دل تیرے تصور سے بہلتا نظر آئے جس روز تیرا چہرہء زیبا نظر آئے صحرا بھی مجھے صورتِ دریا نظر آئے اس غم کی کڑی دھوپ میں اِک پل کیلئے ہی اے کاش تیری زلف کا سایہ نظر آئے خوشبو ہو تیرے قرب کی اِس طور میسر سانسوں کا تلاطم نہ ٹھہرتا نظر آئے میں جیسے تیرا روپ سجا رکھتا ہوں دِل میں تجھ کو بھی کبھی دِید کا پیاسا نظر آئے جب بھی غم دوراں سے گراں بار ہوں پلکیں دل تیرے تصور سے بہلتا نظر آئے تھک ہار کے لوٹیں تو کوئی ہم کو سنبھالے کچھ تو غمِ دنیا کا مداوا نظر آئے ہم چاند ستاروں کی طلب رکھتے نہیں ہیں لیکن کبھی آنگن میں سویرا نظر آئے ہو جائے بسر عمر تیرے پیار میں ساحل آنکھوں میں تیری ہم کو زمانہ نظر آئے