منشی صاحب

Munshi Sahib

Munshi Sahib

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

منشی اسلم کئی مہینوں کے بعد مُجھ سے ملنے کے لیے آیا تھا میں اِس کو پچھلے پانچ سال سے جانتا ہوں ہماری قربت اور دوستی کی وجہ اِس کا اچھا مزاج ‘صابر ہو نا اور میرے علاقے کا ہوناہے۔ اِس کا گائوں میرے گائوں کے قریب ہی ہے اِس لیے بھی یہ مجھے اچھا لگتا ۔زیادہ پڑھا لکھا نہیں صرف آٹھ جماعتیں پاس لیکن اچھا لکھ پڑھ سکتا ہے ۔ پڑھائی چھوڑنے کی وجہ بچپن میں باپ کا اچانک مر جانا باپ مرنے کے بعد پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑ ا تھا اِس لیے ماموں نے پکڑ کر لاہور ایک کریانے کی دوکان پر کام پر لگوا دیا تا کہ تنخواہ کے ساتھ ساتھ گھر کا راشن بھی ملتا رہے اِس طرح منشی اسلم کی پڑھائی کا سلسلہ بند ہو گیا او ر یہ زندگی کی گاڑی کو حرکت دینے کے لیے کریانے کی دوکان پر چھوٹا بن کر کام کر نے لگا یہاں کا مالک نیک رحم دل انسان تھا اُس نے اِس یتیم بچے پر ظلم نہیں بلکہ شفقت پیار سے پالا۔

اسلم جوان ہوا تو اِس کی شادی میں بھی اِس کی اچھی خاصی مدد کی اب اسلم بڑا ہو گیا تھا اُس کو کام کاج کی اچھی طرح سمجھ آگئی تھی حساب کتاب کی اچھی طرح جانتا تھا دس سال پہلے دل کا دورہ پڑنے اچانک دوکان کا مالک انتقال کر گیا تو دوکان کی ساری ذمہ داری اب منشی اسلم کے کاندھوں پر آن پڑی جو اِس نے ایمان داری سے نبھائی یہ ساری باتیں مجھے منشی اسلم کئی ملاقاتوں میں بتا چکا تھا میں منشی اسلم سے جو بہت متاثر تھا اِس کو پسند کر تا تھا جب بھی آتا مجھے اِس سے مل کر باتیں کر کے پاس بیٹھ کر بہت اچھا لگتا تھا یہ معصوم نیک صاف کردار کا مالک انسان تھا جب بھی میرے پاس آیا کبھی خدا سے شکوہ شکایت الزام نہیں ہمیشہ خدا کا شکر ادا کر تے دیکھا رونا پیٹنا اِس کی عادت میں نہیں تھا اِس کی جس بات نے مجھے بہت متاثر کیا وہ یہ کہ اِس کو اکثر سچے خواب آتے ہیں جب بھی اِس کو کوئی خواب آتا تو مُجھ سے پوچھنے آجاتا چند منٹ بیٹھ کر اِدھر اُدھر کی باتیں کر تا اپنے خواب کی تعبیر پوچھتا مجھے جو سمجھ آتی میں بتا دیتا ‘ ساتھ اِس کو اللہ کے ناموں کی تسبیح کر نے کا بہت شوق ہے اِس کو کسی نے کہہ دیا کہ تم جو وظیفے کر تے ہو کیا کسی سے پوچھ کر کر تے ہو تو اِس نے انکار کیا کہ نہیں مجھے جو ذکر اچھا لگتا ہے میں کر نا شروع کر دیتا ہوں کسی اخبار رسالے میں جو نام دیکھتا ہوں اُس کو پڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔

اب جب لوگوں نے کہا کسی سے پوچھ کر پڑھا کرو تو اب یہ مجھے استا د سمجھ کر میرے پاس آجاتا ہے کہ فلاں اخبار رسالے میں یہ آیت یا اللہ کانام دیکھا ہے کیا میں بھی اِس کو پڑھ لوں تو میری اجازت سے آرام سے مصافحہ کر کے چلا جاتا ہے مجھے ہر بار جس بات نے حیران کیا وہ یہ کے یہ جو بھی وظائف کر تا ہے کسی دنیاوی مقصد کام ضرورت کے لیے نہیں بلکہ صرف اِس لیے کہ ثواب ملتا ہے آخرت میں کام آئیں گے جب بھی کوئی نیا وظیفہ لے کر میرے پاس آتا ہے تو میں ہر بار ضرور اِس سے پوچھتا ہوں یہ تم کس کام کے لیے پڑھنے لگے ہو یا کوئی مسئلہ پریشانی تو یہ ہمیشہ اللہ تعالی کا شکر ادا کر تا ہے کہ اللہ تعالی نے مجھے میری اوقات سے بڑھ کر دیا ہے کرائے کے چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے لیکن پھر بھی مطمئن شاکر راضی ۔اِس کا تشکر آمیز جواب مجھے ہر بار حیران کرتا ہے کہ اتنا پر سکون مطمئن شکر گزار انسان کہ کئی سالوں سے ذکر اذکار کر رہا ہے لیکن بدلے میں کوئی دعا حاجت نہیں ہے ‘اِسی بات نے مجھے اِس کا گرویدہ بنایا ہوا ہے کہ بے صبری بے چینی چیخ و پکار آہ و بکا نام کو نہیں اِس کے پاس کار موٹر سائیکل اپنا گھر نہیں ہے پھر بھی اتنا مطمئن خوش کیسے ہے ورنہ یہاں تو ہر بندہ مادیت پرستی میں غرق ہیں مر گیا برباد ہو گیا اجڑ گیا اللہ میری دعائیں کیوں نہیں سنتا پروفیسر صاحب آپ کے کہنے پر اتنے وظیفے لنگرخیرات بانٹی لیکن میرے حالات نہیں بدلے یہ کب بدلیں گے حالات کب سدھر یں گے آپ فقیر لوگ بھی صرف امیروں کے ہی کام کر تے ہیں آج کل غریب کا تو کوئی بھی نہیں۔

اب تو روحانی لوگ بھی گاڑی والوں کے امیروں کے کام کر تے ہیں جس شخص کو بھی ہاتھ لگائو اُس کے اندر بھڑاس کا آبشار ہر وقت ابلتا نظر آتا ہے ہر انسان مادیت پرستی کے طلسم ہو شربا میں غرق کبھی نہ ختم ہونے والی شاہراہ پر اندھا دھند بس بھاگے جارہا ہے ۔مادیت پرستوں کے اِس دور میں یہ منشی اسلم کتنا صابر انسان شاکر بندہ نہ کوئی شکوہ شکایت نہ بھڑاس نہ ڈپریشن مطمئن خو شحال جب کہ نہ گھر نہ کار پاس کچھ بھی نہیں اِس کی یہ آسودگی مطمئن ہونا شاکر ہو نا صابر ہونا مجھے متاثر کرتا تھا دوسری اہم بات کہ اِس کے علاوہ یہ کونسا نیک عمل کرتا ہے کہ توکل تشکر او ر صبر کی چادر میںہر وقت لپٹا مطمئن نظر آتا ہے یہی کھوج مجھے اِس کی طرف متوجہ کر تی کہ دنیا کی آسائشیں پا س نہیں لیکن یہ پھر بھی اگر خوش ہے تو اُس کی وجہ کیا ہے اوپر سے خدا کے اتنا قریب کہ سچے خواب بھی آتے ہیں خدا کے لازوال وحی الہام کشف اور خوابوں کے ذریعے انسان سے مخاطب یا اپنا پیغام پہنچاتا ہے وحی تو پیغمبروں کے ساتھ ہی ختم ہو گئی الہام کشف خواب تزکیہ نفس کی اطہارت کے بعد ملتے ہیں۔

یہ منشی کسی صاحب کشف صوفی درویش کے پاس بھی نہیں جاتا نہ ہی مراقبہ ارتکاز کم کھانا کم سونا روحانی اشغال کرتا ہے نہ ہی کسی استاد کی زیر نگرانی روحانی قوتوں کو بیدار کر نے کے اشغال مشقیں کرتا ہے تو اِس کا باطن رزائل سے پاک کس طرح ہوا شیشہ قلب کس طرح صاف ہوا کہ تحلیات الٰہی ان پر ناز ل ہوتی ہیں کیونکہ جب تک ظاہر باطن کا تضاد دور نہ ہو انسان اندر سے پاک نہ ہو اس وقت تک سچے خوابوں یا کشف کی منزل نہیں پاسکتا لیکن منشی اسلم نہ تو کسی کوچہ تصوف میں بیٹھا نہ ہی کسی کامل درویش کی صحبت سے فیض یاب ہوا نہ ہی تزکیہ نفس کی پل صراط سے گزرا ایک معصوم سادہ صاف گو انسان لیکن اُس منزل کو پا گیا جس کو پانے کے لیے اہل حق کے مسافر برسوں راتوں کو جاگتے ہیں دنیا چھوڑ کر عبادت ریاضت کڑے مجاہدے سے گزرتے ہیں لیکن یہ نارمل زندگی گزارتے ہیں حق تعالی کے اِس قدر قریب تھا لیکن جب بھی اِس سے پوچھنا تو یہ حیران نظروں سے میری طرف دیکھتا اور جو کہتا میں تو بہت گناہ گار انسان ہوں آج جب اِس نے بتایا کہ اپنی مالکن کے ساتھ آیا ہوں تو مجھے لگا میں شاید اِس کی مالکن سے پتہ لگا سکوں کہ اِس کی کونسی نیکی ادا رب کو پسند ہے۔

لہٰذا میں اِس کی مالکن سے کھوج لگانے کا سوچنے لگا اُس کے پاس گیا وہ بیچاری بوڑھی نیک اپنی بیٹی جس کی شادی ہو چکی تھی سسرال میں اپنی ساس کے ہاتھوں تنگ تھی اُس کے لیے وظیفہ پوچھنے آئی تھی میں نے اُس کو حوصلہ دیا وظیفہ دیا اور کہا بہت جلد ی اللہ بیٹی کو سسرا ل میں خوشحال زندگی ضرور عطا کرے گا پھر میں نے اُس سے پوچھا بہن جی آپ کی منشی اسلم کے بار ے میں کیا رائے ہے یہ کیسا انسان ہے تو وہ منشی جو دور بینچ پر بیٹھا تھا اُس کی طرف اشارہ کر کے بولی یہ انسان نہیں فرشتہ ہے اِس کے منہ سے جو دعا نکل جائے وہ پوری ہو تی ہے جب میرا میاں انتقال کر گیا تو ساری دوکان کام اِس نے سنبھال لیا یہ چاہتا تو بے ایمانی کر کے پیسے کما سکتا تھا لیکن نہیں آج دس سال ہو گئے ہیں میرا گھر چل رہا ہے میری لڑکیوں کی اچھی شادیاں ہو گئی ہیں اِس نے پچھلے دس سال میں ایک روپے کی بھی بے ایمانی نہیں کی ۔میں نے دوسال پہلے زبر دستی اِس کو عمرے پر بھیجا تو اِس کی غیر موجودگی میں روزانہ کی کمائی وہی تھی جو یہ ہمیں روز بتاتا ہے روزانہ جو کماتا ہے خرچ کرتا ہے وہ ایک ایک روپیہ مجھے آکر بتاتا ہے میں اِس کو کئی بار کہہ چکی ہوں جو ضرورت ہو مجھے بتائے بغیر دوکان سے لے لیا کرو لیکن یہ مجھے بتائے بغیر ماچس کی تیلی بھی دوکان سے نہیں لیتا میں نے کئی بار کہا تنخواہ بڑھا لو لیکن یہ اتنی ہی لیتا ہے جو اِس کو ضرورت ہو یہ سو فیصد ایمان دار قابل بھروسہ رزق حلال کمانے والا انسان نہیں فرشتہ ہے میں اِس دنیا اور آخرت میں اِس کی گواہی دوں گی میری بیوگی اور یتیم بچیاں آکر باعزت زندگی گزار رہی ہیں تو اِس منشی اسلم کی وجہ سے میں ہر سانس سے اِس کو دعا دیتی ہوں پھر وہ دیر تک منشی کی تعریفیں اور دعائیں دیتی رہیں رزق حلال خوف خدا آخرت پر یقین یہ منشی کی نیکیاں تھیں جو وہ اب وقت کا ولی بن چکا تھا میں یہ سوچتا ہوا منشی کی طرف بڑھا کہ منشی پٹواری تھانیدار نیک ہو یہ ممکن نہیں لیکن میرے سامنے نیک رزق حلال پر قائم منشی اسلم کھڑا تھا میں جاکر اُس سے گلے ملا اور میٹھے لہجے میں بولا یار منشی میرے لیے دعا کیا کرو تو وہ معصوم دعا کا وعدہ کر کے چلا گیا ایسا انسان جو رزق حلال کے لقمے خود بھی کھاتا ہے اور بچوں کو بھی کھلاتا ہے۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org