تحریر : عبدالرزاق چوہدری کچھ عرصہ ہوا ذاتی مصروفیات کی وجہ سے لکھنے کا سلسلہ موقوف تھا۔ لیکن برما کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کی ویڈیوز دیکھنے کے بعد قلم سے محبت بیدار ہو گئی جبکہ میرے پاس یہی ایک ہتھیار ہے جسے میں استعمال کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا سکتا ہوں اور ملول دل کی بھڑاس نکال سکتا ہوں ۔خدا گواہ ہے دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور خواہش یہ ہے کہ یہ قلم خنجر کی صورت اختیار کر جائے اور ان ظالموں کے سینے میں پیوست ہو کر آتش فشاں کی طرح پھٹ جائے جو طاقت اور اختیار کے بل بوتے پر معصوم اور بے گناہ برمی مسلمانوں پر وحشیانہ تشدد کر رہے ہیں ۔ ذہن میں صرف ایک خیال بار بار آ رہا ہے کہ اگر دنیا کے کسی حصہ پر اس طرح کا سلوک غیر مسلموں سے ہو رہا ہوتا تو امریکہ، برطانیہ اوردیگر یورپی ممالک ظالمین پر بمباری کے لیے پر تول رہے ہوتے لیکن اب ان کو پرواہ ہے نہ اس جانب کوئی خاص توجہ ۔ مسلمان بھائیو اور بالخصوص میرے ہم وطن ساتھیو ایک بات پر غور کرو کیونکہ یہ بات آپ کے تفرقے مٹا سکتی ہے آپ کو یکجان بنا سکتی ہے اور ہمیں حقیقی معنوں میں ایک قوم بنا سکتی ہے۔
وہ یہ کہ برما کے ظالم جب مسلمانوں کے سر تن سے جدا کرتے ہیں ان کو سسکا سسکا کر موت کی وادی میں پہنچاتے ہیں تو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ بریلوی ہے یا اہل حدیث،دیو بندی ہے یا شیعہ ۔ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کلمہ گو ہے کہ نہیں ۔ اگر وہ کلمہ گو ہے تو مسلمان ہے اور اس کی سزا موت ہے ۔ جب پوری دنیا کلمہ پڑھنے والوں کو ایک ہی صف میں تصور کرتی ہے تو ہم کیوں ایک دوسرے کو گلے لگانے سے کتراتے ہیں ۔ اب بھی وقت ہے ہمیں ہوش آ جانا چاہیے کہ ہمارا دشمن بریلوی ہے نہ وہابی، دیو بندی ہے نہ شیعہ۔ ہمارا دشمن وہ ہے جو کلمہ گو کا دشمن ہے ۔ یہ وہی دشمن ہے جو ہمیں تقسیم کر کے ہماری چیر پھاڑ میں مگن ہے ۔ کس کس جگہ کا ذکر کروں جس کا دکھ اور غم ہم اپنے دامن میں لیے بیٹھے ہیں اور بے بس ہیں مجبور ہیں کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں ۔ کشمیر کی بات کروں یا فلسطین کاذکر کروںیا پھر عراق اور شام کی یاد دلاوں ۔ کئی دکھ اور غم ہیں جو ہم جھولی میں لیے بیٹھے ہیں اور محض دعاوں پہ تکیہ ہے ۔ دوسری جانب ایک پہلو ایسا بھی ہے جو تلخ بھی ہے اور دل کو مذید دکھی کرنے کا سبب بھی ہے وہ یہ کہ مسلمان ممالک کی حکومتوں کا برما کے حالات سے متعلق رد عمل تسلی بخش نہیں ہے بلکہ کچھ ممالک تو برما کے حالات پر اس قسم کی بیان بازی کر رہے ہیں جس سے امت مسلمہ کے دل کو ٹھیس پہنچ رہی ہے ۔ ایسے چشم پوش حکمرانوں کی صف میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کا نام سر فہرست ہے ۔
اس سخت دل عورت نے برمی مسلمانوں پر تشدد اور ظلم کے پس منظر میں جو بیان دیا ہے قطعی طور پر افسوس ناک ہے ۔ ملکوں اور قوموں پر اچھا براوقت آتا رہتا ہے اور ایسے وقت میں بھائی ہی بھائی کے کام آتا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ مسلمان تو ہیں ہی آپس میں بھائی بھائی ۔ حسینہ واجد کو ایسا بیان دینے سے احتراز برتنا چاہیے تھا کیونکہ ان کے اس بیان سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو تکلیف ہوئی ہے اور بالخصوص درد دل سے لبریز پاکستانی قوم نے اس بیان کو ہرگز پسند نہیں کیا ۔
تیل کی دولت سے مالا مال عربی اور خلیجی ممالک کہاں ہیں ۔ ان کی آواز سنائی نہیں دیتی ۔ کیا قیامت کے دن ان سے یہ سوال نہیں ہو گا کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ظالم تمہارے ہی بھائیوں کو چیر پھاڑ رہے تھے اور تم دولت کے نشے میں عیاشی کی زندگی بسر کررہے تھے ۔ تم نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا کہ ان کا کیا حال ہے ۔ اگر ہم مسلمان ہیں اور ہمارا عقیدہ مضبوط ہے تو یقین ہونا چاہیے کہ اس بارے باز پرس ضرور ہو گی ۔ لیکن انہیں تو آپسی لڑائیوں سے ہی فرصت نہیں یہ برما کے مسلمانوں کے لیے خاک ہاتھ پاوں ماریں گے ۔
آفرین ہے ترک رہنما طیب اردگان پر۔ اکیلا ہی برما کے مسلمانوں کو ظلم کی چکی میں پسنے سے بچانے کے لیے تگ و دو کر رہا ہے ۔مجھے اس کے ساتھ کوئی دوسرا مسلمان رہنما کھڑا دکھائی نہیں دیتا ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پوری دنیا کے مسلمان یکجا ہو کر اقوام متحدہ کا رخ کریں اور اس ظلم و ستم کے پہاڑ کو خاکستر کرنے کی کوئی تدبیر کریں ۔لیکن مسلمان ممالک کے باہمی اختلافات کی وجہ سے ایسی کسی صورت کا وجود میں آنامشکل دکھائی دیتا ہے ۔
برما کی صورتحال کے پس منظر میں ہم اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلا سکتے کہ اقوام متحدہ کا چہرہ اک مرتبہ پھر کھل کرسامنے آ گیا ہے اور یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ یہ پوری دنیا کا مشترکہ پلیٹ فارم نہیں بلکہ یہ تو چند بڑے ممالک کی چھتری تلے کام کرنے والا ایسا ادارہ ہے جو ہمیشہ ان کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور وہ ممالک اس ادارہ کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرتے رہتے ہیں ۔ اب مسلمان اس ادارہ سے مکمل مایوس ہو گئے ہیں کیونکہ یہ ادارہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے کبھی متحرک دکھائی نہیں دیا ۔ مثال کے طور پر ہم کشمیر ، فلسطین اور شام و عراق میں اس موقف کی تائیدی جھلکیاں بخوبی دیکھ چکے ہیں ۔ وہ ادارہ جس کے سامنے انسانیت زخم زخم ہو ۔اور وہ اس طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے ۔ تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ ادارہ مخصوص ایجنڈا پر کام کر رہا ہے اور اس کے دانت دکھانے کے اور ہیں اور کھانے کے اور ہیں ۔
اب اگر ہم اپنے وطن کی بات کریں تو سوشل میڈیا پربرما کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کا سلسہ زوروں پر ہے ۔ اور لوگوں کے ردعمل سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستانی عوام برما کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کے تناظر میں غم و غصہ سے لبریز ہے ۔ اور سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ ہمارے چند صحافی بھائی جو درد دل رکھتے ہیں رپورٹنگ کی غرض سے میانمار کی سرزمین پر قدم رکھ چکے ہیں جو نہایت ہی قابل ستائش عمل ہے اور پوری قوم ان کے اس جذبہ کو سلام بھی پیش کرتی ہے اور قدر کی نگاہ سے بھی دیکھتی ہے ۔
اب ہماری حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ عوامی امنگوں کے عین مطابق ایسے اقدامات کرے جس سے برما کے مظلوموں کی آسانی کا کوئی سامان میسر ہو ۔ حکومت پاکستان فی الوقت ترک رہنما طیب اردگان کے کندھے سے کندھا ملا کر بھی ایسا کوئی لائحہ عمل ترتیب دے سکتی ہے جس سے برما کے متاثرین کی دل جوئی اور اشک شوئی ہو سکے ۔