محترم جاوید چوہدری نے ” دی ہیگ ” کے آفیشل سفر کے بارے میں نہایت خوبصورت کالم لکھا الفاظ کا انتخاب بھی نہایت سوچ سمجھ کر کیا گیا۔ نیت بھی بہت اچھی تھی۔ اور درد دل رکھنے والے شخص کی تحریر ہونے میں کوئی شک نہیں تھا لیکن برادرم کچھ چیزیں بیان کرنا بھول گئے جنکو یہاں بیان کرنے کی جسارت کروں گا۔ امید کرتا ہوں کہ اگر میں غلط ہوں تو برادرم اصلاح فرمائیں گے۔
دی ہیگ ” ایک بہت ہی خوبصورت ملک کا نہایت ہی خوبصورت شہر ہے۔ ایک تاریخ رکھنے والے لوگوں کا شہر ہے اس ملک کے باشندوں کی تاریخ بڑی ہی دلچسپ ہے یہ وہ لوگ تھے جنکو کبھی بحری قزاق کہا جاتا تھا یہ لوگ سمندر میں سفر کرنے والے قافلوں کو لوٹا کرتے تھے یہ لوگ بہت محنتی تھے اور اپنی مٹی سے اپنی جان سے زیادہ محبت کرتے ہیں آپکو انکی وطن سے محبت اور جفا کشی کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہوگا کیونکہ اس سرزمین کا بہت بڑا حصہ انھوں نے سمندر سے چھینا ہے یہ ٹولیوں کی صورت میں کام کرتے پہلے تھوڑا سے حصہ سمندر کا خشک کرتے پھر دیوار بنا کر اگلے حصے کو خشک کرنے میں جت جاتے انکی تاریخ جفا کشی اور محنت سے بھرپور ہے ابھی حال ہی میں انھوں نے 20- 20 کی تاریخ کا ایک کارنامہ سرانجام دیا ہے۔
آئرلینڈ کے خلاف کھیلے جانے والے میچ میں انھوں نے 20-20 ورلڈ کپ کے لیئے کوالیفائی کیا 15 اوورز سے بھی کم میں پہاڑ جیسا ہدف حاصل کیا جو کہ ناممکن لگتا تھا مگر انھوں نے کر دکھایا اسکے بعد سری لنکا کے خلاف بہت برے طریقے سے ہارے لیکن جس طریقے سے انھوں نے جنوبی افریقہ جیسی ٹیم کے خلاف پرفارمنس دی اس سے انکے محنتی ہونے میں شک کرنے کے کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ برادرم جاوید چوہدری نے بہت خوبصورت انداز میں وہاں کی ثقافت اور قانون پر عملداری کو الفاظ میں سینچا ہے وہ لوگ امن پسند ہیں وہ اپنے حقوق و فرائض کے بارے میں بہت ہی حساس ہیں قانون پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں جبکہ اپنے حقوق کے لیئے کوئی بھی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے اسی لیئے نہ وہاں پر سڑکوں پر وی آئی پی موومنٹ کے دوران کرفیو لگتا ہے اور نہ ہی کسی پیدل چلنے والے کے ساتھ کوئی غیر انسانی سلوک ہوتا ہے۔
اپنی تحریر کے آخر میں کالم نگار نے ایک انہونی خواہش کا اظہار کیا ہے وہ اس امید پر قائم ہیں کہ یہی تمام چیزیں ہمارے ملک میں بھی ہوں گی میرے تحفظات یہاں سے شروع ہوتے ہیں میری ایک صوبائی اسمبلی کے ممبر سے بات ہوئی میں نے ان سے ایک گلہ کیا کہ آپ نے پنجاب اسمبلی میں ہمارے بنیادی حقوق کی کوئی بات نہیں کی تو گویا ہوئے برادرم ہمیں لوگ اس لیئے ووٹ تھوڑا دیتے ہیں کہ ہم اسمبلی میں جائیں اور انکے حقوق کے لیئے قانون سازی کریں میں نے حیرت سے پوچھا تو پھر کس لیئے ووٹ دیتے ہیں لوگ آپکو کہنے لگے اگر ہم کسی کی شادی میں نہ جائیں تو لوگ ہم سے ناراض ہو جاتے ہیں ۔ ہم سے اگر غلطی میں کوئی جنازہ رہ گیا ہو تو لوگ ہمارے ساتھ ایسے گلہ کرتے ہیں کہ جیسے ہمارے بغیر انکے میت کی بخشش نہیں ہوتی اب میرے حلقہ میں 17 یونین کونسل ہیں مجھے بتائو میں اب کیسے انکے خلاف جا سکتا ہوں اب میں اسمبلی جائوں اور انکے حقوق کے تحفظ کی بات کروں یا انکی گلیوں کے افتتاح کروں انکے جنازوں میں شامل ہوکر انکی پگڑیوں کو اونچا کروں انکی شادیوں میں شامل ہوکر انکی نام نہاد عزت افزائی کروں۔
Rights
میں سوچ میں مگن ان سے ملاقات کر کے واپس آگیا چند سوالات آپکے سامنے رکھتا ہوں کیا ہم واقعی میں اپنے حقوق و فرائض کو سمجھتے ہیں ؟ ہم اپنے فرائض کی بجا آوری میں کس حد تک سنجیدہ ہیں ؟ ہمیں حقوق کی خواہش ہے یا مراعات کی ؟ ہم لوگوں نے زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے خون کی قربانی دی ؟ جنہوں نے قربانی دی ہم انھیں آج تک مہاجر نہیں کہتے ؟ کیا ہم ایک نالی پکی کروانے کے عوض اپنے ووٹ انکی جھولیوں میں نہیں ڈال دیتے ؟ ہم ووٹ ڈالتے ہوئے صرف یہ نہیں دیکھتے کہ ان میں سے کونسا آدمی سب سے زیادہ پیسے اور طاقت والا ہے ؟ کیا یہ سچ نہیں کہ ہم ہر طرح کا ظلم اور زیادتی برداشت کرلیتے ہیں مگر ان بہروپیوں کے جال میں بھی آجاتے ہیں ؟ ان سوالات کے جواب جو میرے ذہن میں ہیں وہ دیتا ہوں یقینا ہم اپنے حقوق و فرائض سے نا آشنا ہیں۔ کیونکہ اگر ہم اپنے حقوق و فرائض سے آشنا ہوتے تو یقینا ہم بھی ایک مہذب قوم ہوتے۔
کسی کے ساتھ اگر زیادتی ہو رہی ہو تو اسے آپ اگر روک نہیں سکتے تو اسکے خلاف گواہی دینا آپکا فرض ہے مگر ہم اپنے بچوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ کسی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہو تو انکے معاملات میں ٹانگ نہ اڑاؤ بلکہ چپ کر کے نکل جاؤ۔ ہم سچی گواہی دینے کو تو نہیں تیار ہوتے مگر جھوٹی گواہی دینے کو تیار ہوجاتےہیں اور بعد میں مجبوری کا بہانہ کر دیتے ہیں۔ ہمارے حکمران جعلی ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں اسٹیبلشمنٹ انکو لے کر آتی ہے اور پھر یہ بعد میں انہی کے آلہ کار بن جاتے ہیں اور عوام کی بھلائی کے لیئے کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ ہمیں میٹرو بس چاہئے صحت اور انصاف نہیں ۔ سڑکیں اور پل چاہئیں چاہے وہ ہمارے بچوں کی لاشوں کا سودا کرکے ہی کیوں نہ بنائے جائیں۔ ووٹ ڈالتے وقت ہم صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ہم پہ سب سے زیادہ زور کس کا چلتا ہے یا ہمارے مخالفین کو نیچا دکھانے میں کون ہماری مدد کر سکتا ہے۔
ہم اج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہمیں کونسا نظام چاہئے۔ ہم اپنی غلطییوں کو سدھارنے کے بجائے غلطی در غلطی کو پسند کرتے ہیں جسکے نتیجہ یہ ہوتا کہ بےوقوف پہ بے وقوف بنائے جاتے ہیں اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے شکاری 5 سال تک ہمیں پھنسانے کی حکمت عملی بنا رہے ہوتے ہیں وہ ہمارے مفادات کا تحفظ کیوں کریں گے۔ ہمارے دانشور لوگوں سے پیسے لے کر انکے نام سے کالم لکھتے ہیں۔ حق کو بیان کرنے ہوئے انکے پر جلتے ہیں تو محترم ” جاوید چودھری ” صاحب جب تک ہم عوام اور آپ دانشور اپنے آپکو نہیں بدلیں گے تبدیلی ہمارا مقدر نہیں بنے گی ہمارے مقدر میں یہی سب کچھ ہو گا جو ہم بھگت رہے ہیں- کیونکہ سب کچھ جھوٹ ہو سکتا ہے کلام خدا نہیں اور اسی کلام خدا کو اقبال بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو خیا ل جسکو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
Zahid Mehmood
تحریر: زاہد محمود (ٹیکسل ) zahidmuskurahat1122@gmail.com 03329515963