اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی 74 بھرتیوں کو کالعدم قرار دیا ہے جن افراد کی بھرتیوں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ان میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرار بھی شامل ہیں۔
جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ان بھرتیوں سے متعلق دائر کی گئی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ان بھرتیوں سے متعلق جو ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے ان کو دیکھ کر یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ان بھرتیوں سے متعلق بنائی گئی انتظامی کمیٹی نے قواعد وضوابط کا خیال نہیں رکھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ سنہ 2011 سے ہونے والی ان بھرتیوں میں آئین کے آرٹیکل 209 کی خلاف ورزی کی گئی جو بھرتیوں سے متعلق دیے گئے قواعدو ضوابط سے متعلق ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعینات اسسٹنٹ رجسٹرار عثمان میر کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جو عدالت عالیہ میں تعینات ہونے سے پہلے ایک نجی بینک میں ملازم تھے اس کے علاوہ عامر عبدالمجید کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو ریڈیو پاکستان میں گریڈ چار میں ملازم تھے جبکہ اُنھیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں گریڈ سترہ میں اسسٹنٹ اکاونٹ افسر تعینات کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ قواعدو ضوابط سے ہٹ کر کی گئی بھرتیوں سے ادارے کے تشخص کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اس کے علاوہ عدلیہ پر سے لوگوں کا اعتماد بھی اُٹھ سکتا ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ مختلف عہدوں کے لیے من پسند افراد کو بھرتی کرنے کی پالیسی کو کسی طور پر بھی نہیں سراہا جاسکتا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ایک ماہ کے اندر اندر ان تمام بھرتیوں کا اشتہار دےکر بھرتیوں کا عمل مکمل کیا جائے۔