تحریر: آصف خورشید رانا۔ اسلام آباد بھارت میں ایشیا کے ممالک کی کانفرنس کا انعقاد ایسے موقع پر کیا گیا جب بھارت میں معاشی بحران عروج پر ہے کرپشن کے نام پر بڑے کرنسی نوٹوں کو بند کرنے کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے کرپشن کم ہوئی ہے یا نہیں البتہ غریب لوگ نوٹ تبدیل کروانے کے چکروں میں ضرور کم ہو رہے ہیں ۔ اس بحران میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اجافہ ہو رہا ہے ۔ایسے وقت میں بھارت کے شہر امرتسر میں ہونے والی چھٹی ہارٹ ایشیا کانفرنس کے آغاز سے قبل ہی بہت سے حلقوں کی جانب سے مختلف خدشات کا اظہار کر دیا گیا تھا۔
بھارتی تعصب ، ہٹ دھرمی اور تخریبی سوچ نے اس تعمیری اور مثبت فورم کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کانفرنس میں پاکستان کی سفارتی ناکامی نے جہاں بہت سی کمزوریوں کو واضح کیا وہاں یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اس ملک میں ایک مستقل وزیر خارجہ کی غیر موجودگی کے باعث پاکستان سفارتی محاذ پر سخت مشکلات سے دوچار ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ بھارت نے اس پلیٹ فارم میں اپنے پتے بہت احتیاط سے کھیلے۔ اس سے قبل پاکستان میں ہونے والی سارک کانفرنس بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ملتوی ہو گئی۔ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی ، مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی اور بھارت میں موجود اقلیتوں کے حقوق کی پامالی پر پاکستان کے بیشتر حلقوں کی جانب سے یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ پاکستان کو اس کانفرنس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔ اس بات کا خدشہ بھی موجود تھا کہ بھارت اس پلیٹ فارم کو اپنی ریاستی دہشت گردی پر پردہ ڈالنے کے لیے سارا الزام پاکستان پر ڈال سکتا ہے۔
Sartaj Aziz
اس کانفرنس میں بھارت نے ہر طرح کے سفارتی آداب کو بھی بالائے طاق رکھتے ہوئے جو سلوک پاکستانی وفد جس میں صحافی بھی شامل تھے کے ساتھ کیا ہے اس کی کہانی الگ ہے ۔ پاکستان کے ساتھ بغض اور ذاتی عناد رکھنے والے بھارت نے سیکورٹی کے نام پر پاکستانی وفد کی قیادت کرنے والے مشر خارجہ سرتاج عزیز کو پریس کانفرنس سے روکنے کے ساتھ ساتھ گولڈن ٹیمپل کا دورہ کرنے سے بھی روک دیا ۔کانفرنس سے ایک دن پہلے جانے والے سرتاج عزیز اس بدسلوکی پر شیڈول سے ایک دن پہلے ہی پاکستان لوٹ آئے ۔ افغانستان نے بھی اس موقع پر اپنی بھارت میں موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستان کو بھارتی زبان میں جواب دیا ۔ یہ سوال اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کہ ہمارے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اس کانفرنس کے لیے کیا تیاری کی تھی ۔ موصوف ایک دن قبل بھارت پہنچ کر بھارتی وزیراعظم کے لنچ میں شامل ہوئے لیکن اس لنچ میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے ذاتی تعلقات کو میڈیا میں ذیادہ نشر کیا گیا تاہم اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ نہ صرف غیر اخلاقی تھا بلکہ سفارتی آداب کے بھی منافی تھا۔
ہارٹ آف ایشیا کا قیام 2011 میں عمل میں آیا تھا ابتدائی طور پر اسے” استنبول پراسس” کا نام دیاگیا تھا ۔ اس فورم کا مقصد ایشیا کے ممالک کا آپس میں علاقائی تعاون کا فروغ خاص طور پر افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے درمیان سیکورٹی ، معاشی اور سیاسی تعلقات کی حوصلہ افزائی کرنا تھا ۔نومبر 2011میں ترکی میں ہونے والی کانفرنس میں افغانستان ، اس کے ہمسایہ ممالک اور ایشیا میں موجود دیگر ممالک کے درمیان عملی تعاون کو بڑھانے اور مشترکہ مسائل پر قابو پانے کے لیے علاقائی تعاون کو فروغ دینے کے لیے کام کا آغاز کیا گیا ۔اس فورم کو ایشیا کے علاوہ دیگر یورپی ممالک بالخصوص برطانیہ اور امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ جن مشترکہ مسائل پر قابو پانے کے لیے عملی تعاون پر زور دیا گیا ان میں دہشت گردی ،منشیات کی روک تھام ، غربت اور انتہا پسندی پر قابوپانا تھا ۔ چودہ ممالک کا یہ فورم اب تک چھ کانفرنسز کا انعقاد کر چکا ہے گزشتہ سال پانچویں کانفرنس پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد کی گئی تھی۔بھارت کے شہر میں امرتسر میں ہونے والی یہ چھٹی کانفرنس تھی جس میں بھارت ، پاکستان ، سعودی عرب ، افغانستان، آزربائیجان ،چین ، روس ، ایران سمیت دیگر ایشیائی ممالک کے وزراء نے شرکت کی ۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی اس کانفرنس میں شامل ہوئے۔ تجزیہ نگار اس بات پر بھی حیران ہیں کہ آخر بھارت نے اس کانفرنس کے لیے اپنے دارالحکومت کی بجائے پنجاب کے شہر امرتسر کا ہی کیوں انتخاب کیا۔
اس حوالے سے بھی بڑے دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں ۔ بھارتی پنجاب میں اس وقت خالصتان کی تحریک پھر سے زندہ ہو رہی ہے ۔ گزشتہ دنوں خالصتان کے قیام کے لیے عملی کام کرنے والی تنظیم کے رہنما کا جیل سے فرار اور دوبارہ پکڑے جانے کی اطلاعات نے بھی کافی دنوں تک گردش کرتی رہی ہیں ۔ بھارتی پنجاب میں انتخابات بھی قریب ہیں اس لیے یہ بھی کہا جا رہا ہے امرتسر میںکانفرنس کاانعقاد کر کے انتخابات میں فوائد اٹھانے کے ساتھ ساتھ بھارتی سرکار عالمی سطح پر خالصتان کے لیے ہونے والی سرگرمیوں کے خلاف عالمی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔تاہم اس کے باوجود اس کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر امرتسر میں سکھوں نے بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا ۔ جس میں انہوں نے بھارت سے آزادی اور خالصتان کے قیام کا مطالبہ کیا ۔اس موقع پر مظاہرے کے شرکاء نے بھارت سے مقبوضہ کشمیرسمیت دیگر علاقوں میں بھارتی ریاستی دہشت گردی روکنے کا مطالبہ کیا ۔اسی طرح عالمی رہنمائوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا یہ منصوبہ پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکا تاہم انتخابات میں حکمران جماعت اس کانفرنس کے انعقاد سے فائدہ اٹھا سکے گی یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ خالصتان کی تحریک کے خلاف کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی البتہ سکھوں کے مظاہرے سے یہ بات ضرور ثابت ہوگئی ہے کہ یہ تحریک اب دوبارہ عوامی رخ اختیار کر رہی ہے۔
Pakistani Prties
پاکستان کی 31 جماعتوں نے اسلام آباد میں اکٹھے ہو کر کہا تھا کہ اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا جانا چاہیے۔ ان جماعتوں میں حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے اہم رہنما ، کشمیری تتنظیموں کے علاوہ بلوچستان سندھ اور گلگت بلتستان کی قوم پرست جماعتوں کی نمائندگی بھی شامل تھی۔حکومت نے ان جماعتوں کی رائے کو کوئی اہمیت نہ دی ۔ہارٹ ایشیا کانفرنس میں پاکستان کے شرکت کرنے کے باوجود کسی قسم کے مثبت نتائج نہ مل سکے ۔ بھارت کی بدسلوکی اور سفارتی آداب کے منافی رویہ سے مشیر خارجہ کو فوری طور پر اپنا دورہ منسوخ کرکے واپس پاکستان پہنچنا پڑا ۔ اس کانفرنس کا اعلامیہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ بھارت اس کانفرنس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہا ہے۔
سعودی عرب، چین اور ترکی جیسے مضبوط اتحادی اور حلیف ممالک کے باوجود پاکستان کشمیر میں جاری بھارتی ریاستی دہشت گردی اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت پر کسی قسم کا نکتہ شامل نہ کروا سکا ۔ البتہ کشمیری تنظیموں جن میں لشکر طیبہ ، جیش محمد شامل ہیں ان کے نام دہشت گرد تنظیموں میں شامل کر نا پاکستان کی بہت بڑی سفارتی ناکامی ہے ۔ اس کے باوجود مشیر خارجہ کی جانب سے اس اعلامیہ کو متوازن قرار دینا انتہائی افسوسناک اور شاہد خفت مٹانے کی کوشش ہے۔ دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار پاکستان ہے اور جس تحریک طالبان کا نام اس اعلامیہ میں شامل ہے اس کی ساری قیادت افغانستان میں موجود ہے لیکن افغان صدر نے اپنی تقریر میں اپنی سرحدوں سے ہونے والے دہشت گردی کو نظر انداز کر کے پاکستان پر ہی تنقید کے تیر برساتے رہے ۔ کشمیر جنوبی ایشیا میں اس وقت فلیش پوائنٹ بن چکا ہے اور اس پر کسی قسم کی بات نہیں ہو سکی۔
دوسرے ملکوں میں عدم مداخلت پر کاربند رہنے کے اصول کا دعوٰی بھی بے بنیاد ہے کیونکہ بھارت پاکستان میںماضی میں مداخلت کرنے کا اعتراف کر چکا ہے اور بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں مداخلت بھی کر رہا ہے جس کا اعتراف بھی کیا جا چکا ہے ۔ اس لیے مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ کانفرنس فورم کے مستقل چئیرمین افغانستان اور میزبان بھارت نے ہائی جیک کر لی تھی۔ پاکستان اس فورم کے ذریعے اپنا موقف پیش کرنے میں ناکام رہا ہے ۔اس سفارتی ناکامی کے بعد پاکستان کو ایک مستقل وزیر خارجہ کی تعیناتی کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا ۔ ڈپلومیسی کی اس جنگ میں دنیا تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی خارجہ پالیسی کو ازسر نو ترتیب دے کر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کام کرے ورنہ ناکام ڈپلومیسی رکھنے والے ممالک کو اس دنیا میں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔