کالعدم تحریک ِ طالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہدنے کہاہے کہ پاکستان کے آئین کا ایک جزو بھی اسلامی نہیں حکومت مذاکرات کی آڑمیں آئین منوانا چاہتی ہے جنگ بندی میں حکومت پہل کرے ۔۔۔ ترجمان نے جو کچھ کہا یا جو ہم نے پڑھا یہ شاہداللہ شاہدکا بیان ہے یا پھر درفنطنی ۔۔۔ بہرحال جو بھی ہے تضاذات کا مجموعہ اور منتشر ذہن کی علامت ہے سب سے پہلے توحکومت کے واری صدقے جائیے کہ ایک طرف تحریک ِ طالبان کو کالعدم قرار دیا گیاہے اور دوسری طرف اس سے مذاکرات کرنے کی بھی خواہش ہے وہ پاکستان کا آئین بھی تشلیم کرنے سے انکاری ہیں پھر مذاکرات کیونکر ؟۔۔۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کالعدم تحریک ِ طالبان جب آئین قانون کو مانتی ہی نہیں تو پاکستان کی حکومت سے مذاکرات کیوں کرنا چاہتی ہے اس حکومت کا وجود بھی تو آئین کے مرہون ِ منت ہے جب کوئی آئین کو ماننے سے انکار کردے تو پھر حکومت سے مذاکرات کا اخلاقی، قانونی اور آئینی جواز ہی باقی نہیں رہتا اس لئے فریقین کو ٹھنڈے دل سے اس نازک، حساس اورقومی ایشوپر بات کرنے کیلئے زمینی حقائق کی روشنی میں بات کرنی ہوگی تب جاکر حالات بہتر ہونے کی سبیل نکل سکتی ہے موجودہ حالات میں تو تھوڑا سا پیارہوا ہے تھوڑا ہے باقی والی بات ہے ۔
ویسے کالعدم تحریک ِ طالبان کے رہنما ہم جیسے عام مسلمانوں سے زیادہ متقی، پرہیز گار اورنمازی ہیں ان سے بہتر کون جانتا ہے کہ اسلام کو دین ِ فطرت کہا گیا ہے جو ہرقسم کی انتہا پسندی کے خلاف ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوںہے کہ اسلام اور انتہا پسندی اور دہشت گردی ایک دوسرے کی ضد ہیں اب اسلام کے نام پر قتل و غارت والا فلسفہ کسی کی سمجھ میںنہیں آسکتا اور نہ مسلمانوں کی اکثریت دہشت گردوں کو اسلام کے وارث تسلیم ہی کر سکتی ہے اس لئے عام لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ انتہا پسند اسلام کی غلط تشریح کر رہے ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمانوں کی سبکی ہورہی ہے مغربی دنیا اور اسلام دشمن قوتوں کے زہریلے پروپیگنڈے کے باعث مسلمان کے ساتھ دہشت گردی کو نتھی کر دیا گیا ہے حالانکہ بیشتر مسلم ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت سماجی اور معاشرتی اعتبار غربت کے ہاتھوں انتہائی مجبور ہے وطن ِ عزیز پاکستان میں تو 12 کروڑ سے بھی زیادہ شہری غربت سے بھی نچلی سطح پر زندگی گذار رہے ہیں غربت کی سب سے خوفناک شکل یہ ہے کہ سینکڑوں لوگ اپنے گردے بیچنے سے بھی دریغ نہیں کر رہے، غربت سے تنگ لوگ اپنے لخت ِ جگر فروخت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں آئے روز اخبارات میں ایسی خبریں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں۔
Rule Of Islam
جن علاقوں میں طالبان کا اثر و رسوخ زیادہ ہے ان میں عام آدمی کی حالت انتہائی قابل ِ رحم ہے وہاں نہ کوئی انڈسٹری ہے نہ صنعت۔۔۔ایک سیاحت وہاں کا واحد ذریعہ ٔ روزگار تھا جو دہشت گردی کی نذر ہو گیا۔ شمالی علاقہ جات کے شہری ان حالات کی وجہ سے زندگی سے عاجزآئے ہوئے ہیں سندھ پنجاب، بلوچستان کے زیادہ ترشہریوں کی حالت بھی سب کے سامنے ہے ملک کے چاروں صوبوں کے پوش علاقوں کو چھوڑ کر باقی شہروں کی بیشتر آبادیوں میں لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیںبھارتی، بنگلہ دیشی، فلسطینی، برما، افریقی، افغانی، عراقی مسلمانوں کی حالت ِ زار ایک الگ داستان در داستان ہے کالعدم تحریک ِ طالبان کے اکابرین ملک میں شریعت کا نفاذ کرانا چاہتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے نظام ِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ہر مسلمان کے دل کی آواز ہے یہ ملک بھی اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور اس میں اسلام کی حکمرانی کا خواب ضرور شرمندہ ٔ تعبیر ہونا چاہیے نظام ِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفاذ کیلئے مذاکرات ہی سب سے بہتر اور سب سے اچھا فیصلہ ہے اسلام میانہ روی کا حکم دیتا ہے لیکن اسلام کے نام پر اپنے کلمہ گو بھائیوں کے گلے کاٹنا، اسلام کے نام پر دہشت، خوف وہراس ، دین کے نام پر بم دھماکے، خودکش حملے، اسلام کے نام پر مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا، ٹرینوں پر حملے اور بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ایک اور اہم بات جو اسلام کی اصل روح ہے جب تک سٹیٹ کو ایک رفاہی فلاحی مملکت نہیں بنایا جاتااسلامی تعزیرات کو نافذنہ کیا جائے
اس کیلئے بتدریج اسلامی قوانین پر عمل ہونا ضروری ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اسلامی نظام نافذ ہو بھی جائے پھر بھی جرائم اور غربت کی وجوہات ختم کئے بغیراسلامی سزائوں کیلئے ٹھوس حکمت ِ عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ مختلف مکاتب ِ فکر کے علماء کرام، دانشوروں، اسلامی سکالرز اور ماہرین کی خدمات سے استفادہ کیا جائے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک موقعہ دیا ہے ہم اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اتحاد، اتفاق ، مفاہمت سے اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذکر سکتے ہیں لیکن طاقت کے بل بوتے یابندوق تان کریا دہشت گردی کے زور پر کئے گئے فیصلے ملک و قوم کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں اس وقت طالبان کے 100 سے زیادہ گروپ ہیں ان میں سے جو ہم خیال ہیں وہ اکٹھے ہو جائیں دوسرے گروپوں کو بھی قائل کیا جائے کہ مسلح جدوجہد اسلام اور پاکستان کے مفاد میں ہرگز، ہرگز، ہرگزنہیں ہے یہ ساری انرجی، کوششیں، جدوجہد اور کاوشیں اسلام کی سر بلندی، پاکستان کی ترقی اورعوام کی خوشحالی کیلئے وقف کر دی جائے تو اس سے نہ صر ف ہمارے ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ ہو گا بلکہ پاکستان کو اسلام کا مضبوط قلعہ بنانے کا خواب بھی پورا کیا جا سکتا ہے
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے نیل کے ساحل سے لے کر تابخروکاشغر