تحریر : محمد جواد خان انگریز حکومت کے 65سال قبل جانے کے باوجود جدھر اور انگریزی رسومات برقرار ہیں ادھر ہی صاحب کے دروازے کے باہر رکھی جانے والی کرسی کے اوپر ہاتھ باندھے چپڑاسی جو کہ ہر صاحب کے آنے پر کھڑے ہو کر سلام کرنا اور اپنے سلام کی واپسی پر کوئی بھی جواب نہ ملنا بھی ابھی تک ویسے کے ویسے ہی موجود ہے۔چپڑاسی لفظ کو ہم نے اس قدر گھٹیا بنایا ہوا ہے کہ ہر کوئی اس پیشہ کو نفرت سے دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بطور طعنہ استعمال کرتا ہے۔ چپڑاسی کی ڈیوٹی اور اس کے فرائض کو اگر دیکھا جائے تو شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو کہ جو اس پیشہ میں آنا چاہتا ہو مگر بے روزگاری و مجبوری کے ساتھ بڑھتی ہو ئی غربت و مہنگائی کو دیکھ کر آج بی اے پاس بھی اس پوسٹ کے لیے اپنی درخواست جمع کروا دیتے ہیں۔ یہ ملازمت یا پیشہ برا نہیں مگر ہم نے اس پیشہ کے افراد کو اس قدر نظر انداز کرتے ہیں کہ وہ ہر چند مرنے کی آرزو کرتا ہو گا۔
اگر یہ ہی چپڑاسی کسی بھی سرکاری یا نیم سرکاری آفس سے ختم کر دیئے جائیں تو تقریباََ سب ہی افراد کو جان کے لالے پڑ جائیں، ہمارے چپڑاسی بھائی کی جاب اسقدر سخت ہوتی ہے کہ اس کو صبح سب سے پہلے آفس آنا پڑتا ہے اور پھر سارا دن چائے، قہوہ، کھانا، مہمان نوازی، پانی، بازار ،ڈاک اور کبھی کبھی تو افسران بالا کے ذاتی کام بھی کرنے کے بعد اس کو حصے میں ملتی ہے تو تھوڑی سے شاباش اور اگر بذات انسان ہونے کے کوئی تھوڑی سی کسر رہ جائے تو اتنی شابا شی نہیں ملتی جس قدر اس کو بے عزتی کا سا منا کرنا پڑ جاتا ہے، اوپر سے اس بے چارے کی تنخواہ سب سے کم ہوتی ہے اور ساتھ ہی جب وہ یہ سارے کام سرانجام دے چکا ہوتا ہے تو آخر میں سب کے بعد اسی نے جانا ہوتا ہے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ ہر عہدے کا شخص کام کرنے سے انکار اس بہانے کے ساتھ کر سکتا ہے کہ یہ ڈیوٹی میری نہیں مگر چپڑاسی ایک ایسی ڈیوٹی ہم نے بنا دی ہے کہ بیچارہ ہر اس آدمی کے آگے بھاگتا ہے جس کے ہاتھ میںلاٹھی ہوتی ہے۔ اور ہم نے عزت کے طور پر یہ کہا ہوا ہیکہ کوئی بھی مسلمان سویپر کی آسامی کے لیے درخواست نہیں دے سکتا ، کیا یہ بات کبھی کسی نے نوٹ کی ہے کہ چپڑاسی اور سویپر میں فرق ہم نے کتنا چوڑا ہوا ہے۔ کیایہ چپڑاسی اعلیٰ درجے کا مسلمان نہیں ہے۔۔۔؟ کیا اس کا قصور اتنا ہے کہ اس کی تعلیم کم ہے ۔۔۔؟ یا اس کا قصور اتنا ہے کہ وہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر چپڑاسی بن گیا۔۔۔۔؟ہم مسلمان ویسے تو بڑی تنقید کرتے ہیں کہ ہندو مذہب کے اندر ذات پات کی تقسیم کے بدولت نچلے طبقے شودر کی کوئی عزت نہیں ویسے ہی ہم ان چپڑاسیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔
Inflation
ہم نے ان بے چاروں کو قدر تند و تیز لہجے کے ساتھ ایسا بنا دیا ہے کہ بے چارہ آفس تو دور مسجد میں نماز کے لیے بھی اگر اپنے صاحب کے ساتھ کھڑا ہونا پڑ جائے تو بے چارے کا سارا دھیان اسی بات پر ہوتا ہیکہ کہیں صاحب جھڑک ہی نہ دے، ہم نے اپنے چپڑاسی کے دل میں اس قدر خوف ڈال دیا ہیکہ اس کو ہر وقت اپنی بے عزتی کا خوف رہتا ہے۔چپڑاسی کو بیوی اور ہر قسم کے صاحب کی چھڑک سننے کو ملتی ہے ، ساتھ میں دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی ، سال بھر بجٹ کا انتظار کرتے کرتے آخر میں اونٹ کے منہ میں زیرہ برابر اضافہ ، بچوں کی فرمائشیں ، مکان کا کرایہ ، سا ئیکل کو سنبھالنے کی پریشانی اور ساری عمر چپڑاسی ہی بنے رہنا کس قدر غم و دکھ ہیں اس کی زندگی میں اوراوپر سے اس بے چارے کوتو کوئی ایسا شخص نہیں ملتا کہ جس کے اوپر وہ اپنا غصہ نکال سکے۔
ادھر ایک اور بات کہ ہم ان سے کام تو ایسے لیتے ہیں جیسے کے کوئی بھی شخص گدھے سے لیتا ہے، لیکن ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ کسان بھی اپنے گدھے کے آگے تازہ کھاس ڈالتا ہے، چھائوں میں بیٹھاتا ہے، چنے کھلاتا ہے، اور باقاعدہ گدی بنا کر اس کے اوپر بوجھ لادتا ہے مگر ہم اس کے بالکل برعکس۔۔۔سارا دن گدھے کی طرح کام کرنے کے بعد بھی اگر وہ آرام کرنے کی نیت سے بیٹھ جائے تو اس کی شامت آجاتی ہے۔ معمولی معمولی کام اس کے لیے نکا ل دیئے جاتے ہیں اور ساتھ میں نوکری سے نکالے جانے کی دھمکی دے کر اس کو مزید ذلیل کیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی ، کالج، سکول یا کسی پرائیوٹ ادارے کا چپڑاسی ہو گا تو کبھی اچھے کپڑے نہیں پہن سکے گا، ہر استاد اور ہر بچے کی ہمہ تن حکم سن کر بجا لائے گا۔
اگرچہ کہ وہ کسی کا ذاتی کام ہو یا سرکاری اور اوپر سے والدین کی ڈانٹ ڈپٹ علیحدہ سے ملے گی،اور جب تنخواہ کی باری آتی ہے تو اکائونٹس سٹاف رہی سہی کسر پوری کر دے گااور اس قدر ذلیل کر کے تنخواہ دے گا کہ وہ کئی دفعہ نوکری چھوڑنے کا ارداہ کرے گا مگرحالات کا مارا چھوڑ نہیں سکتا،اگر کبھی بھی وہ نئے کپڑے پہنے گا تو ہر کوئی اس پر انگلی اُٹھا ئے گا کہ یہ چپڑاسی ہو کر ایسے شان میں آتا ہے۔۔۔۔ اس کا فیشن دیکھو۔۔۔۔ اس کے کپڑے دیکھو۔۔۔۔ گرمی ہو یا سردی، ہڑتا ل ہو یا کہ امن، فنکشن ہو یا تہوار ہر بندہ خوشی کے عالم میں ہوتا ہے کہ دن چھٹی کے آگئے ہیں مگر اس طبقے کو ہم نے ان تہواروں پر بھی معاف نہیں کرنا ہوتا بلکہ ان کے لیے ان دنوںمیں بھی کوئی نہ کوئی کام نکالا ہوتا ہے،ہر بندہ چھٹی کے مزے میں ہوتا ہے اور یہ اپنی ڈیوٹی کی پریشانی میں۔
Chaprasi
چپڑاسی کے لیے سب کچھ اور ہر کسی کی طرف سے نفرت ملنے کے باوجود بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چپڑاسی آدھے بادشاہ ہوتے ہیں، صاحب ِ اقتدار کے علاوہ اگر کسی کا کوئی حکم اور آرڈر چلتا ہے تو وہ صاحب کا چپڑاسی ہے ، ہندکو میں ایک کہاوت ہے کہ ماں نے اپنے بیٹے کو دعا دی” جا بیٹاترے نوکرا ںدے وی چاکرہونڑ ” مطلب کے بیٹا تم کو اتنی ترقیاں ملیں کہ تیرے نوکروں کے بھی نوکر ہو۔ بس وہی بات ہے کہ بعد افسران بالا کے چپڑاسی بھی سو سو نخرے اور حیلے بہانے کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ چپڑاسی ہر اس کام کو صاحب سے کروانے کی طاقت رکھتا ہے کہ جو کہ کسی کے بھی بس کی بات نہیں ہوتی، جس قدر ذلت کی نوکری کرنی پڑتی ہے اس کے برعکس بعد لوگ مانتے ہیں کہ صاحب کو اس کی من پسند چیز یابا ت کہہ کر اپنا کام کروا سکتا ہے۔
بعض اداروں میں تو ایسے چپڑاسی بھی دیکھیں ہیں کہ جن کے اوپر ان کے صاحب اسقدر بھروسہ کرتے ہیں اور اپنے چپڑاسی کی بات کو حتمی سمجھ کر پورے سٹاف اور تمام افسران پر اس کو فوقیت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور بعض چپڑاسی تو اس قدر جدید ہو جاتے ہیں کہ اپنے صاحبان کے خاندان اور گھریلوں معاملات کی بھی مکمل انفارمیشن رکھتے ہیں اور ان کو اپنے صاحب کی اچھائیاں، برائیاں، فرمائشیں ، ضروریات اور طرزِ زندگی کا ان کے قریبی رشتہ داروں سے بھی زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ اگر افسران کو کوئی مسلئہ پیش آجائے یا ان کے گھر میں کسی قسم کا کوئی فنکشن وغیر ہ ہو تو یہ چپڑاسی اپنے صاحبان کے حمایتی بن کر مکمل وفاداری کا ثبوت دیتے ہیں۔
چپڑاسیوں کی بہت سی خوبیاں تو ہیں مگر سب سے اہم خوبی جو کہ مجھ کو انتہائی پسند اور دلچسپ لگتی ہے وہ ہے کہ چپڑاسیوں کا آپس میں مل بیٹھنا اور اپنے اپنے حالات و واقعات کو ایک دوسرے کے ساتھ اس انداز میں بیان کرنا کہ بعض اوقات تو کچھ واقعات سن کر انسان کو رشک آتا ہے اور کچھ کو افسوس ہوتا ہے۔ مگر ان کے واقعات کو اس قدر دلچسپی کے ساتھ سنا جاتا ہے کہ واقعی ایسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ انسان خود ان واقعات کو دیکھ رہا ہو۔
Relationship
بعض اوقات تو یہ ایک دوسرے کو تسلیاں دے رہے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے غم بانٹ رہے ہوتے ہیں اور ہمدردی ایسے جتا رہے ہوتے ہیںکہ ان سے بڑا ہمدرد ہی کوئی نہ ہو۔اور جب وہ اپنے رشتہ داروں ، محلے داروں یا پھر دوستوں سے ملتے ہیں تو ان کے بیان کردہ حالات سے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ کچھ بھی کر نے کی طاقت رکھتے ہیں اور ان کے پاس ایک مضبوط طاقت اور معاونت حاصل ہے۔ ویسے آخر میں ایک بات یہ کہ چپڑاسی لوگ ہوتے بڑے مذاقیہ موڈ اور دلچسپ افراد ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ چند منٹ کی محفل سے آپ کو پوری کمپنی کے حالات کے ساتھ ساتھ ملک کے بھی حالات سے آگاہی اسقدر ہو جائے گی کہ آپ خود پریشان ہو جائو گئے کہ کس قدر معلومات ہیں ان کے پاس، اور ادھر ایک بات بیان کرتا جائو ں کہ یہ لوگ آپ سے آپ کی انفارمیشن یا کسی بھی قسم کی معلومات اس نفیس اندا ز میں لیں گئے کہ وہ مثال سچ ہو جائے گی کہ “مکھن میں سے بال نکالنا”۔ اور آپ سے گفتگو کرتے کرتے آپکی پوری شخصیت کی عکس بندی بھی بڑی آسانی سے کر لیتے ہیں۔
ہمارے ہاں چپڑاسیوں سے کا م بذریعہ رعب کے کروانے کا رواج دن بدن عام ہوتا جارہا ہے ، جب کہ ان افراد سے کام کروانے کے مختلف انداز او رمختلف طریقے ہوتے ہیں۔کبھی آپ نے اپنے چپڑاسی کے ساتھ اچھے انداز اور میٹھے بول کے ساتھ گفتگو کی ہے۔۔۔؟ کیا آپ نے کبھی اپنے چپڑاسی کو ساتھ بیٹھا کر کھانے کی دعوت دی ہے۔۔۔؟ کیا کبھی آپ نے اپنے چپڑاسی کو کبھی پیسے دیتے ہوئے یہ بولا ہے کہ جائو اپنے بچوں کے لیے کچھ لے جانا۔۔۔۔؟ کبھی آپ نے اپنے چپڑاسی کا کسی بات پر شکریہ بولا ۔۔۔۔؟ یقینا بہت سے افراد کا جواب نفی میں ہی ہو گا اور بعض لوگ تو غصہ کی حالت میں یہ بھی بولتے ہیں کہ یہ تو انکا کام ہے، اور یہ بڑے موڈی اور مطلبی لوگ ہیں۔
جبکہ میں عرض کرنا چاہتا ہوںکہ یہ لوگ انتہائی پیار و محبت کرنے والے لوگ ہوتے ہیں ، دفتری کا م کرنا ان کی ڈیوٹی ہوتی ہے مگر ان کی حوصلہ افزائی اسی بات پر ہوتی ہے کہ آپ ان کو ہلکا سا Thank you بول دیں ، یقین مانیں کہ ان کے دل میں آپ کے لیے قدر پیدا ہو گی اور آپ کے ان الفاظ سے ایک ایسی کشش پیدا ہو گی کہ وہ آپ کی طرف رغبت کرنے کو زیادہ ترجیح دے گا، اس لیے اگر ان لوگوں کی عزت کی جائے اور پیار و محبت سے ان سے کام کروایا جائے تو یہ کام بھی کر لیں گئے اور تھکن کا اظہار بھی نہیں ہونے دیں گئے۔ اور ساتھ میں آپ کے لیے دعا گو بھی رہیں گئے ۔۔۔ایسے دعاگو کہ جن کی دعا آپ کی تقدیر کسی بھی وقت اور کسی بھی لمحے کہیں بھی بدل سکتی ہے، یاد رکھیں دل سے نکلی ہوئی دعا ہمیشہ اثر رکھتی ہے۔
Mohammad Jawad Khan
تحریر : محمد جواد خان mohammadjawadkhan77@gmail.com