تحریر : شہزاد سلیم عباسی جرائم کی دنیا میں قدم رکھنے والوں کو آج تک کوئی نہ روک پایا نہ ٹھیک طرح سے پہچان پایایہ مجرم پاکستان کے ہر صوبے، ضلع، قصبے اور گائوں کے اندر موجو دہیں جو لوگوں کے لئے پاکستان بننے سے لیکرآج تک وبال جان بنیں ہوئے ہیں اورانہیں راہِ راست پر لانا ناممکن سا لگتا ہے۔ بہتر حل یہ ہے کہ ظلم کے شکارلوگوں کو دلاسا دیکر انکاغم ہلکا کیا جائے اور کچھ قانونی چارہ جوئی کر کے انکی ذہنی حالت کو بہتر بنایا جائے۔
پاکستان میں بسنے والے لوگوں کے لئے صنفی مسائل میں جبری شادی،غیرت کے نام پر قتل،سٹریٹ چلڈرن ،بڑھتی ہوئی آبادی،صحت،تعلیم، چائلڈ لیبر،نسلی اور لسانی مسائل بڑا چیلنج ہیںاورہماری مملکت خداداد میں 1 ملین سے زائد لوگ مدتوں سے مدتوں تک کے لئے غلام ابن غلام کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انسانی حقوق کی وزارت 1995 – 96 میں بے نظیر بھٹو نے بنائی لیکن 2009 میںپی پی حکومت انسانی حقوق کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہوگئیں اورایسے حقائق سامنے آئے کہ دل دہل گئے۔10,000 سے زائد لوگ 2009 میں غیرت کے نام پر قتل کی بھینٹ چڑھے۔ ایک ہزار سے زائدتیزاب سے متاثر ہوئے۔ تقریباََ بارہ عورتیں روزانہ قتل ہوئیں۔ہزاروں مردو ں اور عورتوں کیساتھ غیر اخلاقی واقعات ہوئے۔36,000 کے قریب بچے بیچ دیے گئے۔ 2009 میںیو این کی رپورٹ کیمطابق صرف کراچی میں 30,000 سے زائد بچوں کو بھکاری، نشے کا عادی، غلام یا غلط کاری پر لگا دیا گیا اور20,000 سے زائد لوگ فرقہ پرستی میں مارے گئے۔
ہر جر م اور اصلاح کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے جہاں جرم قبول والے کی اصلاح کا سامان ہو تا ہے وہاں مظلوم کی دادرسی بھی کیجاتی ہے، اول الذکر دونوں باتیں بغیر اداروں کے عملاََ ناممکن ہیں ۔وزارت قانون وانصاف اور انسانی حقوق نے فیڈرل سروسز ٹریبونل اسلام آباد میں انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے قانونی مشورے حاصل کرنے کے لیے ایک ہیلپ لائن بنائی ہے ۔ 1099 (ہیلپ لائن)کے چار ہندسوں نے لانچ ہوتے ہی اپنی اہمیت کو معاشرے کی ضرورت بنا دیا ہے۔وزارت قانون وانصاف او ر انسانی حقوق کے تحت ہیومن رائٹس ونگ اور احتساب عدالتوں سمیت 20 ادارے ہیں جو انسانی حقوق اور اسکی تکریم کی بات کرتے ہیں لیکن ان تمام اداروں کے ہوتے ہوئے بھی ہمیں ہمیشہ مزید اداروں کی ضرورت ہوتی ہے جو بڑھتی ہوئی آبادی کیصورت میں جرائم کے اضافے کو کنٹرول کرنے میں مدد دیں۔
Shahzad Saleem Abbasi
1099 (ہیلپ لائن) کا مقصد انسانی حقوق کی پامالی پر قانونی چارہ گوئی کے لئے قانونی مشورے دینا، متاثرہ شخص اور اسکی فیملی کو متعلقہ ادارے تک پہنچانا ،انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے ہر لیگل سہارا فراہم کرنا، انسانی حقوق کے اداروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مختلف فلاحی تنظیموں کیساتھ ملکر انسانی حقوق کے لئے آوازبلند کرنا شامل ہے۔ انتہائی قلیل عرصہ میں فیڈرل سروسز ٹریبونل کی ہیلپ لائن1099 کو ملک بھر سے ہزاروں کیس موصول ہوئے اس ضمن میں انہیں 11,000 سے زائد کالیں بھی موصول ہوئیں ان میں سے ایک مناسب تعداد کو لیگل ایڈوائس کیساتھ ساتھ متعلقہ اداروں کو مختلف کیس بھی ریفر کیے گئے تاکہ جلد سے جلد معاشرے میں ظلم، نا انصافی،نا ہمواری ، وڈیرہ شاہی اورنام نہاد جرگہ شاہی کے نظام سے تنگ لوگوں کے دکھوں کا مداوا کیا جا سکا۔
1099 (ہیلپ لائن) میںہیومن رائٹس مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (HRMIS ) کے تحت تمام کیسز اور کالز کا ڈیٹا مکمل طور پر خفیہ اور محفوظ رکھا جاتا ہے ۔کو ن کون لوگ اس ہیلپ لائن سے فائدہ اٹھا سکتے ہیںان میں وہ لوگ شامل ہیں جنہیں مندرجہ ذیل شکایات کا سامنا ہوں (1 ) جن لوگوں کو انسانی حقوق میں کوتاہی کا سامنا ہو۔ (2 )اگر کہیں بچوں کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہو۔(3) اگر کہیںہراسان کرنے کا واقعہ ہو ۔ (4) اگر کہیں گھریلو حق تلفی کا معاملہ ہو ۔(4) اگر کہیںصنفی بنیادوں پر حقوق کی پامالی ہو۔ (5) اگر کہیں جسمانی سزا کا معاملہ ہو(6) اغواء کا معاملہ ہو۔(7) قتل کا معاملہ ہو۔ (8)اقلیتی حقوق کی خلاف ورزی ہو۔ ) 9) لاپتہ افراد کا معاملہ ہو۔(10 )پولیس یا جیل سے متعلقہ مسئلہ ہو۔(11 )ریپ کیس ہو۔(12)لسانی بنیادوں پر حقوق کے مسائل کا سامنا ہو۔(13) خود کشی کا واقعہ ہو۔
1099 نے تو ان تمام لوگوں کی شکایات کا ازالہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے لیکن اطلاعاََ عرض ہے کہ ہیلپ لائن کو دو بہت ہی سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے ایک تو یہ کہ اس میں ہزاروں لوگ شرارت کے طور پر فون کر کے مختلف کھانے آڈر کرتے ہیں اور ٹائم پاس کرنے کا کہتے ہیں دوسرا یہ کہ اس میںتقریباََ 15 فیصد لوگ نوکری حاصل کرنے کے لیے فون کرتے ہیں جو کہ بلکل ہی غیر متعلقہ ہے کیونکہ اس ہیلپ لائن کا بنیادی مقصد کسی بھی قسم کے انسانی حقوق کی حق تلفی و پامالی کی صور ت میں قانونی مشورے دینا اور ہرممکن تعاون فراہم کرنا ہے نہ کہ کسی کو روزگار فراہم کرنا ہے۔
Shahzad Saleem Abbasi
اس ہیلپ لائن کو مستقل بنیادوں پر معیاری کام کے لیے چند چیزوں کی ضرورت ہے لہذافیڈرل سروسز ٹریبونل کو چاہیے کہ وہ 1099کی ویب سائٹ جلد سے جلد لانچ کرے۔ اپنے سٹاف کو جدید قانونی ، فنی اور انتظامی محاذوں پر تربیت دینے کیساتھ ساتھ سٹاف کی تعداد بھی بڑھائے کیونکہ پاکستان بھر کی میگا ہیلپ لائن کے لیے صرف 14 افراد کا سٹاف ناکافی ہے ،،کم از کم 2 سے3 سائیکالوجسٹ بھرتی کرے کیونکہ پاکستان میں ایک بڑی تعداد نفسیاتی امراض کا شکار ہوتی ہے اسلیے نفسیاتی ماہرین کا لائن پر موجود ہونا انتہائی ضروری ہے۔
ان فلاحی اداروں کیساتھ روابط بڑھائیں جو اس ادارے کے مختلف مالی و انتظامی معاملات میں ممد و معاون ثابت ہوں کیونکہ بہت سے فلاحی ادارے غریبوں اور بے آسرا لوگوں کی مالی معاونت کرتے ہیں تو اگر اس ہیلپ لائن پر کوئی مالی تعاون کی کال آتی ہے تو اسے کسی فلاحی ادارے کی طرف ریفر کرنا چاہیے۔ہسپتال ، تھانے اور تمام ایمرجنسی اداروں کی سروس24 گھنٹے ہوتی ہے لیکن اس ہیلپ لائن کے اوقات کار9-4 ہیں جو کہ انتہائی کم وقت ہے اس ہیلپ لائن کو یاتو 24 گھنٹے چلایا جائے یا پھر کم از کم 9-12 تک کالیں لینے کا وقت رکھا جائے کیونکہ پریشان افراد تو رات میں جاگتے ہیں۔
پاکستان میں اپنی طرز کی منفرد ہیلپ لائن کو اسلام آباد سے فیڈرل سروسز کے نمائندہ محمد کاشف کمال مکمل لگن اور تندہی کیساتھ چلا رہے ہیں ۔یقیناََفیڈرل گورنمنٹ کا یہ اقدام قابل تحسین ہے کہ جتنے زیادہ ادارے بنیں گے اتنا ہی عوام کو ریلیف ملے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس 1099کو لوگوں کے لیے قابل بھروسہ بنائیں جسکے لیے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر پبلسٹی وقت کی اشد ضرورت ہے۔