اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) اسلام آباد بار کونسل نے ہائی کورٹ حملہ کیس میں 34 وکلا کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کردیا۔
وائس چیئرمین اسلام آباد بار کونسل ذوالفقار علی عباسی نے میڈیا کو بتایا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ حملہ کیس میں وکلا کے خلاف 34 شکایات موصول ہوئیں جن کے خلاف لیگل پریکٹیشنر ایکٹ کے تحت کارروائی کریں گے، وکلا کو شکایت کی کاپی فراہم کردی ہے، انہیں سماعت کا حق دینے کے بعد حتمی فیصلہ ہوگا۔
یہ بات اسلام آباد بار کونسل کے عہدے داروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے ممبران سے ملاقات میں بتائی۔ ملاقات میں اسلام آباد بار کونسل کے وائس چیئرمین ذوالفقار علی عباسی، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی عادل قاضی، چیئرمین ڈسپلنری کمیٹی سید قمر حسین سبزواری بھی اس ملاقات میں شامل تھے۔
اس موقع پر جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر، جنرل سیکریٹری احتشام کیانی، سابق سیکریٹری فیاض محمود، سیکریٹری اطلاعات و نشریات حسین احمد چوہدری، افضل جاوید، نعیم احمد، حسیب احمد، ذیشان سید، رضوان قاضی، امبرین علی، فرح مہ جبین، ارفع فیروز اور مدثر لانگ موجود تھے۔
وائس چیئرمین اسلام آباد بار کونسل ذوالفقار علی عباسی نے کہا کہ رجسٹرار ہائی کورٹ کو فوکل پرسن مقرر کرنے کے لیے خط لکھا ہے، ہائی کورٹ حملہ کی مذمت کی، بطور ریگولیٹر بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں، بار کونسل ہفتہ کو باقاعدہ سماعت کا آغاز کرے گی۔
ذوالفقار عباسی نے مزید کہا کہ اسلام آباد بار کونسل کے قیام کے بعد کوئی بھی وکیل جعلی ڈگری کے ذریعے لائسنس حاصل نہیں کرسکتا، یہ تاثر درست نہیں کہ اسلام آباد بار کونسل نے ہائی کورٹ حملہ میں ملوث وکلا کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی۔
قاضی عادل نے گفتگو میں کہا کہ چیف جسٹس بلاک پر حملے کے فوری بعد تین سے چار وکلاء کے لائسنس معطل کر دیئے تھے، 2015ء سے 2021ء تک انرول ہونے والے تمام وکلا کی تعلیمی اسناد کی تصدیق کرالی ہیں، 20 عدالتیں گرا کر 30 نئی عدالتیں بنانا پڑی ہیں، زمینی حقائق کو پہلے ہی مدنظر رکھنا چاہیے تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر نے کہا کہ میڈیا حقائق عوام کے سامنے لاتا ہے بار اور بینچ دونوں ہمارے لیے مقدم ہیں، بار کونسل کو چاہیے کہ معلومات ہمارے ساتھ شئیر کیا کرے تاکہ میڈیا نمائندے بروقت اور درست اپنی خبر دے سکیں۔