹنٹ کی سیاسی ہوا تو پہلے سے ہی نکلوا چکے ہیں ، اب خدا خدا کر کے کوئی ” مدا”ان کے ہاتھ لگا ہے اسے تو انتخابات تک گھسیٹنا بنتا ہی ہے۔
Pakistani Politicians
جب کہ عوامی مسائل غربت، روزگار،تعلیم، صحت، امنِ عامہ، پولیس ،انصاف ، روٹی ، کپڑا ، مکان کا کب اور کہا ں عمران ،بلاول اور دیگر اپوزیشن ارکان نے ان مسائل کا ذکر کیا ہے ? ، کیونکہ مزکورہ بالا مسائل عمران و بلاول کے مسائل ہی نہیں ہیں، انہیں تو تشتریوں میں کھانے پیش کیے جاتے ہیں، پولیس کا پروٹوکول ملتا ہے ، بیورو کریسی سلام ٹھونکتی ہے ،علاج معالجہ لندن و شوکت خانم سے دستیاب ہے ، بچے لندن و امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ بھلا ان عوامی معاملات میں پڑ کر اپنی وزارتِ عظمی کی تاریخ میں تاخیر کیوں کریں گے ۔ ابھی تک تو ان کے ہاتھوں میں نہایت اعلیٰ درجے کے سیاسی ”شوشے ” موجود ہیں ، جب ان پانامی ” شوشوں” میں سے ہوا نکل گئی تو پھر وہ مزکورہ بالا عوامی مسائل کو سیاسی یا انتخابی ”شوشہ” بنانے کے لیے سوچ بچار کریں گے۔
موجودہ نواز لیگ کی حکومت کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق ساٹھ ملین لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پرمجبور ہیں،رہائشی اعتبار سے عراق و افغانستان کے بعد پاکستان دنیا کا چوتھا خطرناک ترین ملک ہے ،12…3 ملین بچے سکولوں سے باہر اس ملک کے مستقبل پرسوالیہ نشان اٹھائے ہوئے اس ملک پر مسلط حکمران اور حزب اختلاف کی ”معصومانہ ” خاموشی اور بے حسی پر نوحہ کناں ہیں۔دیگر ان گنت ہوشربا عوامی، سماجی، معاشی ، معاشرتی، انتظامی ، داخلی اور خارجی روزمرہ کے مسائل عوامی منہ چڑھا رہے ہوتے ہیں ،جن کا حل پیش کرنے حوالے سے حکومت ، حزب اختلاف، انتظامی اداروں ،بیورکریسی، اور ان کے حواری متمول طبقے کی بے حسی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔
عہدِ فاروقی سے صرف الفاظی نسبت رکھنے والے حکمران طبقے اگر عملی طور پر سیدنا عمر کے طرزِ حکومت اپنا لیں اور خود کو عوامی فلاح کے لیے وقف کرلیں، سادگی کو اپنا شعار بنائیں ،اپنے ذات کو ہروقت احتساب کے لیے پیش کریں،حکومتی ایوان عوام الناس سے فاصلہ کم کریں ،اقربا پروری چھوڑ دیں، ترجیحات کو اپنی ذات یاخاندان کے لیے نہیں بلکہ ملک و ملت کے لیے خالص کریں ،تو یہ بعید از قیاس نہیں ہے کہ خلوصِ نیت ،مضبوط قوت ارادی ،ملک و قوم سے محبت کے جذبات، محکوم اور پسے ہوئے طبقات سے ہمدردی کے جذبے کے تحت کام کیا جائے تو ملک و ملت کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے اور قوم کو غربت، جہالت اور پسیماندگی کے سمندر سے نکالا کروطنِ عزیز کو ایشین ٹائیگر بنایا جا سکتا ہے۔
ان تمام تربنیادی عوامی مسائل کے حل کے لیے نوجوانوں اور مڈل کلاس طبقے کو میدان عمل میں آ کر ان ناسور بنتے مسائل سے دوچار عوام الناس کی کو ان مسائل سے چھٹکارے اور آگاہی کی مہمات کوشروع کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت و اپوزیشن کی جماعتوں پر نہایت موثر انداز میں ان مسائل کے حل کے لیے دباؤ بڑھانا ہو گا کیونکہ اب تو بس ”سر جلائیں گے روشنی ہوگی ۔۔۔۔اُس اجالے میں فیصلے ہوں گے ”۔تاکہ آج کی واحدمسلم جوہری ریاست کل کی مضبوط اقتصادی طاقت کے طور پر ابھر سکے۔