پہنچی وہیں پہ خاک

ایک شخص حضرت با یزید بسطامیؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا ’’اپنا کرتا بطور تبرک مجھے دے دیجئے، میں اِس سے برکت حاصل کروں گا‘‘۔ حضرت بایزیدؒ نے فرمایا ’’میں اگر تمہیں اپنی چمڑی بھی اتار کر دے دوں تو وہ بھی تمہارے لیے سود مند نہ ہوگی کیونکہ کسی زبان دراز کو کوئی تبرک فائدہ نہیں پہنچا سکتا‘‘۔ محترم عمران خاں نے خارزارِ سیاست میں قدم رکھتے ہی جس غیر پارلیمانی زبان کی ’’طرح‘‘ ڈالی اُسے نرم سے نرم الفاظ میں ’’بازاری‘‘ زبان ہی کہا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف انتہائے نرگسیت کے شکار ، شیخ الاسلام کہلوانے کے شوقین مولانا طاہرالقادری جب سے پاکستان تشریف لائے ہیں تب سے اب تک اپنے عقیدت مندوں کو قائل کرنے کے لیے ساڑھے پانچ سو مرتبہ ’’اللہ کی عزت ‘‘کی قسم اُٹھا چکے ہیں جبکہ میرے دین کا یہ طے شدہ فیصلہ ہے کہ زیادہ قسمیں کھانے والا جھوٹا ہوتا ہے۔

مولانا نے دھرنے کی رات کو لیلۃالقدر قرار دے کر دینِ مبیں کا مذاق اُڑانے کی جسارت کی لیکن حیرت ہے کہ کسی مفتی نے اِس ناپاک جسارت پراب تک کوئی فتویٰ نہیں دیا۔

ALLAH

ALLAH

حضرت علیؓ کا قول ہے’’زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر تُو اُسے کھُلا چھوڑ دے تو عین ممکن ہے کہ تجھے ہی پھاڑ کھائے‘‘۔اسلام آباد کے ڈی چوک میں اِس قولِ علیؓ کوہم سچ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ خاں صاحب جوآندھی، طوفان کی طرح اُٹھے اب ڈی چوک کے ایک کونے میں سُکڑے سمٹے بیٹھے ہیں۔ خاں صاحب کے مدح سرا ’’کالمی درویشوں‘‘والے لکھاری نے اپنے کالموں میں سینکڑوں بار لکھا ’’کپتان جھوٹ نہیں بولتا‘‘ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ کپتان کی کھیتی میں سوائے جھوٹ کے اور کوئی فصل اُگتی ہی نہیں۔ ڈی چوک کے 24 دنوں میں اُنہوں نے اتنے جھوٹ بولے کہ شمار ممکن نہیں لیکن ایک آخری جھوٹ کہ ’’حکومتِ پاکستان جھوٹ بولتی ہے، چین کے صدرتوپاکستان کے دورے پرآہی نہیں رہے تھے‘‘۔

اُنہیں ایسی اطلاعات پہنچانے والا ٹی وی اینکر خوداتنا بڑا جھوٹا ہے کہ کوئی بھی عقیل و فہیم شخص اُس کی باتوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ چینی وزارتِ خارجہ نے تصدیق کردی کہ پاکستانی سیاست کی صورتِ حال کو مدِنظر رکھتے ہوئے دونوں ملکوں کی باہمی رضامندی سے دورہ منسوخ ہوا۔ خاں صاحب کے لیے انتہائی مایوس کُن خبر یہ کہ چینی سفارت خانے نے بیان جاری کر دیا ہے کہ ’’طے شُدہ معاہدوں پرمکمل عمل درآمد ہوگااور سیاسی حالات معمول پرآتے ہی دورے کو حتمی شکل دی جائے گی‘‘۔اُسی کذاب اینکر کوانٹرویو دیتے ہوئے خاں صاحب نے یہ بھی فرمایا’’ چین سے 32 ارب ڈالرز7 فیصد سود پر حاصل کرکے قوم کو مزید مقروض کیا جارہا ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان نے چین سے کوئی قرض نہیں لیا۔یہ 32ارب ڈالر زکے معاہدے ہیں جوچینی صنعت کاروں کے ساتھ کیے گئے ۔ساری سرمایہ کاری چینی صنعت کارہی کریں گے اور چینی حکومت پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے صنعت کاروں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرے گی لیکن خاں صاحب نے اِن سب پرپانی پھیرنے کی محض اِس لیے کوشش کی کہ اگریہ منصوبے شروع ہوگئے توپھرخاں صاحب کی وزارتِ عظمیٰ خواب وخیال بن کے رہ جائے گی۔

Pakistan

Pakistan

دھرنوں کی مایوس کُن تعداددیکھ کردونوں رہنمابھائی ، بھائی بن چکے ہیں۔اب دونوں کاایجنڈا ایک اوردونوں ہی انارکی پھیلانے کی تگ ودومیں مگن ۔اِس لیے بَرملاکہاجاسکتاہے کہ’’پہنچی وہیں پہ خاک،جہاں کاخمیرتھا‘‘۔ مسٹراورمولانا کے دھرنے ڈی چوک کے انتہائی متعفن ماحول میں اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں اورڈی چوک کوالتحریرسکوائرمیں بدلنے کاخواب دیکھنے والوں کی ہر تدبیراُلٹی ہورہی ہے۔خاں صاحب بارباروزیرِاعظم کومصرکے صدرحسنی مبارک کاطعنہ دیتے ہیں لیکن جانتے وہ خودبھی ہیں کہ التحریرسکوائرپرلاکھوں کامجمع تھا،پوری قوم انقلابیوں کے ساتھ تھی اورحسنی مبارک نے اپنا اقتداربچانے کے لیے لگ بھگ 900 لوگوں کوگولیوں کانشانہ بنایاجبکہ خاں صاحب کی ’’جوہڑ‘‘میں بدلتی سونامی محض چندسوافرادپرمشتمل ہے۔

البتہ رات کو ’’میوزیکل کنسرٹ‘‘ کے شوقین پنڈی اسلام آبادکے لڑکے ،لڑکیاں ہلا گُلا کرنے اور جسم تھرکانے ڈی چوک پہنچ کردھرنے کو رنگین بنادیتے ہیں۔ مسٹراور مولانا کی تویہ شدید خواہش تھی اور ہے کہ ڈی چوک کوخون میں نہلا دیا جائے تاکہ اُنہیں لاشوں پر سیاست کرنے کا موقع مل سکے۔ شایدایسا ہو بھی جاتا لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد حکومت محتاط ہوگئی اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑااِس لیے مسٹراور مولانا کا لاشوں پر سیاست کرنے کا منصوبہ دھرے کا دھرارہ گیا۔ چار و ناچار خاں صاحب نے یہ اشارے دینے شروع کردیئے کہ فوج اُن کی پشت پرہے۔وہ کبھی امپائرکی انگلی کھڑی ہونے کااشارہ دیتے تو کبھی اپنی کور کمیٹی کو کہتے’’وہ‘‘کہتے ہیں کہ ایسا کر دو، ویسا کر دو لیکن یہ جھوٹ بھی زیادہ دیرتک نہ چل سکااور’’باغی‘‘نے بیچ چوراہے بھانڈاپھوڑدیا۔

جونہی تحریکِ انصاف کے اراکینِ پارلیمنٹ کویہ ادراک ہواکہ کپتان جھوٹ بولتاہے تواُن میں پھوٹ پڑگئی جس کااقرارخودخاں صاحب نے بھی کیا۔تحریکِ انصاف کے تین اراکین نے توویسے ہی مستعفی ہونے سے انکارکردیا،پانچ اراکین نے استعفے عمران خاں صاحب کے نام لکھے جوغیرآئینی تھے اور اب باوثوق ذرائع تصدیق کررہے ہیں کہ تحریکِ انصاف کے کم ازکم 20 اراکین نے سپیکرقومی اسمبلی سے خفیہ ملاقات کرکے استدعاکی ہے کہ اُن کے استعفوں پرعمل درآمدروک دیاجائے۔اگریہ سچ ہے توپھرخاں صاحب کی پٹاری میں تومحض چند’’سِکے‘‘ہی بچتے ہیں،کیاوہ اِن کھوٹے سکوں کے زورپرانقلاب لانے کے داعی ہیں؟۔ویسے تویہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ عنقریب شاہ محمودقریشی صاحب،جہانگیرترین،اعظم سواتی اور شیریں مزاری سے مِل کرعنقریب تحریکِ انصاف سے خاں صاحب کا پتاکاٹنے والے ہیں اور تحریکِ انصاف کے اراکینِ پارلیمنٹ کی غالب اکثریت نے اُن کو ساتھ دینے کی یقین دہانی بھی کروادی ہے۔

Tahir ul Qadri

Tahir ul Qadri

اُدھر مولانا قادری کوبھی چودھری صاحبان یقین دلاتے رہے کہ ’’وہ‘‘ اُن کے ساتھ ہیں لیکن دھرنوں کی شرمناک ناکامی کے بعد بوکھلائے ہوئے چودھری شجاعت نے ایک طرف توسابق آرمی چیف کوانتخابی دھاندلی میں ملوث قراردے دیاجبکہ دوسری طرف فوج کومارشل لاء لگانے کی دعوت بھی دے ڈالی۔ فوج کی مزاج شناسی کادعویٰ کرنے والے کچھ ریٹائرڈ فوجی بھی ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت حکومت کے خلاف زہراُگلتے رہے اور ہمارا آزاداور بیباک میڈیا جلتی پہ تیل ڈالتارہا۔تقریباََ تمام نیوز چینلز24 گھنٹے مسٹراور مولانا کے گرد گھومتے اوراُن کی ’’لائیوکوریج‘‘ کرتے رہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا کا کاروباراشتہارات پہ چلتا ہے لیکن اِن چوبیس دنوں میں اشتہارات بھی تقریباََ بند ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ مسٹراور مولانانے اِن نیوز چینلز کو کتنے میں خریدا؟۔اُدھر پیمرا کا یہ عالم کہ بے بس، مکمل بے بس۔ مانا کہ آئین ہمیں اظہارِ رائے کی آزادی دیتا ہے لیکن بانئ پاکستان نے تویہ فرمایا تھا کہ ’’آزادی کامطلب بے لگام ہو جانا نہیں۔ اِس کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ آپ جورویہ چاہیں اختیار کریں اور جو جی میں آئے کر گزریں۔آزادی ایک بھاری ذمہ داری ہے جسے سوچ سمجھ کراستعمال کرنا ہوتا ہے‘‘۔یہ کیسی آزادی ہے جوبربادی کاپیش خیمہ ثابت ہورہی ہے اور الیکٹرانک میڈیا بربا دیوں کی داستان رقم کرنے والوں کابھرپورساتھ دے رہاہے۔

پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں