تحریر : بیگم صفیہ اسحاق امن واستحکام کیلئے کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کے بجائے افغان صدر اور بھارتی وزیراعظم کے بے بنیاد روایتی الزامات نے ہارٹ آف ایشیاکانفرنس کے ماحول میں تلخی گھول دی، دونوں رہنماؤں نے پاکستان کیخلاف کھل کر ہرزہ سرائی و زہر افشانی کی۔ اشرف غنی کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیں امداد دینے کے بجائے دہشتگردی روکنے پر توجہ دے ، جب کہ نریندرمودی نے کہا کہ دہشت گردوں اور انکے آقاؤں سے نمٹنا ہو گا ، تاہم مشترکہ اعلامیہ میں دہشت گردی کو خطے کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے علاقائی وعالمی طاقتوں پر زور دیا گیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے تعاون کو فروغ دیاجائے۔ بھارت کے شہر امرتسرمیں ہارٹ آف ایشیا کی چھٹی وزارتی کانفرنس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے افغان صدرنے پاکستان پر ایک بار پھر شدت پسند تنظیموں کی پشت پناہی کا الزام لگایا اور احسان فراموشی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کو 50 کروڑ ڈالر امداد دینے کا اعلان کیا ہے ، لیکن بہتر ہو گا کہ وہ اس رقم کا استعمال پاکستان کے اندر دہشتگردی پر قابو پانے پرخرچ کرے ، افغانستان کا سب سے بڑا چیلنج دہشتگردی ہے ، جہاں تقریباً 30 دہشت گرد تنظیمیں سرگرم ہیں جبکہ ان تنظیموں کے کارکن اکثر پاکستان میں پناہ لیتے ہیں۔
گزشتہ برس افغانستان میں ہلاکتوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی اور یہ ناقابل قبول ہے ، کچھ عناصر اب بھی دہشتگردوں کو پناہ دے رہے ہیں ، حال ہی میں سرکردہ طالبان لیڈر نے پاکستان کی جانب سے مدد ملنے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمیں پاکستان میں محفوظ پناہ گاہ نہ ملتی تو وہ تنظیم ایک مہینے میں ختم ہو جاتی۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے خطاب میں اس بات کا اعادہ کیا کہ خطے کو سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی سے ہے ، دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف افغانستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ ان سے پورے جنوبی ایشیا کو خطرہ لاحق ہے ، ہمیں دہشتگردوں اور ان کے آقاؤں سے نمٹنا ہو گا ، اب وقت آ گیا ہے کہ ایک ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے جس سے نہ صرف دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کیخلاف کارروائی ہو سکے بلکہ انہیں پناہ دینے اور انکی پشت پناہی کرنیوالوں کو بھی گرفت میں لیا جا سکے ، افغانستان میں دہشت گردی پر خاموشی دہشت گردوں اور انکے آقاؤ ں کو مضبوط کریگی۔
مشیر ِخارجہ سرتاج عزیز نے افغان صدر اشرف غنی کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے افغانستان میں دیرپا امن کیلئے مشترکہ اور با مقصد حکمت عملی بنانے پر زور دیا۔ علاقائی تعاون اور رابطے کیلئے تمام مسائل کا پر امن حل نکالنا ضروری ہے ، پاکستان افغانستان میں دیر پا امن کیلئے ہر طرح کا تعاون کرنے کو تیار ہے ، البتہ افغانستان کو پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے سے گریز کرنا چاہئے اور مثبت اقدامات پر توجہ دینا ہو گی ،لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی جارحیت کے باوجود ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان کی شرکت افغانستان میں دیرپا امن کیلئے پاکستان کے عزم کا اظہار ہے جبکہ سارک سربراہ کانفرنس کو ملتوی کرنے سے علاقائی تعاون کی کوششوں کو دھچکا لگا ، افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں، لہٰذا یہ مسئلہ افغان عوام کی خواہشات کے مطابق بات چیت سے حل کیا جائے۔
Modi and Ashraf Ghani
کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں کسی بھی ملک کی علاقائی سا لمیت کیخلاف طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز کرنے اورممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ دہشت گردی کسی بھی شکل میں ہو قابل قبول نہیں ، اس کے خاتمے کیلئے تمام علاقائی اور عالمی طاقتوں کو ایک ہونا ہو گا جبکہ دہشت گردی کے قلع قمع کیلئے ان کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ ضروری ہے ، مشترکہ چیلنج سے نمٹنے اور سیکیورٹی استحکام کیلئے علاقائی تعاون اہم ذریعہ ہے ، جس کیلئے اختلافات پْر امن طور پر حل کئے جانے چاہئیں۔ خیال رہے کہ کانفرنس میں 14 رکن ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ مودی سرکار پاکستان دشمنی میں سفارتی آداب بھی بھول گئی اورمشیرِخارجہ سرتاج عزیزکوطے شدہ پریس کانفرنس کرنے سے روک دیا جبکہ بھارتی سیکیورٹی اہلکاروں نے پاکستانی صحافیوں اور سفارتی عملے کیساتھ بدتمیزی کی، نریندر مودی اور افغان صدر اشرف غنی پاکستان دشمنی میں ایک ہو گئے۔ جبکہ روس نے پاکستانی مو قف کی حمایت کر دی ہے۔ بھارتی حکومت نے سفارتی اقدار کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز کو امرتسر میں ہوٹل سے نکلنے نہیں دیا اورانہیں شیڈول کے مطابق پریس کانفرنس کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی جبکہ اس کیلئے سیکیورٹی وجوہات کو بہانہ بنایا گیا۔
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے بعد سرتاج عزیز کو زبردستی ہوٹل پہنچا کر ان کے کہیں بھی جانے پر پابندی لگا دی گئی جبکہ انہیں گولڈن ٹیمپل کا دورہ کرنے سے بھی روک دیا۔پاکستانی میڈیاکے نمائندوں کو ہوٹل میں جانے اورسرتاج عزیزسے ملنے کی اجازت بھی نہ دی گئی۔سرتاج عزیزجب امرتسر پہنچے تو بھارتی امیگریشن حکام نے ”اسٹیٹ گیسٹ” ہونے کے باوجود انہیں آدھ گھنٹے تک انتظار کرایا ، جبکہ پاکستانی میڈیا کے نمائندوں کیساتھ بھی انتہائی ناروا سلوک کیا گیا۔ بھارت پہنچنے کے بعد پاکستانی صحافیوں کو موبائل نیٹ ورک کا مسئلہ درپیش تھا، لیکن انہیں تقریباً ساڑھے 3 گھنٹے کے بعد سِمز فراہم کی گئیں۔ سرتاج عزیزنے اسلام آباد واپس پہنچ کر پریس کانفرنس کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کیخلاف افغان صدر اشرف غنی کا بیان ناقابلِ فہم اور قابلِ مذمت ہے ، لگتا ہے کہ انہوں نے بھارت کو خوش کرنے کیلئے یہ بیان دیا، افغانستان اور بھارت میں کوئی بھی حملہ ہو الزام پاکستان پرلگادیا جاتا ہے ، البتہ افغانستان کیساتھ ہمارا ایک رشتہ ہے جو بھارتی کوششوں کے باوجود خراب نہیں ہو گا۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس افغانستان سے متعلق تھی ، جس میں پاکستان کی یکطرفہ تصویر پیش کی گئی جبکہ کشیدگی کے باوجود ہم نے دورہ بھارت کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ پاک بھارت دو طرفہ تعلقات افغانستان پر اثر انداز نہ ہوں ، اگر کانفرنس میں نہ جاتے تو اس کا الٹا اثر ہوتا، کانفرنس میں پاکستان کا موقف تھا کہ افغانستان سے متعلق متوازن پالیسی اپنائی جائے۔
جبکہ بھارتی میڈیا نے بھی دباؤ ڈالنے کیلئے دہشتگردی کا مسئلہ خوب اچھالا، بھارت بار بار دہشتگردی کا ذکر کر کے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے ، کشمیر اگر مسئلہ نہیں تو بھارت نے وہاں 7 لاکھ فوج کیوں رکھی ہوئی ہے اور 4 ماہ سے کرفیو کیوں نافذ ہے ؟، کسی ملک پر الزام تراشی سے امن قائم نہیں ہو سکتا ، دنیا جانتی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کیخلاف کیا کچھ کر رہا ہے ؟ ، ہر روز کشیدگی کی وجہ سے ماحول کیسے بہتر ہو گا جبکہ معاملات صرف بات چیت سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ بھارت میں سیکیورٹی انتظامات تسلی بخش نہیں تھے ، میڈیا نے بھی دیکھا کہ مجھے ہوٹل سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی ، جبکہ پریس کانفرنس سے روکا جانا سمجھ سے بالا تر ہے۔ روس نے ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں بھارت اور افغانستان کی پاکستان پرالزام تراشی کو نا مناسب قرار دیتے ہوئے دونوں ممالک کے رہنماؤں کے بیانات سے لا تعلقی کا اظہار کر دیا۔ ہارٹ آف ایشیا ء کانفرنس میں شرکت کرنے والے روس کے نمائندے ضمیر کابلوف نے کہا کہ ہم یہاں دوست اور حمایتی ہیں ، ہارٹ آف ایشیا ء کانفرنس میں پاکستان پر تنقید کرنا غلط تھا۔ کانفرنس کے پلیٹ فارم سے الزامات کا کھیل نہیں ہونا چاہیے۔ سرتاج عزیز کی تقریر بہت تعمیری اور دوستانہ تھی ، ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا ایجنڈا ہائی جیک نہیں ہوا۔