ہاں اُس شہر کی ممتانے چند ماہ کے یوسف کا گلا گھونٹ کے اپنی ممتا کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جس شہر میں 2.5 بلین ڈالر کی مالیت کے ساتھ وطن عزیز کا امیر ترین شخص رہتا ہے ہاں بسمہ نے تین روز سے بھوکی اپنی دوسالہ مناہل کو اُس شہر میں پانی کے ٹب میں ڈبو کر سانسوں کے بندھن سے آزاد کر دیا جس شہر کا چیف منسٹر اور پرائم منسٹر 1.4 بلین ڈالر کے ساتھ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت کے چوتھے امیر ترین افراد ہیں ہاں 125 مائوں کے لخت جگر بھوک نے اُس صوبہ میں چھینے جس صوبہ کا مرد آہن 1.8 بلین ڈالر مالیت کے ساتھ اپنی ریاست کا دوسرا امیر ترین آدمی ہے۔
ہاں اُسی صوبہ کے باسی اپنے اثاثوں بالترتیب 1.1 بلین ، 1 بلین ڈالر، 900 ملین ڈالر 850 ملین ڈالر، 800 ملین ڈالر کے ساتھ ملک کے امیر ترین افراد کی فہرست میں پانچویں، چھٹے، ساتویں، آٹھویں اور نویں نمبر پر ہیں جن کے علیشان بنگلوں اور آسمان سے باتیں کرتے وسیع و عریض محلات سے صرف ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر بھوک کا عفریت سوا سو سے زائد بچوں کو نگل گیا ان محلات کے باسی وہ افراد ہیں جو نہیں جانتے کہ غریبی کے دکھ کتنے اذیت ناک ہوتے ہیں جن کو غربت کے مسائل کی ہولناکیوں کا علم تک نہیں ہاں خواب ِ استراحتکے مزے لینے والے ان افراد کو علم نہیں ہوتا کہ دن کتنا طویل ہوتا ہے جو یہ نہیں جانتے کہ غریبوں کے آنگن میں اُترنے والی شامیں کتنی بھیانک ہوتی ہیں، جنہوں نے کبھی تاریکیوں کے بھیانک ہیولے نہیں دیکھے، جنہیں یہ ادراک نہیں کہ اندھیروں کی چبھن کیسی ہوتی ہے؟ جن کے محلات میں رات کوبھی دن کا سا اُجالا ہوتا ہے۔
The Sun Rises
جنہیں سورج طلوع ہونے کا پتہ اُس وقت چلتا ہے جب کوئی ملازم ڈرتے ڈرتے کہتا ہے صاحب جی اُٹھیئے ! دن نکل آیا جنہیں یہ نہیں معلوم گھروں میں برتن مانجھ کر اپنی اولاد کو پالنے والی بوڑھی ماں کی حسرتوں کا کرب کیسا ہوتا ہے؟ گھر میں ادھورے خواب آنکھوں میں لیئے جوان بیٹی سلائی کڑھائی کرکے نحیف ماں، ضعیف باپ اور اپنے پیٹ کے دوزخ کو کیسے بھرتی ہے؟ چھ جوان بیٹیوں کے بوڑھے مزدور باپ کا درد کیا ہے جو سارا دن خون پسینے سے صرف ساٹھ روپے گھر لاتا ہے تو اس جان کنی سے چولہا کیسے جلتا ہے؟ فیکٹریز اور مل اونر اس عرشی طبقہ کے افراد نے مزدوروں کے ساتھ صرف ایک روز کام کیا ہوتا تو معلوم ہوتا کہ رگوں میں دوڑنے والے خون کا عرق کیا ہوتا ہے؟ محنت کے پسینے کی مہک کیا ہوتی ہے؟ کبھی بھوک کی شدت اور لگا تار فاقوں کی حدت محسوس کی ہوتی تو پتہ چلتا کہ زندگی کن اذیتوں کا مجموعہ ہے؟
ہاں یہی وہ استحصالی طبقہ ہے جنہیں کتے پالنے، پنچھی قید کرنے سے ہی فرصت نہیں گوشت کھا کھا کر جن کے پالتو کتوں کے دماغ بھر گئے اور لاکھوں پسماندہ غربت میں سسکتے انسانوں کو بقر عید پر ہی مانگے کی چند بوٹیاں نصیب ہوتی ہیں یہی طبقہ ہے جس کی وجہ سے وطن عزیز میں کرپشن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے جو سالانہ 12600 ارب روپے کی کرپشن کرتا ہے اور ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ ہر سال 65 فیصد بجٹ ان لٹیروں کی کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے ان محلات کے باسیوں کی وجہ سے ہی ٹیکسز میں کرپشن کی شرح 3000 ارب روپے سالانہ تک پہنچی اسی برسر اقتدار باری کا کھیل کھیلنے والوں کی وجہ سے 11 ہزار کنٹینرز بغیر ٹیکس ادا کیئے چور دروازوں سے افغانستان منتقل کرنے سے 37 ارب کی کرپشن ہوئی نیشنل انشورنس کارپوریشن میں کرپشن کے ذریعے 1 ارب 68 کروڑ اسی طبقہ نے لوٹے موجودہ دور حکومت میں ایک وزیر اعلیٰ اور اہم شخصیات کے ہیلی کاپٹر پر سات ماہ میں تین کروڑ خرچ ہوئے جبکہ عوام کے ان خادمین نے ایک کروڑ کی مزید سمری بھیجی ہے قارئین ! کرپشن کی دیگ کے یہ چند چاول ہیں جن کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بد عنوانی کی کہانیاں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں اور اقبال کی دھرتی کو 67 برسوں میں منزل سے دور کس طبقہ نے رکھا؟
جو چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ میرے مقدر کے تلووں پر منزل کی رسائی کیوں نہیں یاپھر میری منزل کے مقدر میں میرے تلووں کے عکس کیوں نہیں؟ ہاں قائد کی دھرتی کہہ رہی ہے کہ وہ جو میرے وارث کہلائے اُن کی نظریں کیا ہوئیں؟ وہ یہ سوال پوچھتی ہے کہ آج میرے دشمن مجھے ریزہ ریزہ کرنے کے درپے ہیں اور میری ذات پر رکھی میرے اصلی وارثوں کی بے پروائی اگر مجھے کسی اور آغوش میں ڈال گئی تو کیا وہ جی پائیں گے؟ اُتنی ہی شاہ خرچیوں اور ڈھٹائی سے جتنا مجھے پاکر جیتے ہیں؟ میرے وجود کی بنیادوں میں ہزار ہا قربان گاہیں ہیں جہاں ہزار ہا بے کسوں کے وجود دفن ہیں کیا میرے اصلی وارث اپنےآبا ئو اجداد کے جسموں سے ٹپکتے لہو کو بھول گئے؟
کیا دھرتی کی وراثت کا دعویٰ کرنے والوں نے کبھی سوچا کہ شاہراہوں پر ڈاکٹر طاہر القادری کی کال پر اداروں کی نجکاری کے نام پر لوٹ مار کے خلاف کتنوں نے گھروں کی دہلیز کو پار کیا؟ خاموش جذبے زبان مانگتے ہیں 67 برس ہوئے زردی مائل چہروں پر نکھار نہیں آیا اندر عجیب گھٹن اور لب ہیں کہ حقیقی مسکراہٹ سے عاری زندگی کو کوئی تحفظ نہیں رہا خزاں کے موسم کا تسلط ہے کہ چھٹنے کو نہیں آرہا گلاب تتلیوں جگنو چاند ستاروں کا ذکر سراب لگتا ہے فاصلے سمٹنے کی بجائے سوا ہوتے جا رہے ہیں اس دیس کے گلابوں سے بہاریں روٹھ گئیں بھوک بیروزگاری اور بیماری اسے چبا رہی ہے اس میں رہنے والا وی آئی پی طبقہ بڑی بڑی لیموزین گاڑیوں پر کلاشنکوف بردار باڈی گارڈز کی حامل ”جونکیں ”اس دھرتی کا لہو پی رہی ہیں دنیا کی عظیم انقلابی شخصیت نبی آخر الزماں ۖنے فرمایا تھا کہ ”وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اُس کا پڑوسی جو اُس کے پہلو میں رہتا ہو بھوکا رہے ”اور جس بستی میں کوئی شخص بھوکا سوجائے اُس بستی سے اللہ کی رحمت اُٹھ جاتی ہے اور جس بستی میں مائیں اپنی اولاد کو بھوک کی وجہ سے قتل کرنا شروع کر دیں اُس بستی پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے ارسطو نے کہا تھا کہ غربت تمام جرائم اور انقلابات کی ماں ہے۔