تحریر : اختر سردار چودھری صحت کے حوالے سے ملک کی صورت حال کتنی گمبھیر ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔ دیہی آبادی جو کہ ملک کی غالباََ 70 فیصد آبادی ہے صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔بنیادی مرکز صحت تو وہاں ہیں، لیکن ادویات و عملہ مکمل نہیں ہے یہ ہی حال شہر میں سرکاری ہسپتالوں میں ہے ۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں، اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارا کوئی لیڈر ،رہنما ،سیاست دان ان ہسپتالوں میں اپنی کسی بیماری کے علاج کے لیے نہیں جاتا۔بلکہ ان کی اولاد بھی علاج کے لیے پرائیویٹ یا بیرون ممالک ہے ۔(ہمارے ملک میں تعلیم کا زوال بھی اسی وجہ سے ہے کہ کسی سیاست دان کا بچہ سرکاری سکول و کالج میں تعلیم حاصل نہیں کرتا ) وزیراعظم محمد نوازشریف کے قومی صحت پروگرام پر نظر ڈالنے سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہمارے ملک میں بیماریوں کی یہ جو افراط ہے، اس کی وجہ کیا ہے ؟ مختصر جواب یہ ہے کہ اس کی وجہ ملاوٹ ہے ۔کھانے پینے مثلاََ گھی ،مضرصحت، ناقص مصالحہ جات ،دودھ و دیگر عام ضروریات کی اشیا ء کے علاوہ ادویات تک میں ملاوٹ ۔ملک بھر میں پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں ۔پبلک ہوٹلوں اور ریستورانوں کے علاوہ قصابوں اور مٹھائی کی دکانوں اور خوانچہ فروش ملاوٹ زدہ اشیاء فروخت کرتے ہیں اوریہاں پر صفائی کا بہتر انتظام نہیں، ملک بھر عام طور پر حفظان صحت کے اصولوں کا ذرا بھی خیال نہیں رکھا جاتا، جس کا سب سے زیادہ فقدان بازاری ہوٹلوں اور ریستورانوں میںدیکھا جا سکتا ہے۔
انسانی جانوں سے کھیلنے والے موت کے سوداگر محکمہ صحت ملی بھگت سے ہی کھانے پینے کی اشیا ء میں بلاخوف و خطر ملاوٹ کا کاروبارکرتے ہیں۔جعلی دواؤں کی تیاری اور فروخت کا کاروبار بھی عروج پر ہے ۔سفارش اور رشوت کی وجہ سے انسانی زندگیوں کے ساتھ یہ سفاک مجرم دن رات کھیل رہے ہیں۔ یواین ڈی پی کی یہ ضخیم رپورٹ دسمبر2015ء میں شائع ہوئی ہے ۔ یعنی 2015ء تک پاکستان میں مجموعی انسانی ترقی کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے ۔ بے لاگ تحقیق کے مطابق پاکستان147 ویں نمبر پر ہے ،جو کسی بھی طرح اطمینان بخش نہیں۔ناروے اس فہرست میں اول نمبر پر ہے ۔ناروے میں انسان کی عمومی عمر اکیاسی(81) برس ہے ۔ پاکستان میں عمومی عمر66 برس ہے ۔کافی عرصہ سے جماعت اسلامی کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ جماعت اسلامی اقتدار میں آکر خوشحال پاکستان بنائے گی تو خوشحال پاکستان میں کم از کم پانچ مہلک بیماریوں کا مفت علاج کیا جائے گا۔ان بیماریوں میں کینسر،امراض قلب،گردوں کی بیماری ،یرقان اور تھیلی سیمیا کا علاج سرکاری طور پر کیا جائے گا۔جماعت اسلامی تو جب اقتدار میں آئے گی تو خوشحال پاکستان بنائے گی۔
تب اس پر عمل شروع ہوگا ۔تحریک انصاف نیا پاکستان بنا رہی ہے ۔جیسے کہ درج ذیل خبر آئی ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے صوبے کے غریب مریضوں کو ان کے علاج کے اخراجات کی ادائیگی کیلئے “صحت سہولت پروگرام”کے تحت ہیلتھ انشورنس سکیم کا افتتاح کر دیا ہے ۔ سکیم کے تحت صوبے کے چار اضلاع میں ضرورت مندغریب مریضوں کو ہسپتال کے اخراجات کیلئے سالانہ 25ہزار روپے ادا کئے جائیں گے۔صحت سہولت پروگرام کی ابتدا ضلع مردان میں کر دی گئی ہے ۔ اس سکیم سے ضلع مردان کے 60 ہزار مستحق گھرانوں کے 40 لاکھ سے زائد افراد مستفید ہوں گے۔ لیکن خوشخبری یہ ہے کہ پرانے پاکستان (موجودہ ) میںگزشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد وزیراعظم محمد نوازشریف نے قومی صحت پروگرام کا افتتاح کیا تو اعلان کیا کہ سات بیماریوں کا علاج معالجہ مفت کیا جائے گا ۔ پہلے مرحلے میں پروگرام ملک کے پندرہ اضلاع میں شروع کیا جائے گا ،بارہ لاکھ خاندانوں کو صحت کارڈ فراہم ہونگے اور سالانہ تین لاکھ روپے تک علاج کی سہولت حاصل ہوگی،علاج ومعالجے کی سہولیات سے متعلق ہیلپ لائن پر مفت کال کی جاسکے گی۔
Nawaz Sharif Speech
محترم نواز شریف نے بتایا کہ یہ پروگرام 23 ضلعوں میں شروع کیا جائے گا، پہلے مرحلے میں 15 اضلاع میں اس پروگرام پر عملدرآمد شروع ہو گا اور تقریباً 32 لاکھ خاندان صحت کی سہولیات سے مستفید ہوں گے۔وزیراعظم کی جانب سے یہ عوام کے لیے نئے سال کا تحفہ کہا جا رہا ہے ۔ویسے تو وزیراعظم نے یقین دلایا ہے کہ اس پروگرام کی مانیڑنگ کی جائے گی ،لیکن ایسے درجنوں اعلانات کے باوجود ایسے سبھی پروگرام بدعنوان مافیا کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔اس اعلان پر غور کرنے سے علم ہوتا ہے کہ پہلے غربا ء کوسرکاری ہسپتال میں علاج کروانے کے لیے پرچی لینی پڑتی تھی، اب کارڈ بنوانا ہوگا ۔کیونکہ ان کارڈ ہولڈرز کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں کیا جائے گا ۔پہلے بھی تو سرکاری ہسپتالوں میں غربا ء کا علاج ہی ہو رہا ہے ۔مزید غور کریں تو اس پورے اعلان میں نئی بات صرف کارڈ بنانے کی ہے ۔باقی سب وہی ہے ۔غربا ء پہلے بھی سرکاری ہسپتالوں میں اپنی معمولی بیماریوں سے لے کر ہر بیماری کا علاج کروا رہے ہیں ،اب کارڈ ہولڈر ہو کر بھی وہی کروائیں گے ۔اور سرکاری ہسپتالوں میں جو علاج معالجہ کی صورت حال ہے ۔جتنی صفائی ہے۔
ادویات کی جو دستیابی ہے ،اس سے ہم سب واقف ہیں ۔ان سرکاری ہسپتال میں سے اکثریت قیام پاکستان سے پہلے سے تعمیر شدہ ہیں۔صفائی ستھرائی کا انتظام انتہائی ناقص ہے ۔سب سے بڑھ کر ادویات بھی مریضوں کو خود خریدنی پڑتی ہیں ۔ٹیسٹ بازار سے کروانے پڑتے ہیں ۔کیا ہی اچھا ہوتا جو انہی سرکاری ہسپتالو ں میں ادویات فراہم کی جاتیں تاکہ غرباء کو ادویات بازار سے نہ خریدنا پڑتی۔سرکاری ہسپتالوں میں مزید بیڈز لگائے جاتے ۔کیونکہ سرکاری اسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز میں بستر نہ ہونے کی وجہ سے ایمرجنسی مریضوں کو وارڈز میں فرش پر لٹانا پڑتا ہے ۔عملہ بڑھایا جاتا ۔سرکاری ڈاکٹروں کو نجی کلینک کھولنے سے روک دیا جاتا اور سب سے بڑھ کر اور ان کی مانیٹرنگ کا نظام بہتر بنایا جاتا ۔یا مزید سرکاری ہسپتال بنائے جاتے۔
اسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ پاکستان میں 50فیصدافرادبیماریوں کی وجہ سے غربت کا شکارہیں، محترمہ سے نہایت ادب سے گزارش ہے کہ یہ فقرہ اگر الٹ کر کے پڑا جائے تو پاکستان کے حالات کی درست عکاسی ہوتی ہے مثلاََپاکستان میں 50 افراد غربت کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہیں ،یعنی ملک کی نصف آبادی غربت کی وجہ سے بیماریوں شکار ہے۔کیونکہ بندہ امیر ہو ،دولت مند ہو تو اپنا علاج اچھے سے اچھے ہسپتال میں کروا سکتا ہے ،غریب بیمار ہوجائے تو اسے اپنے کردہ ناکردہ گناہوں کی سزا دنیا میں ہی دے جاتی ہے ۔یہ شعر تو ہم سب نے سنا ہو گا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ بندہ تنگ دست نہ ہو ۔اگر تنگ دست نہ ہو،غریب نہ ہو تو صحت ہزار نعمت ہے ۔ تنگ دستی اگر نہ ہو سالک تندرستی ہزار نعمت ہے اس لیے ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ سب سے پہلے ملک سے غربت کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں، صحت مند پاکستان کے لیے ملاوٹ سے پاک اشیاء خوردونوش اور ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔