دل کا کیا رنگ کروں

Sad Girl

Sad Girl

تحریر : شاز ملک
دل مضطر کی ہستی میں سکوں و قرار کیوں نہیں ہے کب سے بیٹھی یہ سوچ رہی ہوں کے بساط زیست پر دل کی ہستی کا کیا مقام ہے جب یہ بے طرح بے کل ہو جاتا ہے روح میں کیسا ارتعاش آتا ہے کے روح جسم کی دیواروں سے سر پٹخنا شروع کر دیتی ہے جیسے ساحل پر شوریدہ سر لہریں شور مچاتی ہیں ،کونسا احساس اسے بے چینیوں کے بھنور میں بہآیے جاتا ہے دل کی بے رنگی اسے ست رنگی احساس جانفزا سے کیسے روشناس کرے گی دل بیرنگ میں کونسا رنگ ہے جو خون کی سرخی میں ایک سنہرا احساس بھر دیتا ہے۔

پھر ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں مجھ پر یہ کھلا کے خالق نے اپنی تخلیق سے محبت کا ازلی رنگ بھر ہستی کے بہتے لہو میں شامل کر دیا ہے اپنی توجہ کے چاک پر رکھ کر اپنی تخلیق کو اپنی محبت کے احساس سے گوندھ دیا ہے اور اگر یہ احساس کا رنگ ہستی کی رگ و پے میں سمویا نہ ہوتا تو شاید ہم کسی محبت کو نہ تو محسوس کر سکتے نہ کسی جذبے کو سراہ سکتے یہ الله کی محبت کے سنہرے رنگ کا احساس ہے جو رگ و پے سے روح کے اندر تک اترا ہوا ہے۔

خون دل میں جگمگاتا ہے ، ہستی کو اسکے ہونے کا احساس دلاتا ہے یہ خالق کی رحیمی ہے کریمی ہے محبت عظیمی ہے ، الله کی محبت کا سنہرا احساس ہے جو کبھی ایک پیاس ہے تو کبھی راس ہے کبھی آس ہے ایک ووہی تو ہے جو سب کے لئے خاص ال خاص ہے ، وہ ہر زی روح کی چاہ ہے ، ہر دل اسکی راہ میں ہے ، وہ سامنے بھی ہے اور نظر بھی نہیں آتا ، وہ ہر جا ہے ، ہر سو ہے ، گمان میں دھڑکتا ہے ، گیان کے ریشمی پردوں میں نہاں ہے تو راز ہستی میں عیاں ہے ، کوئی رنگ ہو اسکو اسی کے رنگ میں ڈھلنا ہے۔

Commuter

Commuter

ہر مسافر زیست کو اسکی طرف چلنا ہے ہر دل کو اسکی محبت کی آگ میں جلنا ہے ، ہر حاصل کا وہی حاصل ہے ،اسکی چاہ من میں سموے ہر زی روح اسکا متلاشی ہے ، الله ایک احساس کا ہی تو نام ہے وہ احساس جو دل میں دھڑکتا ہے سانسوں کی لے پر مچلتا ہے ، آنکھوں کی بینائی میں جھلکتا ہے ، روح کی گہرایی میں چھلکتا ہے دل میں محبت الہی کے احساس کا سنہرا رنگ کروں ہوں اور ہو کے اسکی چاہت میں ہی میں تو ملنگ پھروں ہوں ، گر کے سجدے میں محبت کے سارے رنگ چنوں ہوں اور پھر ان رنگوں میں اپنی ہستی کو ڈبو کر دنگ پھروں ہوں۔

پھر خود سے یہی پوچھتی پھروں ہے اس سے بڑھ کر کوئی رنگ ہے تو بتا دو ساکھ میں دل پے پھر کونسا رنگ کروں ہوں ،کے اسکی پریت کے رنگ میں رنگ کر کوئی اور رنگ چڑھتا نہیں پھر دل من میت کے سوا کہیں لگتا نہیں ، کیوں کے پھر دل ور روح مجسم ہو کر صرف ایک ہی نقطے میں ڈھل جاتے ہیں یہ کہتے ہویے کے
میرے الله جیسا تو کوئی نہیں ہے
میرے مولا جیسا تو کوئی نہیں ہے

وہ رحمان ہے وہ رحیم و کریم ہے
ووہی ہے ستار و غفّار وغفو ر رحیم ہے
کے اسی کے ہی آگے یہ جھکتی جبیں ہے
میرے الله جیسا تو کوئی نہیں ہے
میرے مولا جیسا تو کوئی نہیں ہے

Shahbano Mir Academy

Shahbano Mir Academy

تحریر : شاز ملک