دھڑکن کو اور کتنا کروں میں ملول بس تھا دل کو انتظار کسی کا فضول بس وہ تو بہانہ ڈھونڈ رہا تھا جدائی کا اس کو تو چاہیے تھی مری ایک بُھول بس اے رہبران ِ عشق یہ کیسا مقام ہے ہر سمت دشت ہے یہاں ہر سمت دُھول بس مصلوب کر دیا گیا اس جرم پر مجھے انسانیت پہ جبر نہیں تھا قبول بس جلوہ فگن جو تخت ِ شَہی پر ہے وہ ہَوّس آنکھوں میں جھونک دیتی ہے لالچ کی دُھول بس ایماں ہے میری شاعری کا دین ِ عشق ہر اترے قلم قبیلے میں اس کے رسول بس احمد رضا ملے ہیں روایت کے نام پر قانون قاعدوں کے یہ اندھے اصول بس