وقت سداایک سا نہیں رہتا۔ ہمارے علاقہ میں ایک دربار کے سامنے ایک دن پہلے ن لیگ جلسہ ہوا اور اس کے بعد کل رات اسی جگہ تحریک انصاف کا جلسہ ہورہا تھا۔ہم تمام دوست بیٹھے اسی بات پر تبصرہ کررہے تھے کہ اچانک میرے موبائل پر ایک ایس ایم ایس آیا جس کو پڑھ کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ایس ایم ایس میں لکھا تھا کہ عمران خان 20فٹ اونچائی سے گر کر شدید زخمی،دماغ پر چوٹیں لگی ہیں۔ یہ پڑھتے ہی میرے ذہن میں الٹے سیدھے وسوسے آنے لگے اور بے نظیر کی فلم میرے ذہن میں گردش کرنے لگی۔
اس وقت بھی میں ایسے ہی گھر سے باہر تھا جب مجھے بے نظیر کے زخمی ہونے کی اطلاع میرے دوست ذاکر شاہ نے دی اور آج پھر وہی دوست عمران خان کے زخمی ہونے کی اطلاع دے رہا تھا۔ اسی دوران پی ٹی آئی کے ایک امیدوار قومی اسمبلی کامجھے ایس ایم ایس آیا جس میں عمران خان کے لیے دعا کی اپیل کی گئی تھی۔ میں اپنے دوستوں سے بولا کہ یار عمران خان کو حادثہ پیش آیا ہے وہ شدید زخمی ہے اس کے لیے سب دعا کروکہ اللہ اس کو صحت کاملہ عطا فرمائے ۔ ساتھ ساتھ یہ بھی دعا کرو کہ یہ الیکشن خیرو عافیت سے گزر جائے اور کوئی غم کی بات نہ ہو۔
اس کے بعد ہم نے ایک دکان پر ٹی وی چلایا تو اس پر عمران خان کی ویڈیو چل رہی تھی جس میں دکھایا گیا کہ عمران خان کس طرح نیچے گرا۔ ٹی وی پر بیٹھے اینکرصاحب اس بات پر زور دے رہے تھے کہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ آنے والے شخص نے عمران خان کو دھکا دیا۔یہ تو خدا کی ذات کو معلوم ہے کہ اس نے دھکا دیا یا وہ خود گرے۔ اس واقعے کے بعد پاکستان بھر میں عمران خان کے لیے دعائیں شروع ہوگئیں۔ سوشل میڈیا پر ہر کوئی عمران خان کی تندرستی کے لیے فوٹیج پوسٹ کرنے لگا۔
عمران خان کے مخالفین ہوں یا حمایتی سب ان کے صحت کے بارے میں فکر مندہونے لگے۔ ہر طرف عمران خان کے حادثے کے بارے میں گفت وشنید کی جاری تھی۔ ہر گھر میں عمران خان کا ذکر ہورہا تھا ۔ مائیں بہنیں اور بیٹیاں سب اس کے لیے دعاگو تھیں۔ سیاستدان بھی اس وقت کسی سے پیچھے نہیں رہے ۔ سب نے اپنے ساتھی سے بھر پور اظہار ہمدردی کی۔
سیاست کے میدان میں ایک دوسرے کے سب سے زیادہ حریف مسلم لیگ ن کے صدر نوازشریف نے عمران خان سے اظہاریکجہتی کرتے ہوئے اپنے اگلے دن کی تمام سیاسی سرگرمیاں منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔جماعت اسلامی کے سید منور حسن، ایم کیو ایم کے الطاف حسین، صدر آصف زرداری اور دیگر سیاستدانوں نے بھی اس واقعے پر دلی دکھ کا اظہار کیا۔ یہاں پر میں میاں نواز شریف کا ذکر نہ کروں تو ان سے زیادتی کے مترادف ہوگا کیونکہ عمران خان کی سب سے زیادہ سیاسی حملے بازی (کیونکہ یہ تنقید صرف جلسے جلسوں تک ہوتی ہے) نواز شریف کے خلاف ہوتی ہے۔
Imran Khan
مگر میاں صاحبان نے اپنے کشادہ دل کی طرح کشادہ خیالات کااظہار عمران خان سے یکجہتی کے لیے نہ صرف سیاسی سرگرمیاں منسوخ کیں بلکہ رات کو ہی میاں شہباز شریف عیاد ت کرنے شوکت خانم ہسپتال پہنچ گئے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں ایک دوسرے کے لیے کتنی محبت ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا کہ اس وقت ہمارے شہر میں تحریک انصاف کے جلسے ہورہے تھے اوروہ بھی ایک نہیں دو۔ ایک طرف ایم پی اے کے امیدوار اور دوسری طرف ایم این اے کے امیدوار جلسہ کررہے تھے۔
مگر انہوں نے نہ تو اپنا جلسہ منسوخ کیا اور نہ ہی کوئی ایسی خاص عمران خان سے ہمدردی والی بات کی ۔ ان کو تو بس اپنے ووٹوں سے غرض تھی البتہ ن لیگ کے خاص کارکن نے عمران خان کے حق میں نعرہ لگایا تومیں نے کہا کہ آج عمران خان سے بہت محبت عیاں ہورہی ہے تو اس نے کہا کہ ”دل نواز شریف ہے اور دھڑکن عمران خان”جب میں نے وضاحت کرنے کو کہا تو اس نے بتایا کہ دونوں لیڈر ملک کے خیر خواہ ہیں۔ اگر عمران خان نے ورلڈکپ جیت کر دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔
تو میاں نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کرکے دنیا میں پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔ اب کوئی ہماری طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ اس لیے نواز شریف دل ہے اور عمران خان ہماری دھڑکن اور کوئی ہمارا دل( نوازشریف ) کو نکال دے تو بھی ہماری موت ہے اور دھڑکن (عمران خان) بند ہوجائے تو بھی ہماری موت ہے۔اس لیے دونوں ہستی پاکستان کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر ان میں سے کسی ایک کوکچھ ہوتا ہے تو وہ ہم سب کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ اس نے کہا کہ یہ تو سیاسی حریف ہیں مگر انسانیت کے ناطے تو ہم سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
مجھے اس کی یہ بات سن کر بہت خوشی ہوئی کیونکہ حقیقت حقیقت ہوتی ہے ۔ویسے بھی تمام سیاستدان اند ر سے ایک ہوتے ہیں مگر صرف عوام کودھوکا دیتے ہیں۔ اب الیکشن ہونے والا ہے اور ہم لوگ ایک ایک ووٹ پر پاگل کتوں کی طرح جھپٹیں گے اور لڑیں گے کہ نوبت یہاں تک آپہنچتی ہے کہ ہم ایک دوسرے قتل کرنے سے بھی گریز نہیںکرتے مگر کبھی کسی سیاستدان کو دیکھا ہے کہ سر عام ایک دوسرے کے سامنے گالم گلوچ ہوئے ہوں یا کسی کو تھپڑ بھی مارا ہو۔
یہ لوگ ایک دوسرے کو جہاں بھی ملیں گے بڑے پر تپاک اندازسے ملیںگے اور ہم ایک دوسرے کی شکل دیکھنا تو درکنار ایک دوسرے کے فوتیدگی پر بھی جانا پسند نہیں کرتے۔ اس میں کس کا قصورہے؟ فیصلہ آپ خود کریں۔ اگر یہ سیاستدان کسی لیڈرکی وفات پر ایک دوسرے کا ساتھ دے سکتے ہیںجیسا کہ بے نظیر کی شہادت کے بعد کل کے دشمن یعنی پی پی اور ن لیگ ایک ہوگئے اسی طرح آج عمران خان کے حادثے کی وجہ سے ن لیگ نے نہ صرف پروگرام منسوخ کیے گئے بلکہ جو ایک دوسرے خلاف زبانی جنگ لڑ رہے تھے وہ عیادت کرنے سب سے پہلے ہسپتال تک پہنچ گئے۔
Pakistan U.S.
اگریہ لوگ سب ملک کی خاطر ایک ہوجائیں تو میںحلفاً کہہ سکتا ہوں کہ انڈیا کیا امریکہ بھی ہمارے قدموں میں ہوگا۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ معدنیات سے مالا مال ہے۔تعلیمی میدان سے لیکر کھیل کے میدانوں تک اس ملک کا نام روشن ہے ۔ان سب سے بڑھ کر ایٹمی طاقت بھی ہے پھر یہ ملک دوسرے ملکوں سے پیچھے کیوں؟ صرف اور صرف اس کی ایک وجہ قیادت کا فقدان ہے۔ اگر پاکستان کو دنیا میں نمبر 1ملک بنا نا ہے تو ملکی قیادت کو اپنے کرسی کے چکر اور اناکی لڑائی چھوڑ کر اس عوام کی خاطر ایک ہونا پڑے گا۔
پھر دیکھنا پاکستان کس طرح دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔ شہادت یا حادثات کی سیاست کو چھوڑ کر ملک اور عوام کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہوگاورنہ عمران خان آئے یا نوازشریف ، زرداری آئے یا فضل الرحمن،سیدمنورآئے یا الطاف حسین سب غیر ملکی قرضے تلے دبے ملک کے آقا بنیں گے مگر ان پر حکمرانی وہی ملک کریں گے جنہوں نے پاکستان کو قرضہ دے رکھا ہوگا۔ مجھے کالم لکھنے پر جس بات نے مجبور کیاوہ یہ ہے کہ سیاستدان فوتیدگی یا حادثے پر اکٹھے ہوسکتے ہیں توپھر ملک وقوم کے مفاد کے لیے اکٹھے کیوں نہیں چل سکتے؟ کیا ہمارے اتحاد اور اتفاق کے لیے ہمیشہ کوئی حادثہ یا سانحہ ضروری ہے۔ تحریر : عقیل خان Email: aqeelkhanpathan@gmail.com 03014251658