تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی اعلان نبوت کے بعد ایک دن سرور کائنات ۖ تاجدارِ انبیاء ۖ حرم شریف میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط اور کفار مکہ کے چند اوباشوں نے آکر اونٹ کی اوجڑی فخرِ دو عالم رحمت مجسم ۖ جو حالتِ سجدہ میں تھے آپ ۖ کی گردن مبارک پر ڈال دی اپنے اِس ظلم ِ عظیم پر نادم ہونے کی بجائے خوشی اور مذاق اڑانے کے انداز میں تالیاں بجانی شروع کر دیں۔
ظالم قہقے لگاتے اور ایک دوسرے پر گرتے پڑتے تھے کسی نے اِس ظلم عظیم کو دیکھا تو آستانہ رسولۖ پر جا کر اِس واقع کی اطلاع دی تو جوش محبت میں سرور کائنات ۖ کی بیٹی جن کی عمر مبارک اس وقت زیادہ نہ تھی دوڑتی ہوئی آئیں اور جوش و محبت میں جلد ی جلدی اوجڑی کو ہٹایا اِس دوران معصومہ بیٹی کی آنکھوں میں آنسو تھے ایک تو وہ اپنے والد ماجد کے کپڑوں کو صاف کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ وہ عقبہ اور اُس کے ساتھیوں کو بد دعائیں بھی دے رہی تھیں جنہوں نے اُن کے والد گرامی کو تکلیف دی تھی۔
ایک دن سرور دو عالم ۖ مکہ کی گلی میں تشریف لے جا رہے تھے کہ کسی ظالم بد بخت نے مکان کی چھت سے رحمتِ دو عالم ۖ کے اوپر گندگی پھینک دی ، سرور کائنات ۖجب اسی حالت میں گھر تشریف لے گئے تو معصوم ننھی بیٹی تڑپ اٹھیں والد ماجد کے جسم اطہر کو دیکھ کر بے اختیار آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے فوری طور پر اپنے والد ماجد کے سر مبارک اور جسم اطہر کو اپنے ننھے منے ہاتھوں سے صاف کرتیں گرم پانی سے دھوتی جاتیں اور روتی جاتیں اور فرماتیں ابا جان آپ لوگوں کو دین حق کی دعوت دیتے ہیں سیدھا راستہ دکھاتے ہیں خدا کی طرف بلاتے ہیں اور یہ ظالم لوگ آپ ۖ کو تنگ کرتے ہیں ۔بیٹی کی محبت دیکھ کر محبوب خدا رحمتِ دو عالم ۖ فرماتے میری جان میرے جگر کے ٹکڑے حق کی مخالفت گمراہوں کا شیوہ ہے ربِ ذولجلال کا پیغام واحدانیت بہر حال پہنچانا ہے ۔ رحمتِ دو عالم ۖ دعوت ِ حق کے سلسلے میں سارے دن کے بعد جب تھکے ہارے گھر تشریف لاتے تو بیٹی آپ ۖ کا دستار مبارک کھول کر بالوں میں تیل لگاتیں کنگھی کرتیں پانی پلاتیں اپنے بابا جان کا دکھ بٹانے کی کوشش کرتیں اور بھیگی ہوئی آواز میں بابا جان کو دلاسا دیتیں اور فرماتیں بابا جان آپ ۖ فکر نہ کریں ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے ۔دعوت حق کے لیے جب بھی سرور کائنات ۖ گھر سے نکلنے لگتے تو لاڈلی معصوم بیٹی اپنے ننھے ہاتھوں سے اپنے بابا جان کی انگلی پکڑ کر ساتھ جانے کی ضد کرتیں محبوب خدا ۖ شفقت اور محبت بھری نظروں سے دیکھتے اور فرماتے جانِ پدر یہ خواہش کیوں تو بیٹی آنسو بھری آنکھوں سے بابا جان کو دیکھتیں اور فرماتی بابا جان مجھے خطر ہ ہے کہ کہیں آپ ۖ کو اکیلا دیکھ کر کفار مکہ آپ ۖ کو نقصا ن نہ پہنچا دیں۔
Muhammad PBUH
سرور کونین ۖکے راستے میں اکثر کفارِ مکہ آپ ۖ کو اذیت پہنچانے کے لیے کانٹے بچھا دیتے اور جب یہ کانٹے پائوں مبارک میں چبھ جاتے اور گھر جاتے اور گھر رحمتِ دو جہاں ۖاُن کانٹوں کو نکالنے کی کوشش کرتے تو معصوم بیٹی دیوانہ وار دوڑ کر آتیں بابا جان کے پائوں مبارک پکڑ کر اپنی ننھی انگلیوں سے کانٹے چنتی جاتیں اور سسکیاں بھرتی جاتیںایک دن والدہ ماجدہ کسی شادی میں جانے کے لیے تیار ہوئیں اور کپڑے پہننے لگیں تو پتہ چلا کہ جناب سیدہ بیٹی کے لیے کپڑے نہیں ہیں تو عظیم بیٹی بولیں مادر گرامی میں پرانے کپڑوں میں ہی چلوں گی کیونکہ بابا جان فرماتے ہیں کہ مسلمان لڑکیوں کا بہترین زیور حیات ِ تقوی ہے اور بہترین آرائش شرم و حیا ہے۔
بیٹی کو تقریباً پانچ سال ماں کی آغوش میں تر بیت نصیب رہی جب والدہ ماجدہ بیمار ہوئیں تو ننھی بیٹی شب و روز ماں کی تیمار داری میں لگی رہیں اور ماں کے چہرہ مبارک پر نظریں ماں کو دیکھتی رہتیں ۔ ماں صحت مند ہوتیں تو بیٹی کے چہرہ مبارک پر خوشی کا نور پھیل جاتا ماں بیمار ہوتیں تو بیٹی بھی رنجیدہ اور غمگین ہو جاتیں ۔ ایک دن ماںنے بیٹی کو اپنے سینے سے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں بیٹی نے پوچھا اماں جان آج آپ کیوں رو رہی ہیں تو عظیم ماں بولی بیٹی میں جلدی تم سے رخصت ہو جائوں گی افسوس تجھے دلہن بننے نہ دیکھ سکوں گی آخر ماں اپنی بیٹی کو بچپن میں ہی چھوڑ کر اللہ کے پاس چلی گئیں ۔ یہ بیٹی نسلِ انسانی کے سب سے بڑے انسان تاجدار ِ انبیا ء ۖ کی بیٹی فاطمہ بنتِ محمد ۖتھیں جو نبیوں کے سردار ۖ کی بیٹی اولیاء کے سردار کی بیوی اور شہداء کے سردار کی ماں ۔ جب بھی آپ بابا جان کے پاس آتیں تو رحمتِ دو جہاں ۖ احترام شفقت سے کھڑے ہو جاتے اور جب بابا جان اپنی بیٹی فاطمہ کے گھر جاتے تو فاطمہ تعظیم سے کھڑی ہو جاتیں ۔باپ بیٹی میں کمال کی محبت اور انسیت تھی بیٹی کی رخصتی کے بعد بھی کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب آپ ۖ نے لختِ جگر بیٹی کا دیدار نہ کیا ہو نبی کریم ۖ کوشش کر کے اُس راستے سے گزرتے جس پر حضرت علی کا گھر تھا اور اگر کبھی حضرت فاطمہ کی طبیعت ناساز ہوتی تو رحمتِ دو جہاں ۖ بھی بے چین ہا جاتے ۔ غزوہ بدر کی شکست کے بعد مشرکین مکہ نے انتقام کی جنگ کی آگ میدان احد میں روشن کی اِس غزوہ میں دیگر خواتین کے ساتھ سیدہ فاطمہ بھی شریک ہوئیں اِس جنگ میں جب سرور دو عالم ۖ کے دانت مبارک شہید ہوئے اور جسم اقدس پر بھی زخم آئے اور جب بیٹی سیدہ فاطمہ کو خبر ملی تو برق رفتاری سے دیوانہ وار آئیں زخم صاف کئے پانی پلایا اور ٹاٹ کا ٹکڑا جلا کر زخموں پر لگا یا شادی کے بعد حضرت علی کے گھر میں قدم رکھتے ہی سارے گھر کا کام سنبھال لیا آپ نے حضرت علی کے گھر جس نظامِ زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقہ نسواں اور آج کی عورت کے لیے مثالی حیثیت رکھتا ہے آپ کے گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتیں جھاڑودینا، کھانا پکانا ، چرخہ کا تنا ، چکی پیسنا کنویں سے پانی لانا جانوروں کو چارہ ڈالنا برتن دھونا کپڑے سینا کھجوریں صاف کرنا حضرت علی کے ہتھیا ر تیز کرنا اور غربت میں بھی حسن اور حسین کو بنا سنوار کر اِس شان سے گھر سے باہر بھیجنا کہ یوں محسوس ہو تا تھا کہ کسی بہت بڑے رئیس کے بیٹے ہیں۔ عورتوں ک اصل جو ہر اور کمال خاوند کی خدمت اور امور خانہ داری میں اعلی مہارت حاصل کرنا ہے سیدہ فاطمہ نے ایسی خدمت کی کہ تاریخ میں ایسی دوسری مثال نہیں ہے۔
ہر تکلیف اور مشکل میں فرمانبرداری پر نظر رکھی ۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح رسول کریم ۖ نے حضرت خدیجہ کی موجودگی میں دوسرانکاح نہ کیا اِسی طرح حضرت علی نے بھی سیدہ فاطمہ کیموجودگی میں دوسرا عقد نہیں کیا۔امور خانہ داری کی ساری ذمہ داریاں حضرت سیدہ کے کندھوں پر تھیں ۔ 7 ہجری تک آپ کے پاس کوئی کنیز نہ تھی ۔ لہذا سارا کام خود کرتیں کنیز فضہ کے آنے کے بعد کام تقسیم کر لیا بلکہ باری باندھ لی ایک دفعہ سیدہ کائنات سیدہ فاطمہ کے بابا خانہ سیدہ میں تشریف لائے تو دیکھا کہ سیدہ گود میں بچے لیے چکی پیس رہی ہیں فرمایا، بیٹی ایک کام فضہ کے حوالے کر دو تو سیدہ نے عرض کی بابا جان آج فضہ کی باری نہیں ہے ۔ سیدہ فاطمہ فرماتی تھیں کہ عورتوں کی معراج پردہ داری ہے آپ ساری عمر خود بھی اِس پر عامل رہیں پرداداری میں اتنی سختی کرتیں کہ مسجد رسول ۖ سے بلکل متصل قیام رکھنے اور مسجد کے اندر گھر کا دروازہ ہونے کے باوجود کبھی اپنے بابا جان کے پیچھے نماز با جماعت میں شرکت نہ کرتیں ایک بار فخرِ دو عالم شہنشاہِ کائنات ۖ شافع محشر نے منبر پر یہ سوال پیش فرمادیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر چیز کیا ہے جب یہ بات سیدہ فاطمہ تک پہنچی تو آپ نے جواب دیا عورت کے لیے سب سے بہترین بات یہ ہے کہ نہ تو اُس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی اُس پر پڑے رسول اللہ ۖ کے سامنے یہ جواب پیش ہوا تو آپ ۖ نے فرمایا کیوں نہ ہو فاطمہ میرا ہی ایک جزوہے ۔ پوری انسانی تاریخ میں یہ مقام صرف اور صرف حضرت فاطمہ کو حاصل ہے کہ بڑے سے بڑا گنہگار سیاہ کار فاسق اور فاجر ہر در سے ٹھکرایا ہوا شخص جب دونفل پڑھ کر خاتونِ جنت سے شہنشاہِ دو عالم ۖ کے حضور سفارش کی درخواست پیش کرتا ہے تو آپ کے وسیلے سے مانگی ہوئی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔
Prof Abdullah Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی help@noorekhuda.org 03004352956