تحریر: میر افسر امان افغانستان مسئلہ، جس کا قضیہ نپٹانے کے لیے امریکا بے چین ہے۔ یہ اسی کا کھڑا کیا ہوا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں کئی کانفرنسز پہلے بھی ہو چکی ہیں۔ گذشتہ دنوں آخری کانفرنس بھارت کے شہر امرتسر میں ہوئی۔ پاکستان میں یہ سوال اُٹھا کہ پاکستان کوہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں شرکت کرنی چاہیے یا کہ نہیں۔ اس سلسلے میں کافی سوچ بچار ہوئی۔ ایک نکتہ نظر،س یہ تھا کہ کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں سارک کانفرنس میں بھارت نے شرکت نہ کرنے اور بنگلہ دیش اور دوسرے چھوٹے پڑوسی ملکوں کو بھی منع کرنے کی وجہ سے پاکستان کو بھی بھارت میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا ء کانفرنس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔ مگر بعد میں حکومت نے فیصلہ کیا کہ افغانستان ہمارا پڑوسی مسلمان برادر ملک ہے لہٰذا اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کے لیے شرکت ضروری ہے۔ پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز صاحب اس میں شریک ہوئے۔ بھارت نے اپنے ٹریک ریکارڈ کے مطابق پاکستانی نمایندے سے ناروا سلوک کیا۔ نئی دہلی نے ویانا کنونشن کی دھجیاں اُڑائیں۔
پاکستانی مشیر خارجہ کو گولڈن ٹمپل نہیں جانے دیا۔ مشیر خارجہ کا وہاں ایک پریس کانفرنس کرنے کا پروگرام تھا جو روک دیا گیا۔اس پر امرتسر میں سکھوں نے مودی حکومت کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ بھارتی حکام پاکستان کے سفارتی عملہ سے بھی بدتمیزی سے پیش آئے۔ ہمارے مشیر خارجہ کو ہارٹ آف ایشیا ء کانفرنس میں شرکت کے بعد ہوٹل پہنچا دیا گیا اور باہر نکلنے پر پابندی لگا دی۔ صرف ایئر پورٹ جانے کی اجازت دی گئی۔ میڈیا سے بات چیت تک نہیں کرنے دی۔ پاکستان واپس آتے ہوئے امیگریشن پر نصف گھنٹے انتظار کرایا گیا۔ یہ وہی اعمال ہیں جو پاکستانیوں کے ساتھ امریکا میں کم و بیش پیش آتے رہتے ہیں۔ بھارت بھی اسی فرعونیت کے زعم میں مبتلا ہے۔ بھارت کبھی کہتا ہے کہ پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کروں گا۔ اس پھر ایک دن سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ کر بھی ڈالا۔ وہ اسٹرائیک کیا تھی؟بیک وقت لائن آف کنٹرول پر کئی معاذوں پر بھاری توپخانے سے بمباری تھی۔پاکستان کے ایک سپاہی کے عوض پاکستان کی طرف سے فوراً کاروائی کی پر بھارت کے سترافوجیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
LOC
پاکستان نے بیرونی میڈیا کو اپنے طرف کی لائن آف کنٹرول کا دورہ بھی کروایا جس نے گواہی دی کہ بھارت کی طرف سے کوئی سرجیکل اسٹرائیک نہیں ہوئی۔ بھارت کو اس جھوٹے ڈرامے پر اپنے ملک اور دنیا میں جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت لیڈر شپ سرجیکل اسٹرائیک کے ثبوت مانگتے رہے اور بھارت کے دہشت گرد وزیر اعظم سرجیکل اسٹرائیک کے ثبوت پیش نہ کر سکے ۔ چھپتے رہے اور اب تک چھپ رہے ہیں۔ہارٹ آف ایشیا ء کانفرنس میں بھی دنیا کو اپنا مکروہ چہرہ ہی دکھایا کوئی نام نہیں کمایا۔پاکستان نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اس کانفرنس میں شرکت سے بھارت سے تعلوقات میں کوئی بہتری نہیں آسکتی ۔پاکستان اپنی امن پسندانہ پالیسی اور اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کے لیے ہارٹ آف ایشیا ء کانفرنس میں شرکت کرنے جا رہا ہے۔ وہی ہوا پاک بھارت تعلوقات میں کوئی بریک تھرو نہیں ہوا۔ ہمارے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے افغانستان کے صدر اشرف غنی سے ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس شروع ہونے سے پہلے ملاقات کی جو بقول مشیر خارجی اچھے ماحول میں ہوئی۔
اشرف غنی نے ہارٹ آف ایشیا ء میں تقریر شروع کی تو وہ اس ملاقات کے بل لکل برعکس تھی اشرف غنی نے بھارت کی زبان بولی اور کہا کہ افغانستان کو پاکستان کی پچاس ملین ڈالر کی امداد نہیں چاہیے ۔ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستان ہمارے خلاف دہشت گردی ختم کرے۔پاکستانی مشیر خارجہ نے واپس پاکستان آکر پریس کانفرنس کی اور بھارت کے ناروا سلوک بیان کیا۔ویسے بھارت کے دہشت گرد وزیر اعظم مودی کو پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف صاحب نیک خواہشات پہنچائیں اور بدلے میں مودی نے نواز شریف کی خیریت معلوم کی مشیر خارجہ نے کہا نواز شریف ٹھیک ٹھاک ہیں۔ پاکستان کی اپوزیشن نواز شریف سے مطالبہ کرتی رہی ہے کہ پاکستان کے لیے مستقل وزیر خارجہ کا انتظام کیا جائے تاکہ دنیا میں پاکستان کا مقدمہ صحیح طریقے سے پیش کیا جا سکے۔ نواز شریف نہ جانے ایک اہم منصب پر وزیر خارجہ کا تقرر کیوں نہیں کر رہے۔
Khursheed Shah and Imran Khan
ویسے بھی ان کو عمران خان صاحب اور پارلیمنٹ میں حزب اختلاف خورشید شاہ صاحب کے مخالفت کا سامنا ہوتا ہے۔ عدالت میں کرپشن کے خلاف مقدمہ اور بلاول کے چار نقات کی منظوری کا بھی سامنا ہے۔ہارٹ آف ایشیا ء نے مشترکہ اعلامیہ میں کہاکہ کوئی ملک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔ایک دوسرے کی سا لمیت کا خیال رکھا جائے گا۔ ایک دوسرے کے خلاف طاقت اور دھمکی سے گریز کیا جائے گا۔درپیش چیلنجز سے مل کرنپٹا جائے گا۔کارکن ممالک باہمی تعاون کو فروغ دیں گے۔دہشت گردی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ علاقائی و عالمی قوتیں متحد ہوں۔ تیس برس تک افغان مہاجرین کی میزبانی پر پاکستان کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔افغانستان میںامن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ کہا گیا کہ دہشت گردی کسی شکل میں ہو ناقابل قبول ہے۔دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ ضروری ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ دنیاکھل کر افغان مہاجرین کی مدد کریں ہارٹ آف ایشیا ء کانفرنس میں پاکستان، افغانستان، بھارت، امریکا ،چین سمیت ١٤ رکن ممالک کے نمایندوں نے شرکت کی۔ صاحبو! یہ کانفرنس بھی دنیا کی مکرانہ سیاست کا شاخسانہ ہے۔سیدھی سی بات ہے کہ جیسے روس اپنی غلطی تسلیم کر کے افغانستان سے نکل گیا تھا اسی طریقے افغانستان سے امریکا بھی نکل جائے ۔ اور افغان عوام کو شفاف غیر جانبدار انتخابات کے زریعے اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے دیں۔گزشتہ پینتیس سالوں سے ظالموں نے افغانستان کو تباہ برباد کر دیا ہے۔ امریکا نے کارپٹ بمباری کر کے افغانستان کے عوام کو تورا بورا بنا دیا ہے۔ اے کاش کہ ہارٹ آف اشیاء کانفرنس کا ااعلامیہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ امریکا افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا رہا ہے تو اچھا ہوتا! خیر اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ایک نہ ایک دن افغانوں کو ضرور سکھ ملے گا۔ اللہ ہمارے پڑوسی برادر مسلمان ملک کا حامی و ناصر ہو آمین۔
Mir Afsar Aman
تحریر: میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آ ف پاکستان