اسلام آباد (جیوڈیسک) ہائر ایجوکیشن کمیشن میں 2 ارب 68 کروڑ 78 لاکھ روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے، مالی سال 2013-14 آڈٹ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا کہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد کی تقرری غیر قانونی تھی اور انھیں غیر قانونی طورپر 27 لاکھ سے زائدکی رقم جاری کی گئی۔
ایچ ای سی کی طرف سے جو جواز پیش کیا گیااس کیلیے مجازاتھارٹی سے منظوری ضروری تھی جو حاصل نہیں کی گئی ،ایچ ای سی نے حکومت سے 2 ارب 75 لاکھ روپے حاصل کیے اور انھیں غیر قانونی طور پر اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کیا جو آڈٹ رولز کی خلاف ورزی ہے، آڈیٹر جنرل نے ایچ ای سی کوتنبیہ کہ ہے کہ وہ غیرقانونی کام کرنے سے گریز کرے۔
ایچ ای سی نے آڈٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایچ ای سی کے چیئرمین کو اسلام آباد کلب کی ممبرشپ 10 لاکھ کے عوض دی جو غیرقانونی ہے، یہ ممبر شپ 2009 -10 میں حاصل کی گئی۔ ایچ ای سی نے مالی سال 2012-13 کے مارچ سے جون کے دوران افسران اور دیگر اسٹاف کو اسپیشل الاؤنس کی مد میں 76 لاکھ 27 ہزار کی ادائیگی کی گئی جو آڈٹ کے پیراگراف کے تحت غیرقانونی ہے،ایچ ای سی نے 23 کروڑ 91 لاکھ روپے کی رسیدیں غیرقانونی طریقے پر زیر قبضہ رکھیں اور انھیں مناسب طریقے سے حکومتی خزانے میں جمع نہیں کرایا۔
ایچ ای سی نے 33 لاکھ 75 ہزار روپے کا فرنیچر، کارپٹس خریدا جب فنانس ڈویژن نے ایسی چیزوں پرپابندی عائد کررکھی تھی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے منظوری حاصل کیے بغیر یونیورسٹیوں کی سطح پرنیشنل ریسرچ پروگرام کا آغاز کردیا جس کیلیے جامعات کی طرف سے مختلف پروجیکٹس کیلیے 42 کروڑ 62 لاکھ ادا کر دیے گئے، آڈیٹر جنرل نے ایچ ای سی کوتنبیہ کی ہے کہ وہ ایسے منصوبے شروع کرنے سے قبل مناسب فورم سے اجازت لینے کی ہدایت کی ہے۔