تحریر : شہزاد حسین بھٹی کسی نے سکندر رومی سے پوچھا “عظیم بادشاہ! آپ نے مشرق سے لے کر مغرب تک کے ملکوں پر کس طرح قبضہ کیا؟ جب کہ آپ سے پہلے بادشاہ، خزانہ، لشکر اور فتوحات میں آپ سے کم نہ تھے مگر ایسی فتوحات کسی کو نصیب نہ ہوئیں۔”سکندر رومی نے جواب دیا مشرق سے لے کر مغرب تک کے ملکوں کو میں نے مد د گار حقیقی کی مدد سے فتح کیا اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ کسی ملک کی رعیت کو کوئی آزار نہ پہنچے اور نہ کسی مفتوح بادشاہ کی تحقیر کی۔ یہاں تک کہ اس کا نام بھی بے توقیری سے نہ لیا” ہمارے ہاں بادشاہ یعنی وزیر اعظم یا وزراء اعلیٰ کی گڈگورنس کا یہ عالم ہے کہ گذشتہ روز میڈیا کے ذریعے معلوم پڑا کہ ایک ضیف عورت کسی بیماری کی بناء لاہور کی مختلف ہسپتالوں کی ٹھوکریں کھانے کے بعدآخر کار جناح ہسپتال لاہور لائی گئی جہاں بیڈ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اُسے زمین پر لیٹا دیا گیا جہاں ٹھنڈ اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اُس کی موت واقع ہو گئی۔
ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی سہولیات مناسب نہ ہونے کی وجہ سے انسانیت کی وہ تذلیل وقوع پذیر ہوتی ہے کہ الامان الحفیظ۔ دل کے مریضوں اور گردوں کے ڈائلیسز کے لیے مریضوں کو سالوں کی تاریخیں دی جاتی ہیں جن کی بدولت یا تو مریض اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے یا پھر وہ دوبارہ ان ہسپتالوں کا رُخ نہیں کرتا۔ پوری دنیا میں اپنی رعایا کی صحت اور دیکھ بھال پر مناسب توجہ دی جاتی ہے ۔ بجٹوں کا ایک کثیر حصہ صحت اور تعلیم کے مختص کیا جاتا ہے تاکہ ان کے شہری اچھے ماحول میں زندگی گذار سکیں۔لیکن ہمارے ہاں آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔مال و زر کی اندھی ہوس نے ہمارے حکمران طبقے کی آنکھوں پرپٹی باندھ رکھی ہے۔لوٹ مار سیل جاری ہے۔ جو جس حیثیت میں حکومتی مشینری کا حصہ ہے وہ وہیں ہاتھ صاف کر رہا ہے۔ حکومتی بنکوں سے بھاری قرضے لے کر معاف حکومتی اثر و رسوخ والے لوگوں نے ہی کروائے ۔ جوکہ بلاشبہ قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
State Bank
گذشتہ دنوں اسٹیٹ بنک کی جانب سے پارلیمنٹ کو ان قرضوں کی تفصیلات فراہم کرنے سے انکار پاکستانی عوام کے لیے بجا طور پر حیرت انگیز ہے۔سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قوائد و ضوابط اورا ستحقاق کے اجلاس میںاسٹیٹ بنک کے حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ قانون نے تحت قرضے معاف کروانے والوںکے بارے میں تمام تفصیلات پیش نہیں کی جا سکتیں۔ جس پر کمیٹی کے چیر مین اور ارکان نے پوچھا کہ جب حساس خفیہ ایجنسیوں کے معاملا ت پر ان کیمرہ بریفنگ ہو سکتی ہے تو قرضہ معافی کے معاملات چھپانے میں کون ساقومی مفاد ہے؟کمیٹی کا موقف تھا کہ آئین اور قانون کے تحت تمام ادارے پارلیمنٹ کو معلومات فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ فی حقیقت قرضوں کی معافی عشروں سے جاری ایک سنگین قومی مسئلہ ہے جس سے قومی خزانے کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے۔
گذشتہ سال سینٹ میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایوان کو بتایا تھا کہ سب سے زیادہ قرضے 2015 میں معاف کروائے گئے۔ جنکا حجم 270 ارب روپے ہے۔ ایک ہزار سے زائد کمپنیوں نے گذشتہ تیس برسوں میں بنکوں سے لیے گئے قرضے معاف کرائے۔ یہ صورت حال قومی معیشت کے لیے جس قدر نقصان دہ ہے وہ محتاج وضاحت نہیں۔ اگر کھربوں روپے اس طرح نہ ڈوبتے تو ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے اور نئے منصوبوں کے لیے خطیر رقم دسیتاب ہو سکتی تھی اور حکومت کو بیرون ممالک سے اربوں ڈالر قرضوں کی مد میں نہ لینے پڑتے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پچھلے تین برسوں میں پاکستانی قوم پر آٹھ ہزار ارب روپے کے نئے قرضوں کے بوجھ کا اضافہ ہوا ہے۔ریکار ڈ پر موجود دسیتیاب معلومات کے مطابق تین سا ل پہلے اگر ہر پاکستانی شہری چھیانوے ہزار روپے کا مقروض تھا تو آج قرض کی یہ رقم بڑھ کر ایک لاکھ چوبیس ہزار تک جا پہنچی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس مقروضی کو کس نے روکنا ہے؟ بظاہر جواب تو یہی ہو گا کہ حکومت وقت نئے قرضے لینے سے گریز کرئے اور پرانے قرضے اتارنے کے لیے معیشت کو بہتر بنائے لیکن وہ تبی ممکن ہو گا جب حکومتی ادار وں میں کرپشن کی روک تھام کی جائے گی۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی گڈ گورنس کو بہتر بنائے اور کرپشن کو روکے اور ملکی قرضے اتارنے کی سعی کرے۔میگا پراجیکٹس ، میڑو ٹرین، اور میڑو بس پر اربوں روپے خرچ ضرور کرے لیکن اس سے پہلے رعایا کی حالت زار کو بہتر بنائے۔ عوام کے لیے روٹی، کپڑا ، مکان ، تعلیم اور صحت کو بجٹ میں ترجیعی بنیادوں پر زیادہ فنڈز مختص کیے جائیں۔ تاکہ عوام خوشحال ہوں۔ جب قوم خوشحال ہوگی تو ملک خوشحال ہو گا۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ صحت عامہ پر خصوصی توجہ دے تاکہ کوئی مریض ہسپتال کے ٹھنڈے فرشوں پر جان نہ دے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی پندرہ لاکھ کی امداد کسی کے عزیز کی موت کا متبادل نہیں ہوسکتے۔تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ عوام کے دلوں پر انہیں حکمرانوں نے حکومت کی ہے جنہوں نے اپنی رعایا کا خیال رکھا اور ان کے وسیع تر مفاد میں عملی اقدامات کیے۔