جب سے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لء فنڈز دیں ایک طبقے نے اسے چنے کا نام دے دیا ہے ویسے اس میں حرج ہی کیا ہے لیکن یہ تو اپنی مدد آپ ہے۔سب مل جل کر پاکستان کی سوکھی دھرتی کی آبیاری کے لئے اکٹھا ہو رہے ہیں۔مخالفین کو وہ دن بھول گئے جب قرض اتارو ملک سنوارو کے نام پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی گئی دیگر ممالک کا تو مجھے علم نہیں لیکن سینیٹر پیر صابر شاہ کرنل مشتاق طاہر خیلی جدہ میں آئے ہم نے ایک بڑی تقریب کا انعقاد کیا وہاں تقریریں ہوئیں اس کے بعد قاری شکیل مرحوم اور اس وقت کے قونصل جنرل لوگوں کے پاس گئے۔اللہ کے کام اللہ جانے مگر ہم نے اس کے بعد سنا کہ وہ ساری رقوم خرد برد ہو گئیں اسی سلسلے میں دنیا کے دیگر ممالک سے فنڈز اکٹھے کئے گئے مگر ہوا کیا زرداری دور کا قرضہ اب دگنا ہو گیا ہے اور قوم کسی مسیحا کی طرف دیکھ رہی ہے۔آج مجھے تاریخ اسلام سے ایک بات یاد آ گئی مسلمان جب مدینہ منورہ گئے تو انہیں میٹھے پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔
اس وقت اللہ کے پیارے رسولﷺ نے مسلمانوں سے کہا کہ کون ہے جو یہودی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کرے اور جاں نثار نبی حضرت عثمان نے وہ کنواں خریدا اور مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا۔ہمیں اسوہ ء حسنہ سے سیکھنا ہے اور خصوصا جب نعرہ ریاست مدینہ کا لگایا ہے تو مدینہ میں ہونے والے واقعات کو سامنے رکھنا ہو گا۔میں یہ نہیں کہتا کہ صالحین کی جماعت کے پاس اقتتدار ہے ان میں ضرور گناہگار ہوں گے مگر یہ کیا کم ہے کہ پاکستان میں وہ پارٹی حکومت کر رہی ہے جس نے نعرہ ریاست مدینہ کا لگایا ہے۔پانی ہماری ضرورت ہے۔میں آج ایک انگریزی جریدے میں وہ مضمون پڑھ رہا تھا جو ۲۰۱۴ میں چھپا جس میں یہ طے کیا گیا کہ دیا میر بھاشا ڈیم کا منصوبہ ۲۰۳۷ تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔یہ منصوبہ ۲۰۲۰ کو مکمل ہونا تھا لیکن اسے جان بوجھ کر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملتوی کرانے کی کوشش کی گئی۔جو کام ہندوستان کر رہا تھا اسی کام کو ہماری ماضی کی حکومتیں کرتی رہیں ہماری صفوں میں جماعت علی شاہ جیسے غدار بھی بھیٹھے رہے جنہوں نے اس آبی دہشت گردی کی معاونت کی۔مجھے کسی کی تعریف نہیں کرنی لیکن اتنی بات ضرور کہوں گا کہ پاکستان میں آ بی وسائل کی کمی پر جتنا شور ضیاء شاہد نے کیا کسی اور نے نہیں۔یہ اکیلا نحیف و نزار شخص خمیدہ کمر کے ساتھ بڑے بڑے طرم خانوں کے پاس گیا ایک بار مجھے کہنے لگے اس وزیر اعظم میں کوئی تڑ نہیں اور چیف جسٹس کے بارے میں کہا یہ کر گزریں گے۔میری وزیر اعظم سے درخواست ہے کہ جب ڈیم کا کام شروع ہو تو ضیاء شاہد کو ساتھ رکھئے۔قوم ان کے ایک احسان کو تا دیر یاد رکھے گی۔
پانی کی قلت پر کہا گیا تھا کہ آئیندہ جنگیں پانی پر ہوں گے میں کہتا ہوں حضور جنگ تو جاری ہے۔صبح صبح ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں پانی کے برتن سروں پر رکھے اور نلوں کے سامنے برتنوں کی لمبی قطاریں لگائے نظر آتی ہیں۔چیف جسٹس صاحب کا کہنا ہے کہ وہ جھونپڑی بنا کر ڈیم پر پہرہ دیں گے میری موجودہ حکومت سے درخواست ہے کہ انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد انتظامی اختیارت دے کر واٹر کمیشن کا سربراہ بنائے مالی کو جتنا پودے سے پیار ہوتا ہے کسی اور کو نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے بر سر اقتتدار آتے ہی بہت سے چیلینجز کا سامنا کیا اور بڑی جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ایک سے بڑھ کر ایک چیلینجز آئے ۔میڈیا جو سلطان راہی اور مصطفی قریشی کی فلموں کی طرح کھڑاک کا عادی تھا کبھی بزدار کبھی چوہان کبھی فواز کی چھوٹی موٹی غلطیوں پر چڑھ دوڑا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نئے لوگ نئی غلطیاں کر بیٹھے مگر اس کا حل رجوع میں تلاش کیا گیا حافظ حسین احمد اسے اچھا یو ٹرن کہتے ہیں خاص طور پر عاطف میاں کے فیصلے کی واپسی۔اسلام میں اس قسم کے اقدامات کو رجوع کہا جاتا ہے یعنی بہتری کی جانب لوٹ آنا۔فواد چودھری کو سوشل میڈیا نے خوب لتاڑا لیکن ایک بات جو کو لوگ بھول گئے کہ پاکستان کے وزیر اطلاعات نے انہیں اقلیت قرار دیا۔
بات پانی کی ہو رہی تھی میں سمجھتا ہوں اگر کوئی نیا پھڈہ نہ کھڑا ہوا تو اللہ کے فضل و کرم سے سال ڈیڑھ میں بھاشا ڈیم پر کام شروع ہو جائے گا۔
یہاں انتہائی اہم نقاط پیش کئے دیتے ہوں جو میرے خدشات بھی ہیں۔دیا میر اور بھاشا ڈیم کے علاقے میں امن و امان پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے پی ٹی آئی کو پارٹی سطح سے بالاتر ہو کر وہاں کے مقامی افراد کو اپنا بنانا ہو گا۔نوجوانوں کے لئے نوکریاں دینا ہوں گی۔اس سلسلے میں سعودی عرب کی مثال لی جائے جس نے گزشتہ چند سالوں میں باہر سے آنے والوں کو نکالا اور مقامی لوگوں کو روزگار دیا۔یہ قدم انہوں نے اپنی قوم کے لئے کیا ۔اب وہاں مقامی افراد کو چراغ لے کر ڈھنوڈا جاتا ہے۔نقاطی پروگرام میں کمپنیوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ ورک فورس میں سعودیوں کو ملازمت دیں۔معذور لوگوں کو بھرتی کرنے پر زیادہ پوائینٹس دئے گئے اسی طرح یہاں ہمیں مقامی لوگوں کو بھرتی کرنا ہو گا۔اس طرح پاکستانیت کو تقیت ملے گی۔ہمارا دشمن چالاک ہے اور اس نے ہمیں چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے افغانستان ایران بھارت میں ہمارے مفادات کو ضرب لگانے والوں کی کمی نہیں۔پاک فوج نے وہاں بہت کام کیا لیکن جب ہم اس عظیم منصوبے کی طرف جا رہے ہیں تو یہ بھی سوچئے گا کہ بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان مضبوط ہو۔ایک نئی چیز کی بھنک میرے کانوں میں پڑی ہے جناب مراد علیشاہ کا کہنا ہے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ دریائے سندھ کا کتنا پانی ہے اور کتنا ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔
پہلی فرصت میں اس پسوڑی پر توجہ دی جائے ورنہ کالا باغ ڈیم کی طرح یہ کام بھی بگاڑا جا سکتا ہے۔رہی بات نون لیگی مزاحمت کی تو حضور اس پر کان نہ دھرئے قوم اب ان چلے ہوئے کارتوسوں کی جانب توجہ کیا منہ موڑ کر بھی نہیں دیکھے گی۔میں نے ایک پروگرام میں کہا بھی تھا کہ نواز شریف چوک میں کھڑے ہو جائیں کوئی دونی نہیں دے گا اور عمران ایک اشارہ کرے تو لوگ دھن لوٹا دیں گے۔ایک دن میں نے عمران خان سے پوچھا یہ لوگ آپ کو کتنا پیسہ دیتے ہیں کہنے لگے سب سے زیادہ مجھے دیتے ہیں میرا سوال تھا ایدھی سے بھی زیادہ کہنے بلکل۔اور میں نے خود محسوس کیا کہ لوگ جولیاں بھر کے دولت عمران کے قدموں میں رکھتے ہیں شوکت خانم کی مثال سامنے ہے۔عمران خان نے ہمیشہ پاکستانیوں کے پاس جانے کو رجیح دی شوکت خانم کے سلسلے میں جدہ آئے تو کسی نے کہا آئیں عربی شہزادے کے پاس جاتے ہیں ان کا کہنا تھا نہیں میں پسند کروں گا کہ پاکستانیوں کے پاس جاؤں اور وہ جدہ عزیزیہ اسکول میں بچوں کے پاس گئے۔
قوم نے ۱۹۶۵ کی جنگ میں ٹیڈی پیسہ دے کر دفاع وطن میں کردار ادا کیا تھا ،قوم قرض اتارو مہم میں بھی پیچھے نہیں رہی اور قوم اب بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔انسان چیریٹی کی رقم اسے دیتا ہے جس پر اعتبار ہو۔عمران خان کو اپنے اس وعدے پر پہرہ دینا ہو گا کہ پائی پائی کا حساب عوام کے لئے موجود ہو گا۔اس کی ٹیم کے لوگ بھی اسی جذبے سے آگے بڑھے تو کوئی وجہ نہیں ڈیم بنے گا۔میں چشم تصور میں اس ڈیم کو بنتے دیکھ رہا ہوں مجھے عمران پر بھروسہ اور مجھے ہی نہیں ہر اس پاکستانی کو بھروسہ ہے جو نیک نیت ہے۔اب میں ایک مشورہ نون لیگ کو دوں گا کہ دوستو یہ ڈیم سب کا ہو گا یہ ڈیم پیپلز پارٹی ایم ایم اے نون لیگ سب کا ہو گا اس کے راستے میں روڑے نہ اٹکائیں ورنہ پہلے ہی شکست کھا چکے ہو اس پر مزید مزاحمت یا مخالفت کی تو قوم آپ کو یکسر مسترد کر دے گی۔قوم کو نئی جذبی نئی رت نئی خوشبو اور نیا پاکستان مبارک ہو ایسا پاکستان جو بقول شاعر سب کا پاکستان ہو گا۔پاکستان تخیل ہے جو من کی لہروں کے نیچے جذبات کی رنگیں سیپوں میں جل پریوں کے اشکوں کی طرح موتی کی شکل میں رہتا ہے۔اور بقول احمد ندیم قاسمی خدا کرے میری ارض پاک پر اترے وہ فصل گل جسے اندیشہ ء زوال نہ ہو۔دوستو یہ چندہ نہیں یہ اپنی مدد آپ ہے۔