کچھ ہفتے پہلے جب میاں محمد شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے راقم نے انہیں اپنے گلی آنے کی دعوت دی تھی اور اپنے علاقے کی حالت زار کی تصویر بھی دیکھانے کی کوشش کی تھی ۔میں نے کہا تھا کہ خادم اعلیٰ کبھی ہماری گلی آئو نا ”لیکن اُس وقت اُن کی مصروفیات و ذمہ داریاں بہت زیادہ تھیں شائداس لیے چھوٹی موٹی دعوت کو قبول کرنا تو دور کی بات دعوت نامہ دیکھنے کی فرصت نہ تھی۔
لیکن اب عام انتخابات کے موقع پر وہ ہمارے حلقہNA129سے اُمیدوار کی حیثیت سے انتخابی مہم کی غرض سے ہماری گلی تشریف لا رہے ہیں، تو یقینا اُنھیں ہماری محرومیوںکا اندازہ ہوجائے گا۔اپنی محرومیوں کا مزید ذکر کرنے سے پہلے حلقہNA129کامختصر تعارف کرواتا چلوں۔حلقہ این اے 129 سے ہمیشہ رانا ، سندھو،گھرکی اورسردارخاندان کبھی مسلم لیگ اور کبھی پیپلزپارٹی سے منتخب ہوتے رہے ہیں ۔
لاہور کا حلقہNAـ129 جس میں زیادہ تر دیہات کا علاقہ شامل ہے۔ یہاں سالوں سے مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی میں مقابلہ ہوتا آرہاہے، اب نئے الیکشن کے بگل بجنے کی آوازیں سنائی دیتے ہی ، سندھو ،سردارگروپ نے اس حلقہ میں جوڑ توڑ اور صف بندی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ سندھوگروپ جس کی قیادت چوہدری محمدمنشاء سندھو کرتے ہیں ان کا تعلق پہلے مسلم لیگ (ن)، (ق) سے تھا اب تحریک انصاف سے ہے۔
حلقہ این اے 129 کے دیہاتی علاقہ میں زیادہ تر پیپلزپارٹی کا ووٹ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہاں پر مذہبی ووٹ کے ساتھ ساتھ برادریوں کے ووٹ کا بھی بڑ ا عمل دخل ہے۔ حلقے میں رحمانی ،انصاری ،جٹ ،بھٹی ،آرائیں اور میئوبرادریاں اور کرسچن کمیونٹی بھی بڑی تعدادمیں آباد ہیں ۔اس حلقے سے الیکشن 2008ء میں پیپلزپارٹی کے امیدوار طارق شبیرمیئونے ق لیگ کے حبیب اللہ وڑائچ ،اور ن لیگ کے سردار عادل عمرکو شکست سے دوچار کیا تھا۔
اس حلقے میں عیسائی برادری اور میئوبرادری کا ووٹ بینک متاثرکن حالات پیدا کرتا ہے۔اور جس امیدوار کو عیسائی برادری اور میئو ،رحمانی ،ملک ،مہراورانصاری برادری اپنا ووٹ کاسٹ کرتی ہے۔اس امیدوار کے جیتنے کے امکانات واضح دکھائی دیتے ہیں۔ حلقے میں اس مرتبہ الیکشن 2013ء میںNA129کے لیے پیپلزپارٹی کے طارق شبیر میئو اورتحریک انصاف کے محمدمنشاء سندھو،ملک اصغراعوان نے اورPP159.160کے لیے پیپلزپارٹی کے چوہدری ارشد گھرکی ،مسلم لیگ ن کے سیدکھوکھر اور تحریک انصاف کے علی امتیازوڑائچ اور دیگر کاغذات نامزدگی داخل کروا چکے ہیں۔
Christian Community
طارق شبیرکو اس بار میئو برادری کا ووٹ ملتا نظر نہیں آتا جبکہ ارشدگھرکی کا پارٹی کے ساتھ ساتھ ذاتی ووٹ بینک موجودہے۔کرسچن کمیونٹی اس بار نہ تو پیپلز پارٹی کو ووٹ دے رہی ہے اور نہ مسلم لیگ ن کو ۔تحریک انصاف کے محمد منشاء سندھو کل تک مضبوط اُمیدوار تھے لیکن آج میاں محمد شہباز شریف کے مقابلے میں آنے پر حلقہ کا ہر فرد میاں شہباز شریف کو فیورٹ قرار دے رہاہے۔
میاں محمد شہبازشریف کے اُمیدوار ہونے کی صورت میں ہوسکتا ہے کہ کرسچن کمیونٹی بھی انھیں ووٹ دے دے ۔جیساکہ پچھلے دو،تین دن سے یہ خبر گردش کررہی ہے کہ میاں محمد شہباز شریف نے حلقہNA129کے لیے کاغذات نامزدگی داخل کروا دیئے ہیں ،گزشتہ روز اس خوشی میں مسلم لیگی ورکرز نے مٹھائی بھی تقسیم کی ۔یہ پہلاموقع ہوگاجب ہمارے حلقے سے کوئی اہم شخصیت اُمیدوار بن کر آئے گی۔
ماضی میں اس علاقے کے ساتھ ہمیشہ سوتیلا سلوک کیا گیا الیکشن جیتنے کے بعد کبھی کسی اُمیدوار نے مڑکر نہیں دیکھا،یہی وجہ ہے کبھی ایک بار مسلم لیگ کا اُمیدوار کامیاب ہوتا ہے تو دوسری بار عوام مایوس ہوکر پیپلزپارٹی کو آزماتے ہیں ۔اس بار تو مایوسی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ عوام شائد دونوں جماعتوں کے اُمیدواروں کو رد کرکے کسی تیسری جماعت کے اُمیدوار کی حمائت کرتے، لیکن میاں شہبازشریف کے آنے سے عوام کو اُمید ہونے لگی ہے کہ اس بار علاقے کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
میری نظر میں کسی بھی پارٹی کے پاس ایسا اُمیدوار نہیں جومیاں شہباز شریف کامقابلہ کرسکے ۔میں نے خود یہ فیصلہ کررکھاتھا کہ اس بار میں اپنا ووٹ کسی جماعت کونہیں بلکہ کسی اہل اُمیدوار کودوں گا لیکن میاں محمد شہباز شریف کے اعلان سے پہلے تک کوئی اُمیدوار میری نظر میں اہل نہ تھاجس کی وجہ سے میںووٹ کی اہمیت کوسمجھنے کے باوجودنہیں ڈالنا چاہتا تھا۔
اگر میاں محمد شہباز شریف حلقہNA129سے الیکشن لڑتے ہیں تو میں انھیں ووٹ ضرور دونگا اس لیے نہیں کہ وہ مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہیں بلکہ اس لیئے کہ وہ کئی اختلافات کے باوجود میرے پسندیدہ سیاست دان ہیں ۔آج میں میاں صاحب کو دوبارہ دعوت دیتا ہوں کہ میاںصاحب اب تو ہماری گلی آئونا۔میں مسلم لیگ ن کا ورکرنہیں ایک ووٹر کی حیثیت سے میاں صاحب کو خوش آمدید کہتا ہوں اور NA129سے الیکشن جیتنے کی پیشگی مبارکباد دیتا ہوں ۔