تحریر : عنایت کابلگرامی حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول، اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ آپ کے والد ماجد کا نام عفان بن ابی العاص اور والدہ ماجدہ کانام اروی بنت کریز تھا ۔
آپ اپنے زمانے کے ارب پتی تھے، سخاوت کی وجہ سے غنی کے لقب سے مشہور ہوئے۔ فروغ اسلام اور استحکام دین کیلئے اپنی دولت کو بے دریغ نچھاور کیا۔اسلام قبول کرنے والے چوتھے مرد حضرت عثمان رضی اللّہ تعالی عنہ کی یوں تو دینی خدمات بے شمار ہیں، قرآن پاک کی نقلیں تیار کروا کر مختلف علاقوں میں محفوظ کروا دی گیئں، مسجد قبا کے لیے وسیع مالی امداد، خود زکوٰة نکالنے کے طریقے کو رائج کرنا، پہلے باقاعدہ اسلامی بحری بیڑے کی تیاری وغیرہ شامل ہیں۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ نبوت کے تیرہوں سال میں جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں پینے کے پانی کی بہت قلت تھی،مدینہ منورہ میں ایک یہودی کا کنواں تھا جو مسلمانوں کو پانی مہنگے داموں فروخت کرتا، اس کنویں کا نام”بئرِ رومہ”یعنی رومہ کا کنواں تھااور پریشانی کے عالم میں مسلمانوں نے رسول اللہۖ سے فریاد کی، اللہ کے نبی ۖنے فرمایا”کون ہے جو یہ کنواں خریدے اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دے؟ ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں چشمہ عطائکرے گا۔حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اس یہودی کے پاس گئے اور کنواں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا، کنواں چونکہ منافع بخش آمدنی کا ذریعہ تھا اس لیے یہودی نے اسے فروخت کرنے سے انکار کر دیا توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ تدبیر کی کہ پورا کنواں نہ سہی، آدھا کنواں فروخت کر دو۔ آدھا کنواں فروخت کرنے پر ایک دن کنویں کا پانی تمہارا ہو گا اور دوسرے دن میرا ہو گا، یہودی ان کی اس پیشکش پر لالچ میں آ گیا۔ اس نے سوچا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہُ اپنے دن میں پانی مہنگے داموں فرخت کریں گے، اس طرح اسے زیادہ منافع کمانے کا موقع مل جائے گا، چنانچہ اس نے آدھا کنواں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فروخت کر دیا۔سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے وہ کنواں اللہ کی رضا کے لئے وقف کر کے اپنے دن مسلمانوں کو کنویں سے مفت پانی حاصل کرنے کی اجازت دے دی، لوگ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دن مفت پانی حاصل کرتے اور اگلے دن کے لئے بھی ذخیرہ کر لیتے، یہودی کے دن کوئی بھی شخص پانی خریدنے نہ جاتا.یہودی نے دیکھا کہ اس کی تجارت ماند پڑ گئی ہے تو اس نے حضرت عثمان سے باقی آدھا کنواں بھی خریدنے کی پیشکش کر دی جس پر حضرت عثمان راضی ہو گئے اور کم و بیش پینتیس ہزار درہم میں پورا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔
جنگ تبوک کا واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب مدینہ منورہ میں سخت قحط تھا اور عام مسلمان بہت زیادہ تنگی میں تھے، یہاں تک کہ درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے۔ اسی لیے اس جنگ کے لشکر کو جیش عُسرہ یعنی تنگ دستی کا لشکر کہا جاتا ہے۔ ترمذی شریف میں حضرت عبد الرحمٰن بن خباّب سے روایت ہے کہ، میں رسول اللہ ۖ کی خدمت میں اس وقت حاضر تھا، جب آپۖ جیش عسُرہ کی مد د کے لیے لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے۔
حضرت عثمان غنی آپ ۖ کا پُرجوش خطاب سن کر کھڑے ہوئے اور عرض کیا، یارسول اللہ ۖ! میں سو اونٹ سامان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش کروں گا۔ اس کے بعد پھر حضور ۖ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو سامان لشکر کے بارے میں ترغیب دی اور امداد کے لیے متوجہ فرمایا تو پھر حضرت عثمان غنی کھڑے ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ ۖ! میں دو سو اونٹ مع سازو سامان اللہ کی راہ میں نذر کروں گا، اس کے بعد پھر رسول کریم ۖ نے سامان جنگ کی فراہمی کی طرف مسلمانوں کو رغبت دلائی، پھر حضرت عثمان غنی کھڑے ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ ۖ! میں تین سو اونٹ سامان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں حاضر کروں گا۔ حدیث کے راوی حضرت عبد الرحمٰن بن خباب فرماتے ہیں، میں نے دیکھا کہ حضور ۖ منبر سے اُترتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے ”یعنی ایک ہی جملہ کو حضور سید عالم ۖ نے دوبار فرمایا۔ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اب عثمان کو وہ عمل کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا جو اس کے بعد کریں گے۔
تفسیر خازن اور تفسیر معالم التنزیل میں ہے کہ آپ نے ساز و سامان کے ساتھ ایک ہزار اونٹ اس موقع پر پیش کیے تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن سمرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی جیش عُسرہ کی تیاری کے زمانے میں ایک ہزار دینار اپنے کُرتے کی آستین میں بھر کر لائے (دینا ر ساڑھے چار ماشے سونے کا سکہ ہوتا ہے) ان دیناروں کو آپ نے رسول مقبول ۖ کی گود میں ڈال دیا۔ راوی حدیث حضرت عبدالرحمٰن بن سمرہ فرماتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ۖ ان دیناروں کو اپنی گود میں اُلٹ پلٹ کر دیکھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے ”یعنی آج کے بعد عثمان کو ان کا کوئی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا، سرکار اقدس ۖ نے ان کے بارے میں اس جملے کو دوبارہ فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ فرض کرلیا جائے کہ اگر حضرت عثمان غنی سے کوئی خطا واقع ہوتو آج کا ان کا یہ عمل ان کی خطا کے لیے کفارہ بن جائے گا۔ (مشکوٰة شریف) تفسیر خازن اور تفسیر معالم التنزیل میں ہے کہ جب حضرت عثمان غنی نے جیش عُسرہ کی اس طرح مد د فرمائی کہ ایک ہزار اونٹ ساز و سامان کے ساتھ پیش فرمائے اور ایک ہزار دینار بھی چندہ دیا۔ اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف نے صدقہ کے چار ہزار درہم بارگاہ رسالت ۖ میں پیش کیے تو ان دونوں حضرات کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔
ترجمہ :”جو لوگ اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ پھر دینے کے بعد نہ احسان رکھتے ہیں اور نہ تکلیف دیتے ہیں، تو ان کا اجر و ثواب ان کے رب کے پاس ہے، اور نہ ان پر کو ئی خوف طاری ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔”(البقرہ آیت نمبر٢٦٢) واضح رہے آ ج بھی مدینہ منورہ میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر باقاعدہ جائیداد رجسٹرڈ ہے اور آج بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نام پر بجلی اور پانی کا بل آتا ہے! اٹھارہ ذی الحجہ ٥٣ ھ کو نبی اکرم ۖکے اس محبوب خلیفہ کو ایک عظیم سازش (جو کہ درحقیقت اسلامی تاریخ کی سب سے اول اور سب سے بڑی سازش تھی)کے بعد اس عالم میں قتل کر دیا گیا کہ آپ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے، کئی دن کے روزے سے تھے،اور اپنے گھر میں محصور تھے۔گو کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ سمیت کئی صحابہ کرام آپ کے گھر کے دروازے پر پہرہ بھی دے رہے تھے لیکن اس کے باوجود بلوائی آپ کے گھر میں پیچھے کی سمت سے داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔اور عین تلاوت قرآن کی حالت میں خلیفہ وقت اور امیرالمومنین کو شہید کر دیا گیا۔
یہ عظیم سازش جو عبد اللہ بن سبا سمیت متعدد منافقین کی سعی کا نتیجہ تھی درحقیقت صرف حضرت عثمان کے خلاف نہ تھی بلکہ اسلام اور تمام مسلمانوں کے خلاف تھی اور آپ کی شہادت کے بعد وہ دن ہے اور آج کا دن کہ مسلمان تفرقہ اور انتشار میں ایسے گرفتار ہوئے کہ نکل نہ سکے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ یااللہ ہم سب کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہُ کے نقش قدم پر چلا (آمین)