دل جب بھی تیرے ملنے کی دعا کرتا ہے اک درد سا سینے میں اٹھا کرتا ہے میری آنکھوں میں آنسو مچل جاتے ہیں کوئی بھو لے سے جو ذکر تیرا کرتا ہے یہ جو آتی ہے بن کے کالی گھنگھور گھٹا کو ئی دریچہ تیری زلفوں کا کھلا کرتا ہے یونہی ہوتے نہیں یہ سرخ لال گلاب خون کانٹوں کا پھولوں میں ملا کرتا ہے شہرِ جاناں میں کوئی طبیب نہیں ہے اس جیسا دیدارِ یار تو ہر غم کی دوا کرتا ہے حُسنِ جاناں ہے کہ آنکھیں کوئی مے خانہ دل شر ابی ہے ساگر نشہ کرتا ہے