دنیا بھر میں 28 جولائی ہیپاٹائٹس ڈے کے حوالے سے منایا جاتا ہے ۔۔ پہلا عالمی ہیپا ٹائٹس دے 2008میں منعقد ہوا جس کا مقصد تھا کہ عالمی سطح پر اس مہلک مرض کی آگاہی اور اسکے بچائو کے طریقوں پر غور کیا جائے۔ 1963میں Dr. Baruch Blumberyنے ہیپاٹائٹس کی تشخیص کی پھر ان کی ٹیم نے ملکر ہیپاٹائٹس A,B,Cکی تشخیص کی اور خوش قسمتی سے ہیپاٹائٹسA,Bکی ویکسین تیار کر لی مگر بدقسمتی سے Cکی ویکسین تیار نہ کی جا سکی۔ 1976میں Dr. Blumberyکو ہیپاٹائٹس بی کی تشخیص پر نوبل پرائز بھی دیا گیا۔ ان کے اس شاندار کارنامے کی بدولت orWorld Health Assmly نے ہیپاٹائٹس ڈے کی تاریخ 19مئی سے تبدیل کرکے 28جولائی مقرر کر دی۔ Dr. Blumberyکی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کی یوم پیدائش کے دن 28 جولائی کو ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے قرار دیا گیا۔
چونکہ 28جولائی ہیپاٹائٹس ڈے کے حوالے سے منایا جاتا ہے جسکا مقصد لوگوں میں اس بیماری کی آگاہی اجاگر کرنا ہے کہ یہ بیماری کیسے پھیلتی ہے اور اس سے بچنے کے لیے کیا کیا تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں ۔ ہیپاٹائٹس سی ایک جان لیوا مرض ہے جو کہ کالے یرقان کی ایک قسم ہے اکثر لوگوں کو اسکا علم نہیں کہ یہ مہلک مرض پاکستان میں ایک وائرس کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ مہلک مرض جگر سے متعلقہ مرض ہے اس بیماری سے متاثرہ جگر میں ورم آجاتا ہے اور جگر ٹھیک طریقے سے کام نہیں کرتا ہے۔ ہیپاٹائٹس سی جیسے میں پہلے ہی بیان کر چکی ہوں ایک وائرس قسم کا جراثیم ہے جو بالکل آسانی سے متاثرہ شخص کے حامل شخص سے خون کے تبادلے سے پھیل سکتا ہے۔
بیشک یہ بیماری ایک مہلک بیماری ہے مگر چھوٹی چھوٹی احتیاطی تدابیر سے اس بیماری سے بچنا ممکن ہے ۔ سب سے پہلے ان وجوہات کا واضح کرنا بے حد لازم ہے جن کی بنا پر یہ مرض پھیلتا ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں پڑھا لکھا طبقہ بھی چھوٹی چھوٹی غلطیاں کر بیٹھتا ہے جس سے بعد میں ایسی بیماریوں سے دوچار ہو جاتا ہے۔ ہیپاٹائٹس سی دوائوں کی سوئیوں کے مشترکہ استعمال سے پھیل سکتا ہے ایسی سوئی جو بار بار استعمال کی جائے ہیپاٹائٹس سی پھیلانے کی وجہ بنتی ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ مریض سے جنسی تعلق کی وجہ سے یہ بیماری بلاشبہ تیزی سے پھیلتی ہے۔ ۔متاثرہ ماں سے پیدا ہونیوالے بچے کو بھی ہیپاٹائٹس سی کا مرض لاحق ہو سکتا ہے۔
آج کل ماڈرن دور میں جسم کو کھدورنے اور نقش و نگار بنوانے کا فیشن عام ہو چکا ہے ۔خاص طور پر یہ نوجوان نسل اس عمل میں پیش پیش ہے جو شوقیہ ایسے کام کرتے ہیں ۔ وہ اس حقیقت سے آشنا نہیں ہوتے کہ کھدائی کیلئے گندے اور غیر معیاری اوزار استعمال کیے جاتے ہیں یہی نہیں بلکہ یہ اوزار کئی کئی بار استعمال کیے جاتے ہیں ۔ اس گندگی سے ہیپاٹائٹس سی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ حجام کے پاس جانیوالے نوجوان زیادہ تر اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ حجام لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیا بلیڈ استعمال کرنے سے گریز کرتا ہے۔ ایک دوسرے کا ٹوتھ برش استعمال کرنے سے ، ریزر یا بلیڈ استعمال کرنے سے ہیپاٹائٹس سی کا خطرہ ہے ۔ ٹوتھ برش سے مجھے ایک بات یاد آئی جو یہاں تحریر کرنا چاہوں گی۔
Injection
آج کی نوجوان مگر جذباتی نسل اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ ایک دوسرے کا ٹوتھ برش استعمال کرنے سے پیار محبت کا اظہار صیح معنوں میں ہوتا ہے ۔۔۔ یہ بات افسانوی دنیا میں تو چل سکتی ہے مگر حقیقی دنیا میں اسکو ہضم نہیں کیا جا سکتا ۔ گلی محلوں میں بیٹھے جعلی ڈاکٹر جو موت کے سوداگر ہوتے ہیں ۔ جو فوری آرام مہیا کرنے کے لیے انجکشن لگاتے ہیں بعض اوقات ایک ہی سرنج کئی مریضو ں کے لیے استعمال کرتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی وہ ایک خطرہ کو دعوت دے رہے ہیں۔
زندگی بہت بڑی نعمت ہے اسکو اچھے طریقے سے گزارنا اور اسکی خفاطت کرنا سب کا فرض ہے ۔ ڈاکٹر چونکہ ایک فرشتہ صفت انسان مان لیا گیا ہے تو ہم سب اسی پہ کامل یقین رکھتے ہیں دوائیوں کا بے دریغ استعمال بیماری کی صیح تشخیص نہ ہونا ہماری کمزوریوں میں شامل ہو چکا ہے۔ آجکل کے ڈاکٹرز کے پاس ڈگریوں کی بھرمار ہے مگر تجربہ نام کی کوئی چیز نہیں ان کی نا اہلی کی بناء پر قیمتی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے ۔ ڈاکٹروں کا فرض ہے کہ وہ ہر شہری کو ہر بیماری سے متعلق ضروری معلومات فراہم کریں۔ ہیپاٹائٹس کے مرض سے بچنے کے لیے ضروری احتیاطی تدابیر بھی عام لوگوں تک پہنچائیں۔ ہمیں چاہیے کہ دوسروں کی استعمال شدہ سرنج استعمال نہ کریں۔
اس کے علاوہ دوسروں کے خون کو ہاتھ لگانے سے پہلے دستانے پہن لینا چاہیے ۔ کیونکہ یہ مرض خون کی منتقلی سے ہی پھیلتا ہے ۔ اس کے علاوہ سب سے ضروری ہدایت یہ ہے کہ اگر کسی متاثرہ شخص کو اپنے مرض کا علم ہو تو اسے چاہیے کہ کسی دوسرے کو عطیہ دینے سے گریز کرے کیونکہ اگلا شخص بھی اس سے متاثر ہو سکتا ہے۔
Pakistan
انسانیت کے ناطے ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ بیماری کوئی بھی ہو اس سے بچنے کیلئے موثر اقدامات کرنے میں پیش پیش ہوں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹرز کو بھی اپنی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ایمان داری سے اپنے فرائض سر انجام دینا چاہیے اور صحت مند پاکستان کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہیے۔