تحریر : ملک نذیر اعوان۔ خوشاب قارئین محترم اس میں کوئی شک نہیں پاکستان کو اللہ کریم نے بے شماروسائل دیئے ہیں۔ لیکن یہ دولت انسانی فلاح و بہبود کے لیے صرف کرنی چاہیے ۔۔۔۔عوام کی حالت کو بہتر کرنے پر خرچ کرنی چاہیے۔۔۔ غربت کو ختم کرنے کے منصوبہ بندی اور ٹھوس اقدامات کرنے چاہیے۔ جرم، ناانصافی اور سماجی برائیوں کی بھی روک تھام کرنی چاہیے۔ قارئین اگر مشاہدہ کیا جائے پوری دنیا میں سب سے زیادہ پروٹوکول پاکستانی حکمرانوں کا ہے۔ جن کی آمدو رفت پر ٹریفک جام رکھنا تو عام سی بات ہے۔ اس دوران ایمولینسوں میں کئی مریض لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ اور طالب علم تعلیمی اداروں سے لیٹ ہو جاتے ہیں۔ اور ملازمین بھی دفاتر سے لیٹ ہو جاتے ہیں۔
مگر سوچنے کی یہ بات ہے۔کہ ہمارے حکمرانوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔۔۔۔دولت کی اقتدار اور ہوس نے ان کے مقدر میں محرومیاں اور ناامیدیاں لکھ دی ہیں۔اور جب ناامیدیاں حد سے تجاوز کر جائیں۔تو انسان کو اپنی ذات سے بھی محبت ختم ہو جاتی ہے۔عوام کی کوئی بات سنی نہیں جا رہی ہے۔آج بھی اس ملک میں امیر۔۔۔۔امیر ترین اور غریب۔۔۔۔غریب ترین ہوتا جا رہا ہے۔اللہ پاک سے دعا ہے۔کہ یہ نظام بدل جائے اور شاید اب یہ وقت آگیا ہے۔کہ ہمارے حکمرانوں کو آنکھیں کھولنی چاہیے۔سڑکیں،پل اورمیٹرو جیسے منصوبے تو حکومت بنا رہی ہے۔لیکن جو ایک عام آدمی کی روز مرہ کی ضروریات ہیں ۔اس پر بھی حکومت کوغورو فکر کرنی چاہیے۔
Price Hike
ایک عام آدمی کا پیٹ پل اور سڑکوں سے نہیں پلے گا۔جب تک اس کی بنیادی ضرور یات پوری نہیں ہوں گی۔ ناظرین آپ غور کریں سٹیل مل کافی عرصے سے بند ہے۔ان کے مزدوروں کو تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں اور بیوہ عورتیں بیچاری پنشن سے محروم ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔کہ اس پر حکومت نے کھبی سوچا ہے۔ بلکہ حکومت تو عوام پر ٹیکسوں کی بو چھاڑ کر رہی ہے۔غریب عوام دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں۔مثال کے طور پر غریب آدمی اپنے بچے کو اچھے سکول میں تعلیم نہیں دے سکتا،غریب آدمی اچھے ہسپتال میں ٹریٹ مینٹ نہیں کر سکتا یہاں تک کہ اس کے پاس مکان کی بھی سہولت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس کی اور بھی ضروریات ہیں۔ لوگ مہنگائی کی چکی میں پیس رہے ہیں۔ مگر حکومت کو جوں کے توں تک نہ رینگی۔ ایون کہ معاشرے میں غریب آدمی کا رہنا محال ہے۔ دس سے پچاس فی صدادویات کی کمپنیوں کا بلا جواز اضافہ غریب عوام کے لیے نئی پریشانی ہے۔ طب کے شعبہ میں جعلی سازی کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ریاست شہریوں کو بنیادی سہولتیں اور عدالتیں انصاف فراہم کرنے کی ذمہ دا ہیں۔
حکومت کو اس پر ایکشن لینا چاہیے۔ جعلی اور غیر معیاری ادویات تیار کرنے والے مافیا کا کون ذمہ دار ہے۔ حکومت ترقیاتی کاموں پر تو جہ دے رہی ہے مگر لوگوں کے پاس روز گار نہیں ہیں۔ رہنے کے لیے مکان نہیں ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ لوگ آج غربت اور مہنگائی کی وجہ سے خود کشیاں کر رہے ہیں۔ دودن پہلے کی خبر ہے کہ ایک آدمی غربت سے تنگ آکر اپنا رکشہ جلا دیا۔اس لیے حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔ آج حکمرانو ں کے وعدے کہاں ہیں۔الیکشن سے پہلے تو سیاست دان عوام کو سر سبز باغ دکھاتے ہیں۔ٹیوی کی سکرین پر دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں۔ہمارا نام بدل لینا چھ ماہ کے اندر لوڈ شیڈنگ ختم کر دیں گے۔اور جب الیکشن میںجیت جاتے ہیں۔پھر اقتدار کے نشے میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔حتیٰ کہ غریب آدمی سے بات کرنا بھی ناگوار سمجھتے ہیں۔ان کو غریب کی کوئی فکر نہیں ہے۔یہ اپنے شاہانہ پروٹوکول کے چکروں میں ہیں۔
Fuel Price-Hike
ایک عام آدمی تو دو وقت کی پر مجبور ہے۔مگر حکومت کی سوچ اس سے قاصر ہے۔آج مہنگائی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے۔ آپ سبزیوں اور پھلوں کے ریٹ دیکھیں غریب آدمی تو صرف سونگھ ہی سکتا ہے۔اس کے بعد ٹرانسپورٹ کے کرایوں کا کیا حال ہے۔قارئین آپ غور کریں کہ راولپنڈی سے لاہور کا ڈیوو بس کا تیرہ سو روپے کرایہ ہے۔ابھی تو پٹرول بھی سستا ہے۔اور ناظرین میں یہ بات دعویٰ سے کہہ رہا ہوں جو پٹرول کی قیمت عالمی منڈیوں میں ہے ۔اس قیمت پر ہمارے ملک میں پٹرول دستیاب نہیں ہے۔سستے پٹرول کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچے ہیں۔اس کا فائدہ صرف حکومت کے کھاتے میں جاتا ہے۔مگر ہم تو دعا تک محروم ہیں۔دل سے ایک ہوک اٹھتی ہے۔۔۔۔ایک حسرت ہے۔۔۔۔ایک آرزوہے۔۔۔۔۔۔۔اب یہ چال بدلنا چاہیے۔۔۔۔۔غریبوں کی قسمت بھی بدلنی چاہیے۔۔۔۔۔۔۔یہ نطام۔۔۔۔۔یہ سسٹم یہ ماحول چینج ہونا چاہیے۔
جمہوریت کے ثمرات ایک عام آدمی تک پہنچنے چاہیں۔مگر غورو فکر کی بات یہ ہے کہ عوام کی اکثریت نے اس انداز سے کبھی سوچا ہی نہیں کہ جو ہر انتخابات میں آز مائے ہوئے لوگوں کودوبارہ ووٹ دیتے ہیں۔ اور پھر اس ریزلیٹ وہی ہے جو آج ہمارے سامنے ہے۔کاش ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو ایک غریب آدمی کی فکر ہوتی تو آج یہ حال نہ ہوتا۔(خدارا)عوام کی بنیادی ضروریات سڑکیں ،پل اور میٹرو جیسے منصوبے نہیں ہیں۔قارئین عوام کو روٹی ،مکان اور کپڑے اور بنیادی روز مرہ کی چیزیں چاہیے۔اس لیے حکمرانوں کا یہ فرض ہے کہ عوام کو ریلیف دینا چاہیے۔اور جب تک یہ تمام چیزیںٹھیک نہ ہوں تو لوگوں کے شکوے ہوتے رہیں گے۔ جو آج ہمارے ملک میں مہنگائی کا جن ہے ۔اس سے عام آدمی کا جینا محال ہے۔ آخر میں میری حکمرانوں سے التجاء ہے۔کہ (خدارا)آپ ملک میں سڑکیں،پل اور میٹرو جیسے منصوبوں کے جال بچھائیں مگر لوگوں کی دوسری عام ضروریات زندگی کابھی خیال رکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔