مانگنے کا اگر سلیقہ آتا ہو تو تہجد میں جاگنے کی زحمت نہیں کرنا پڑتی بلکہ تہجد تو دور دعا کے لیے ہاتھوں کے اُٹھنے سے پہلے ہی قبولیت پر سونے کی مہر لگی ہوگی دراصل آج تک ہمیں مانگنے کا سہی سلیقہ ہی نہیں آیا، ہم نے آنسو بہانا سیکھ لیا، ہم نے وضائف سیکھ لئے ، ہم نے لمبی چوڑی دعائیں سیکھ لی، ہم نے نسبت کا سہارا لے لیا، ہم نے اللہ کی راہ میں بھی بانٹ دیا، یہ سب اچھا ہے، درست ہے بلکہ بہت عمدہ ہے۔
میں بالکل بھی اِن سب اداؤں کی نفی نہیں کر رہا ہوں سر تسلیمِ خم کرتا ہوں ان سبھی باتوں پر اچھا ہے، خوب ہے پھر بھی اِن سب کے کرنے کے باوجود بھی اگر تیری بات سو فیصد نہیں بنی اور تیرے دل میں کہیں کہیں بیتابی اور خیالوں میں اُلجھے ہوئے خیال باقی رہ جاتے ہیں تو میاں پھر غور کی ضرورت ہے چونکہ ہم بھول گیے ہیں مانگنے کے سلیقے کے حقیقی معنو کو، ہم نے ظاہر کو پاک کر لیا، کپڑا اچھا پہن لیا، چہرہ اچھا بنا لیا، خوشبو عمدہ لگا لی، حتی کہ سجدے بھی لمبے لمبے کر لئے ، نمازیں بھی پوری ادا کر لی اور بالآخر جو ایک کام رہ گیا تھا آج وہ بھی کر لیا اور بندہ حاجی بن گیا، میاں پھر کہتا ہوں سب قبول ہے اور اچھا دستورِ زندگی بھی یہی ہے مگر ذرا تُو اپنے اندر بھی تھوڑا جھانک لے آیا تجھے اتنا سب کرنے کی ضرورت بھی تھی یا اِس سے کم میں بھی بات بن سکتی تھی پھر جو تُو نے کیا اُس میں خالص اللہ کی رضا کے لیے کتنا تھا، کبھی مُڑ کر پیچھے بھی تو دیکھ لے، مگر تُو کیوں دیکھے گا پیچھے ، تیرا تو پیٹ بھرا ہوا ہے تجھے کسی کے پیٹ پر پتھر کہاں بَھلا نظر آنے والا ہے۔
پیٹ پر پتھر تو آقاﷺ نے باندھا ہے اور جو جو کام اللہ کے حبیب ﷺ نے ایک بار کر دیا ہے خُدا کی قسم وہ مٹنے والا نہیں ہے، اللہ کے حبیب ﷺ کی ادا ہے اور ہر ادا سنت ہے، مگر دیکھے کون، وہ نظر کوئی کہاں سے لائے ، چونکہ بھرے پیٹ ایسا ماجرا تو نظر آنے والا نہیں ہے، جب وہ نظر ہوگی جب وہ مانگنے کا سلیقہ ہوگا ، مانگنے کے سلیقے کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس جس کا جو جو حق چاہتے نا چاہتے آپ کے پاس کیسے بھی آ گیا واپس لوٹاؤ ، قرضوں کو فلفور ادا کرو، پڑوسی کو عزت دو ، اسکا اکرام کرو، بھائی کو بھائی مان لو، بہن کو اور بیٹی کو اُس کا حق فوراً دے دو، اللہ کی مقرر کردہ حدود کے قریب بھی مت بھٹکو ورنہ حد سے آگے نکل جاؤ گے اور تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔
اللہ کی طرف سے حد مطلب زنا، قتل، شراب، اور دیگر جتنے بھی بے حیائی والے کام ہیں اور اِن سب باطل کاموں کی ابتدا جھوٹ ہے بلکہ مزاق میں بولا گیا جھوٹ بھی ہے، خیر باتوں سے بات نکلتی نکلتی کبھی کس رُخ کو جاتی ہے کبھی کس رُخ کو مجھے خود بھی نہیں پتہ مگر بات شروع کرنے سے پہلے یہی نیت کی تھی کہ اللہ مجھ سے وہ بات لکھوا جو تیرے بندوں کے حق میں بہتر ہو، اب رات کے تقریباً ایک بج چکے ہیں، راز کی بات یہ ہے، مانگنے کا صحیح اور سو فیصد طریقہ یہ ہے کہ کسی بہانے سے اپنے والدین کو راضی کر لو، وہ جیسے راضی ہوتے ہیں ویسے ہی راضی کر لو، بس تم والدین کے اچھے خیالوں میں آ جاؤ ۔
تم اُن کی سنو چاہے سمجھ آئے نہ آئے ، اُن کے پاس تو بیٹھا کرو مگر دنیا کو چھوڑ کر وہ تمہیں دنیا ہی دے دیں گے، جیسے بچپن میں وہ تمہیں خوش کیا کرتے تھے اور اس کے بدلے میں تیرے والدین تیرے خیالوں میں رہتے تھے، پھر دنیا کے مشغلوں میں گُم ہوتے ہوتے ہم اپنے آپ کو ہی کھو بیٹھے، کبھی خود کو ڈھونڈنے کے لیے اِس گلی گئے ، اُس گلی گئے ، کبھی پیچھے خود کو بھول گئے اور آگے آگے تیز تیز اپنی تلاش میں بھاگنے لگے ، کبھی اُس کے دل میں دیکھا وہاں بھی خود کو نا پایا، کبھی کان لگا لئے کہ شاید تیری زبان پر میرا نام آجائے اور میں خود کو ڈھونڈ لوں، کبھی تیری آنکھوں سے تلاش کر کے بھی دیکھا مگر بے فائدہ ، جتنا خود کو ڈھونڈا اُتنا ہی میں گُمتا چلا گیا، خیر ویسے ہی تم بھی انہیں راضی کر لو جیسے انہوں نے تیرے بچپن میں تجھے راضی رکھا تھا یہ خلا والدین کی طرف سے نہیں بلکہ تیری طرف سے پیدا ہوا ہے اب تجھے ہی اِس خلا کو ختم کرنا ہے ، والدین ہیں پیا ، کیوں نہیں مانیں گے۔
منا کر تو دیکھ، آجا اُن کے خیالوں میں، پھر دیکھ، دنیا تو بہت چھوٹا پلاٹ ہے اِس کی اوقات ہی کیا ہے تُو جنت کا وارث ہے ابا تیرا جنت کا دروازہ ہے اور جنت تیری اماں کے قدموں میں پڑی ہے اور تُو در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرے اور لوگوں سے جنت کا پتہ پو چھتا پھرے یہ انصاف تو نہیں ہے ہاں وہ تمہیں دیکھ لیتے ہیں مگر کیسے اِس بات کو چھوڑو پر یاد رکھنا دیکھ لیتے ہیں مگر والدین بھی پردے ڈال دیتے ہیں چونکہ والدین میں رَبّ کی صفات موجود ہوتی ہیں ، والدین راضی ہونگے تو اللہ راضی ہوگا ، اللہ راضی ہوگا تو جَگ راضی ہوگا،اور سنو اللہ کی مخلوق کو جب جب تکلیف پہچاتے رہو گے تو والدین سو فیصد راضی نہیں ہو پائیں گے چونکہ والدین میں رَبّ کی خاص قدرت موجود ہوتی ہے انہیں معلوم ہوجاتا ہے تیری چال سے تیرے انداز سے ، دھوکھا اُدھر دے کر آؤ اور اِدھر انہیں راضی کر لو مشکل ہے،ناممکن ہے ہاں پہلے توبہٰ کر معافی مانگ اپنے معاملات کو سلجھا اور ایک بار پاک ہوجا ، بچہ بن جا پھر ہوشیار رہ کر والدین کو راضی رکھ تجھے تیری جنت کا پتہ ضرور مِل جائے گا ۔ اللہ ہم سے ہمارے والدین کو ہمیشہ راضی رکھے اور اپنی اور اپنے حبیب ﷺ کی محبت عطا فرما دے۔ درویش.