یرقان، پیلیا، جونڈس، ہیپا ٹائٹس اے وغیرہ وغیرہ، ایک ہی مرض کے مختلف نام ہیں۔ یہ کوئی نئی بیماری نہیں ہے۔ اس بیماری کا وجود مصری تہذیب میں بھی مذکور ہے۔ یونانی دیو مالائی کہانیوں میں بھی اس بیماری کا ذکر آیا ہے۔ ہندوئوں کی مقدس کتاب وید میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔ 200 سال قبل مسیح میں لکھی گئی ،چرک نگھٹو“ میں چرک رشی نے بھی اس مرض پر بحث کی ہے اور تدارک کے لیے ”لوہ مانڈو“ پلانے کا مشورہ دیا ہے۔ یعنی ان جڑی بوٹیوں کا عرق جو ”لوہ“ یعنی لوہا (Iron) پیدا کرتی ہیں۔
ہیپا ٹائٹس جگر کی سوزش کو کہتے ہیں اور یہ سوزش کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ اس کے پیدا ہونے کے عوامل بھی بہت سارے ہیں لیکن سب سے اہم وجہ ہے کہ ہیپا ٹائٹس کے وائرس کا جگر پر حملہ۔ اس حملے سے انسان ہیپا ٹائٹس اے یا بی یا سی یا ڈی یا پھر ای کا شکار ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ کم علمی کے باعث ہیپا ٹائٹس اے کو معمولی بیماری سمجھتے ہیں اور اسے جھاڑ پھونک کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کچھ لوگ تو اس افواہ پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ یرقان یعنی ہیپاٹائٹس اے کا صرف ایک علاج ہے کہ اسے جھاڑنے والا جھاڑے۔ شعبدہ باز اس کم علمی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انگلی پر معمولی سا زعفرانی رنگ لگا کر پیتل کی پلیٹ میں چونے کا پانی پھیلا لیتے ہیں پھر اس پلیٹ میں مریض کو ہاتھ رکھنے کا کہتے ہیں مریض جب ہاتھ رکھ لیتا ہے تو عامل چلو میں پانی لے کر مریض کی کہنی سے کلائی تک دھوتے جاتے ہیں۔ زعفرانی رنگ کی وجہ سے پانی کا رنگ بدلتا رہتا ہے۔ مریض یہ سمجھتا ہے کہ اس کے اندر کا پیلیا نکل رہا ہے اور وہ نفسیاتی طور پر خود کو صحت مند سمجھنے لگتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر انسان کے اندر ایک ڈاکٹر چھپا ہوتا ہے یعنی اس کی مدافعتی قوت۔ وہ اندر ہی اندر اپنا کام شروع کردیتی ہے اور جسم کی قوت مدافعت جگر میں پھیلے وائرس کو شکست دے دیتی ہے۔
Hepatitis virus
پانی میں اگر آلودگی ہوئی یا کسی بھی ذریعہ سے جراثیم سرایت کر گیا یا پھر غذا میں شامل ہو گیا تو پھر یہ سمجھ لیں کہ متاثرہ شخص کو یرقان ہونا ہی ہونا ہے
یرقان کی علامات : متلی، قے شروع ہو جائے گی۔ دست لگ جائیں گے، پیشاب کی رنگت گہرا زرد ہوجائے گی۔ آنکھوں کی سفیدی پر پیلا پن غالب آ جائے گا۔ جلد پر بھی پیلا پن نظر آنے لگے گا۔ تھکن اور گراوٹ کا احساس شدت اختیار کرلے گا۔ بھوک میں کمی آ جائے گی اور اگر زبردستی کھلایا جائے تو متلی بھی شروع ہو سکتی ہے۔ اب آپ خود غور کریں کہ کیا ان حالات میں ڈاکٹر کی بجائے جھاڑ پھونک کرنے والوں سے رجوع کرنا بہتر ہے جب کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار ہمارے سامنے ہیں۔
ریاست ہائے امریکا میں ہیپا ٹائٹس اے سے متاثرہ افراد میں ١٠ فیصد سے ٣٠ فیصد افراد کو سنگین پیچیدگیوں کے باعث اسپتال میں داخلے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
برطانیہ میں ہیپا ٹائٹس اے سے متاثرہ ١٠ فیصد سے ٢٠ فیصد جگر کے فیل ہونے جیسی سنگین پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ فرانس میں ہیپا ٹائٹس اے بچوں میں جگر کے فیل ہونے کے ٢٣ فیصد واقعات کا باعث ہے۔ فرانس میںمنتقلی جگر کے ١٠ فیصد کیسز کے باعث ہیپا ٹائٹس اے کے وائرس ہیں۔ ارجنٹائن میں ہیپا ٹائٹس اے میں مبتلا جگر کی شدید سوزش کا شکار ہونے والے ٢٠ فیصد مریضوں کو جگر کی منتقلی کا آپریشن کروانا پڑتا ہے۔
آغا خان اسپتال کراچی میں ایک جائزے کے مطابق ١٩٩١ءسے ١٩٩٨ءتک کے عرصے میں ہیپا ٹائٹس اے میں مبتلا ٢٧٣٥ افراد بغرض علاج لائے گئے۔ ان میں ٢٣٢ افراد کو پیچیدگیوں کے باعث اسپتال میں داخلے پر مجبور ہونا پڑا۔ مزید برآں ان داخل شدہ مریضوں میں سے ٣٠ مریض جگر کی کارکردگی متاثر ہونے یا فیل ہونے جیسی سنگین پیچیدگیوں میں مبتلا پائے گئے۔ مذکورہ جائزے میں اس بات کی سفارش کی گئی ہے کہ ہیپاٹائٹس اے سے پیدا شدہ پیچیدگیوں اور اموات سے بچنے کے لیے حفاظتی ٹیکوں کا لگوانا انتہائی اہم ہے۔