دل دھک دھک

 Shahbaz Sharif

Shahbaz Sharif

بھاٹی چوک کا ایک منظر۔۔۔ میاں شہباز شریف ایک بڑی ریلی سے خطاب کر رہے ہیں مسلم لیگی کارکن پرجوش اندا زمیں نعرے لگا رہے تھے

مک گیا تیرا شو مداری
گو زرداری ،گو زرداری

اس دوران میاں شہباز شریف نے زرداری کو بھاٹی چوک میں الٹا لٹکانے کا اعلان کرڈالا اور جوش ِ خطابت میں ڈائس الٹا دیا ورکر وںنے نعرے لگا لگا کر آسمان سرپر اٹھا لیا اب گڑھی خدا بخش کا ایک منظر۔۔۔ذوالفقارعلی بھٹوکی برسی کے موقعہ پر ان کے دامادنے نام لئے بغیر میاں نواز شریف بارے کہا کچھ لوگوں نے جلاوطنی سے بھی کچھ نہیں سیکھا آمریت کے ساتھی جمہوریت کے لئے کچھ نہیں کر سکتے قربانیاں صرف بھٹو خاندان نے دی ہیں۔

جمہوریت کیلئے کوئی قربانیاں دینا ہم سے سیکھے ۔۔۔ مستقبل میں وزارت ِ عظمیٰ کے امیدوار بلاول بھٹو زردری نے ایک جلسہ سے اپنے پرجوش خطاب میں کہا۔۔کاغذی شیر عوام کیلئے کچھ نہیں کرسکتا یہ شیر نہیں گیڈرہے ۔۔۔ ہمارے قومی رہنما ایسی باتیں کرکے در حقیقت اپنے کارکنوںکا لہو گرماتے رہتے ہیں کہ سیاست میں زندہ (IN) رہنے کا سب سے تیز بہدف نسخہ یہی ہے لیکن حقیقتاً یہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔۔۔والی کہاوت کے مصداق ہے اب چنددن پہلے تیسری بار وزیر ِاعظم منتخب ہونے والے میاں نوازشریف نے عمران خان کے آزادی مارچ اور طاہرالقادری کے انقلاب مارچ سے جان چھڑانے کیلئے سابق صدر آصف علی زرداری سے ایک اور ملاقات ہوئی۔۔یعنی کھپے میاں صاحب۔۔ کھپے بے نظیر بھٹوکے میاں صاحب۔۔۔۔ سیاسی مبصرین موجودہ سیاسی صورت ِ حال کے تناظر میں اس ملاقات کو اہم قرار دے رہے ہیں۔

قومی امور،ملک کے داخلی و خارجی معاملات بالخصوص دھرنوں اور مشرف غداری کیس کے حوالے سے دونوںرہنمائوں میں بات چیت درحقیقت میثاق ِ جمہوریت کا ہی تسلسل سمجھا جا سکتاہے جس کا مرکزی خیال ہرقیمت پر جمہوریت اوراپنے اقتدار کا تحفظ کرنا تھا اس مرتبہ جاتی امرا میں ہونے والی ملاقات میں زرداری کو بھاٹی چوک میں الٹا لٹکانے کا اعلان کرنے والے میاں شہبازشریف کو قریب بھی نہیں آنے دیا گیا۔ ماضی میں بھی میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کے مابین ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں یہ دونوں شخصیات وعدے وعید بھی کرتے رہے کئی بارمیاں صاحب نے آصف علی زرداری کو ان کے وعدے یاددلائے اور جواباً آصف علی زرداری۔نے فرمایا۔۔”وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے”۔۔اس پر کافی لے دے بھی ہوئی اس دوران کئی مرتبہ حالات اتنے ابترہوئے کہ سیاسی نجومیوں اورکئی سیاسی یتیموںنے برملا کہنا شروع کردیا زرداری حکومت اب گئی۔۔اب گئی بلکہ کچھ اینکرپرسن روزانہ حکومت گراکر سوتے تھے ۔۔۔میاں نواز شریف چاہتے تو پیپلزپارٹی کی حکومت کو چلتا کر سکتے تھے لیکن انہوںنے ہر بار ایک ہی بات کہی مسلم لیگ ن کسی غیر آئینی اقدام کی حمایت کریگی نہ زرداری حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

ایسی کوئی بات ہوئی تو ہم جمہوریت کا ساتھ دیںگے اس جمہوریت کا مطلب ان دنوں زرداری حکومت کا تحفظ تھا۔شاید میاں نواز شریف کو خدشہ تھا اب غیر جمہوری قوتیں مستحکم ہوئیں تو پھر ان کی باری کبھی نہیں آسکے گی اور یہ بات جھوٹ نہیں تھی ۔ ہوشربا کرپشن،قیامت خیز مہنگائی، خوفناک حد تک لوڈ شیڈنگ،عدلیہ سے محاذ آرائی ، وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی نااہلی اور دیگر مسائل کے باوجود آصف علی زرداری نے مفاہمتی سیاست کواس انداز سے پروان چڑھایا کہ پاکستان میں پہلی بار اپوزیشن مائنس ہوگئی اور تقریباًتمام اہم جماعتیں حکومت میں شامل ہوکر اس کی حلیف بن گئیں اس طرح لڑتے، جھگڑتے،بڑھکیں مارتے5سال پورے ہوگئے۔۔حالیہ عام انتخابات کے نتیجہ میں مسلم لیگ ن نے حکومت بنائی تو پہلے ہی دن آصف علی زرداری نے ٹھوک بجا کر کہامیاں نواز شریف!قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔

اب تیرا ذکر کریں گے نہ تجھے یادکبھی
ہاں مگر دل کے دھڑکنے پہ کسے قابو ہے

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

حالات بتاتے ہیں وزیر ِ اعظم میاں نواز شریف کی سابق صدر آصف علی زرداری سے تجدید ِ عہدکی خاطرہے ورنہ اپنے شیخ رشید تو بڑے عرصہ سے کہہ رہے ہیں میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جن کی سیاست اپنی اپنی مفادات ایک ہیں۔۔۔اب ایک دل جلے سیاستدان نے ردِ عمل کااظہارکرتے ہوئے کہاہے نوازشریف ،زرداری ملاقات نظریہ ٔ ضرورت کے تحت تھی دونوںکے مابین مک مکا ہوگیاہے اس دل جلے کو خبر اب ہوئی ہے حالانکہ یہ بات تو برسوں پرانی ہے کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ مشرف کے معاملہ پر سابق صدر آصف علی زرداری نے میاں نوازشریف کوڈٹ جانے کا مشورہ دیاہے اور اب عمران خان کے آزادی مارچ اور طاہرالقادری کے انقلاب مارچ کے خلاف تمام سیاسی جماعتیں نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہوگئی ہیں ان تمام کا کہناہے ہم سب جمہوریت کا تحفظ کررہے ہیں یہ بھی کہا جارہاہے ہم دھرنوں کے اس لئے خلاف ہیں تاکہ آئندہ 5جولائی یا12اکتوبر کے واقعات دہرانے کی نوبت نہ آئے۔۔

اس ملک میں ہر سیاستدان کی اپنی تاویلات ہیں ان کے نزدیک جمہوریت کے معنی بھی جدا جدا ہیں حکمران اپنے اقتدارکو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں حقیقی جمہوریت کی بات کرنا ،سننا اور عمل کرنا کوئی پسندنہیں کرتا ڈاکٹرطاہرالقادری کا کہناہے حکمران اپنے مفادات کیلئے آئین کی پہلی100شقوںپر عمل نہیں کررہے ان شقوںکا تعلق عوامی حقوق سے ہے لیکن کوئی بات کرنا بھی پسندنہیں کرتا۔ ویسے توجمہوریت کے استحکام کیلئے ہر سیاستدان کو اپنا کردار فعال انداز سے ادا کرنے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ کرپشن، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کے لئے ٹھوس اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔

ہمیشہ کیلئے آمریت کی روک تھام، سد ِ باب اوراس کی وجوہات کا خاتمہ ضروری ہے ۔۔۔کسی غیرجمہوری اقدام کی حمایت نہ کرنے پر اتفاق ہی واحد حل ہے صرف اس ایک نکاتی ایجنڈے پر تمام جمہوری قوتیں متحدہو جائیں تو جمہوریت کو لاحق خطرات ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دور ہو جائیں گے۔ عام انتخابات کا تسلسل، غیر جانبدانہ انتخابات کا انعقاد ، ووٹ کی حرمت پریقین، نتائج تسلیم کرنے کا حوصلہ ہی ایک بہترسیاسی فکرکو جنم دے سکتاہے ایک بات طے ہے جب تلک ملک میں جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی پاکستان کے داخلی ، خارجی ،قومی اور علاقائی مسائل حل ہو ہی نہیں سکتے اگر جمہوریت کے لئے بیشتر سیاستدانوں کے یہ جذبات ہو جائیں تو بات بن سکتی ہے۔

یہ سچ ہے مجھے ان آنسوئوں سے ڈر نہیں لگتا
مگر پھربھی شاید اس لئے رونے سے ڈرتاہوں
کہ ان آنکھوں میں تم رہتے ہو ،تم رہتے ہو
تمہارا ہونا میرا ہونا ہے
اور میں تمہیں کھونے سے ڈرتا ہوں

اور یہ معلوم نہیں کہ جمہوریت کھونے کا مطلب اقتدار سے محرومی ہے یانہیں۔۔۔بہرحال موجودہ حالات میں ہر سیاستدان کا دل دھک دھک کر رہا ہے غور سے سنیں تو دھڑکنوںکی آواز اور بوٹوںکی چاپ واضح سنائی دے رہی ہے آپ بھی سن رہے ہیں کیا؟ یا میری سماعتوںکو ایویں لگ رہا ہے۔

SARWAR SIDDIQUI

SARWAR SIDDIQUI

تحریر: ایم سرور صدیقی