حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس معمورہ عالم کی وہ عظیم اور منفرد شخصیت ہیں۔ جن کی عظمت و بلندی جامعیت و ہمہ گیری اور عالمی و آفاقی برتری سے سب ہی معترف ہیں۔ اور کسی کو ان کے بلند امتیازات اور نمایاں خصوصیات سے انکار نہیں ہے۔آپ نے قریش کے ایک ممتاز ترین گھرانے میں آنکھ کھولی ،سر زمین حرم میں بیت اللہ کے اندر ولادت کا شرف حاصل کیا۔ نبوت کی تجلیوں میں آنکھیں کھولیں،رسالت کی فضائوں میں پلے بڑھے۔رسول اکرمۖ کے سایہ تربیت میں پروان چڑھے،بچپن میں ہی انکے نقش قدم پر قدم رکھ کے چلنا پھرنا شروع کر دیا،سفر و حضر میں سایہ کی طرح ساتھ رہے۔
خلوت و جلوت میں ان کے فیضان صحبت سے فیض یاب ہوئے،انہی کے مکتب رشدوہدایت میں تعلیم و تربیت کی منزلیں طے کیں۔ اور انہیں کے عمل و کردار کے نقوش کو قلب و نظر میں جگہ دی اور صفائے طینت و کمال تربیت کے نتیجہ میں اوج و عروج کے اس نقطہ بلند تک پہنچے کہ مہ و پروین کی بلندیاں بھی ان کی گزر گاہ میں گرد راہ ہو کر رہ گئیں۔ یہ ایک عوامی تاثر ہے اور ایک حد تک صیح بھی ہے کہ گردوپیش کی اچھی یا بری فضاء انسان کے ذہین اور نفسیات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مگر دنیا میں ایسے بلند نظروروشن فکر افراد بھی دیکھنے میںا تے ہیں۔ جو عوامی عقائد و توھجات اور گردوپیش کے غلط نظریات سے قطعاََ متاثر نہیں ہوتے اور ان کا انداز فکر جدا، طرز عمل علیحدہ اور راہ و روشن دوسروں سے کلیتاََمختلف ہوتی ہے۔
حضر ت علی کرم اللہ وجہہ بھی انہیں افراد میں ایک نمایاں فرد تھے جو ماحول سے متاثر ہونے کی بجائے ماحول پر اثر انداز ہوتے ہیںاور اپنی بصیرت، قوت، فہم اور تائید ربانی سے حق و باطل میں امتیازی حدود قائم کر کے ایک نئی تہذیب اور نئے طرز فکر کی داغ بیل ڈالتے ہیںاور دوسروں کی راہ پر چلنے کی بجائے راہروان منزل کے لیئے اپنے نشان ِ قدم چھوڑ جاتے ہیں۔ چنانچہ اس کفر پرور دور میں جہاں بت پرستی شعار عام ہوتی ہے آپ خالق حقیقی کے علاوہ کسی اور کے سامنے سر نہیں جھکاتے اور اس تاریخ معاشر ے میں اپنی تابندہ و تابناک پیشانی کو صنم پرستی سے آلودہ نہیں ہونے دیتے اور فکر و عمل میں انہیں خطوط پر گامزن رہتے ہیں جو رسول اکرم ۖ نے ان کے لیئے متعین کر دئے تھے اسی فکری و عملی اتحاد کا نتیجہ ہے۔
حضور اکرم ۖ کی زبان سے اعلان رسالت سنتے ہی ایمان کا اقرار کرتے اور ان کے ساتھ نمازوں میں شریک ہو کر حق پسندی و حق پرستی کا ثبوت دیتے تھے۔ آپ کا ایک مشہور نام حیدر بھی تھا جو آپکی والدہ محترمہ کا رکھا ہوا تھا جسکی تصدیق اس رجنر سے ہوتی ہے۔جو آپ نے مرحب کے مقابلہ میں پڑھا تھا اس کے متعلق روایتوں میں ہے کہ جب آپ جھولے میں تھے تو ایک دن ماں کہیں گئی ہوئی تھیں جھولے پر ایک کالا ثانپ جا چڑھا ۔ آپ نے ہاتھ بڑھا کر اس کے منہ کو پکڑ لیا اور اسے چیر کر پھینک دیا تھا ۔ ماں نے واپس ہو کر یہ ماجرا دیکھا تو بے ساختہ کہ اٹھیں یہ میرا بچہ حیدر ہے۔
دعوت ذوالعثیرہ کاکام حضوراکرم ۖ کے وصال سے لے کر آپ کی شہادت تک جاری و ساری رہا ۔ غزوہ خندق میں آپ عرب کے سب سے بڑے بہادر پہلوان عمر و بن عبدوود سے لڑتے ہوئے اس کے اوپر سوار ہو گئے تو اس نے آپ کے چہرہ مبارک پر گستاخی کہ تو آپ نے بجائے اس کو ہلاک کرنے کے ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ جب اس نے اس کی بابت پوچھا تو آپ نے جو اس وقت جملے ادا کیئے کہ تو میرا نہیں خدا کا دشمن ہے میں دین کی خاطر تمہارے ساتھ لڑ کر جہاد کر رہا تھا مگر اب اس میں میری ذاتیات شامل ہو گئی ہے کل کو لوگ یہ نہ کہیں کہ علی نے عبددود کو ذاتی دشمنی پر قتل کیا ہے۔
یہ جملے آج بھی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب بھی حضرت علی کی تلوار اٹھی تو حکم خدا پر اور جب حضرت علی کی تلوار نیام میں گئی تو بھی حکم خدا پر۔ مومن جنگ کرتا ہے یا معاہدہ اللہ کی خاطر وہ محبت کر ے یا نفرت، وہ جنگ کرے یا معاہدہ صرف اللہ کے لیئے کرتا ہے۔
World
حضرت علی کرم اللہ وجہہ دنیا کی نسترانگیزیوں اور رنگینیوں سے حد درجہ بیزار تھے آپ نے دنیا کو مخاطب کر کے باربار کہا ہے کہ” اے دنیا غزلی، غیری”جا میرے علاوہ کسی اور کو دہو کادے۔ میں تجھے طلاق بائن دے دی ہے جس کے بعد رجوع کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت علی نے جابر ابن عبداللہ انصاری کو لمبی لمبی سانس لیتے ہوئے دیکھا تو پوچھا اے جابر کیا یہ تمہاری ٹھنڈی سانس دینا کے لیے ہے۔عرض کی مولا ہے تو ایسای ہی آپ نے فرمایا جابر سنو انسان کی زندگی کا دارومدا سات چیزوں پر ہے اوریہی سات چیزیں وہی ہیں جن پر لفظوں کو خاتمہ ہے کھانے والی چیزیں پینے، بہنے والی چیزیں ، لذت ِ نکاح والی چیزیں ،سواری والی چیزیں، سونگھنے والی چیزیں، سننے والی چیزیں اے جابر اب ذرا ان کی حقیقتوں پر غور کر و کھانے میں بہترین چیز شہد ہے۔
یہ مکھی کا لعاب دہن ہے اور بترین پینے کی چیز پانی ہے یہ زمین پر مارا مارا پھرتا ہے ۔ بہترین پہننے کی چیز دبیاج ہے یہ کیڑے کا لعاب ہے اور بہترین منکوحات عورت ہے جسکی حد پیشاب کا مقام پیشاب کے مقام میں ہوتا ہے دنیا جس چیز کو اچھی نگاہ سے دیکھتی ہے وہ وہی ہے جو اس کے جسم میں سب سے گندی ہے۔ اور بہترین سواری کی چیز گھوڑا ہے جو قتل و قتال کا مرکز ہے اور بہترین سونگھنے کی چیز شک ہے جو ایک جانور کے ناف کا سوکھا ہوا خون ہے اور بہترین سننے کی چیز غنا(گانا) ہے جو انتہائی گناہ ہے۔ یہ دنیا کی وہ رنگینیاں ہیں جو انسان کو تباہ و برباد کر دیتی ہیں اور دین سے دور کر دیتی ہیں۔ آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی سوالی آپ کے در سے خالی نہیں لوٹا آپ نہایت ہی خوش اخلاق تھے۔
علماء نے لکھا ہے آپ روشن رو اور کشادہ پیشانی رہا کرتے تھے۔ یتیم نواز تھے ، فقیروں میں بیٹھ کر خوشی محسوس کیا کرتے تھے۔ مومنوں میں اپنے کو حقیر اور دشمنوں میں اپنے آپ کو بارعب رکھتے تھے۔ مہمانوں کی خدمت خود کیا کرتے تھے۔ کارخیر میں سبقت کرتے تھے، ہر مستحق کی امدا د اور ہر کافر کے قتل پر تکبیر کہتے تھے۔
محمد ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ امام المفسرین جناب ابن عباس کا کہنا ہے کہ علم و حکمت کے دس درجوں میں سے 9 حضرت علی کو ملے ہیں۔ اور دسویں میں تمام دنیا کے علماء شامل ہیں اس لیئے تو رسول اکرم ۖ نے کہا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ اور شہر میں داخل ہونے سے پہلے دروازے سے گزرنا ہوتا ہے۔
امیرالمومینن جہاں بھی روزہ افطار کرتے لقموں پر اکتفا کرتے اور پوچھا جاتا تو فرماتے “میں چاہتا ہوں کہ میری موت آئے تو میں خالی شکم ہوں۔” انیسویں شب کو حضرت اپنی دختر ام کلثوم کے گھر تشریف فرما تھے وہیں افطاری کی اور کھانے سے فارغ ہو کر حسب معمول مصلائے عبادت پر کھڑے ہو گئے مگر آج بار بار صحن میں نکلتے آسمان پر نظر کرتے اور ڈوبتے اور جھلملاتے ستاروں کو دیکھ کر فرماتے ” خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ مجھے غلط بتایا گیا ہے یہی وہ رات ہے جس کا مجھ سے وعدہ کیا گیا ہے آپ کرب و اضطراب کی حالت میں کھبی صورت یٰسین کی تلاوتکرتے کبھی انا اللہ و انا الیہ راجیون اور کبھی لاحول اولاقوة الاباللہ العی العظیم پڑھتے اور کبھی کہتے الھم بارک فی الموت خدایا موت کو میرے لیئے بابرکت قرار دے۔
ام کلثوم نے یہ کیفیت دیکھی تو عرض کیا بابا آج آپ اتنے پریشان حال کیوں ہیں فرمایا بیٹی آخرت کی منزل درپیش ہے میں اللہ کی بارگاہ میں جانے والا ہوں۔ آپ مسجد میں تشریف لے گئے جب نافلہ صبح کی پہلی رکعت کے سجدہ میں سے سر اٹھایا تو ابن ملجم نے زہر میں بجھی ہوئی تلوار سر پر ماری جس سے فرق مباک شگافتہ ہو گیا ۔ آپ نے بے ساختہ فرمایا بسم اللہ و علی ملة رسول اللہ فزت ورب الکعبہ ۔ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا ہوں ” ۔ لوگو مجھے یہودیہ کے بیٹے ابن ملجم نے قتل کر ڈالا ہے امام غزلہ روح کائنات اور جان عالم ہوتا ہے جب جان پر بنتی ہے تو اعضاء متاثر و مضمل ہوئے اس موقع ہر آسمان کانپا ، زمین لرزی مسجد کے دروازے آپس میں ٹکرائے اور زمین و آسمان کے درمیان یہ آواز گونجی خدا کی قسم رکن ہدایت کر گئے۔
ابن عم رسول ۖ قتل کر دیئے گئے ۔ علی مرتضیٰ شہید کر دیئے گئے ۔ آئیں عہد کرتے ہیں کہ ہم سب مل کر حضرت امیر المومنین کے احکام کی پیروی کر کے دنیا و آخرت میں کامیابیاں حاصل کریں گے انشااللہ اسی میں ہماری بہتری ہے۔
Syed Mubarak Ali
تحریر:سید مبارک علی شمسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ای میل۔۔۔۔mubarakshamsi@gmail.com