اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) اسلام آباد ہائی کورٹ پر حملے کے بعد ملک کے کئی حلقوں میں یہ تاثر زور پکڑتا جارہا ہے کہ ملک کی وکلاء برادری ناقابل احتساب ہوتی جارہی ہے اور یہ کہ وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے۔
واضح رہے کہ کل پیر کو وکلا کے ایک گروپ نے مبینہ طور پراسلام آباد میں دفاتر کے انہدام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد کے دفتر اور ہائی کورٹ کی مختلف جگہوں پر مبینہ طور پر توڑ پھوڑ کی تھی۔ اس واقعے کے خلاف آج اسلام آباد میں ہائی کورٹ اورماتحت عدالتیں بند رہیں جب کہ ہائی کورٹ کے اطراف میں پولیس کی بھاری نفری کھڑی رہی۔کیا پاکستان نے کوئٹہ میں وکلاء کا قتل عام بھلا دیا؟
سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی ایڈوکیٹ نے اس واقعے کی تحقیقات کی عدالتی انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “پوری وکلا برادری کو اس بات پر تشویش ہے، یہاں تک کہ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ بھی اس پر پریشان ہیں اور انہوں نے فون پر مجھ سے اس مسئلے پر بات چیت بھی کی۔
میں اس واقعے کی مذمت کرتا ہوں لیکن میں وکلا کے چیمبرز کو بھی گرائے جانے کی مذمت کرتا ہوں۔ سی ڈی اے کو قانون کے مطابق پہلے انہیں نوٹس دینا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ وکلا تنظیموں کو بھی اپنے طور پر تحقیق کرنی چاہیے کہ ایسا واقعہ کیوں رونما ہوا۔
ڈیموکریٹک لائرز فورم اسلام آباد کے صدر نثار شاہ کا کہنا ہے کہ یہ حملہ بار کے کسی عہدیدار یا وکیل کی طرف سے نہیں ہوا، “بلکہ کچھ ایسے عناصر ہیں، جنہوں نے وکلا کو بدنام کرنے کے لئے یہ گھٹیا حرکت کی اور ہم اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں لیکن ہم بھول نہیں سکتے کہ کس طرح سی ڈی اے نے غیر قانونی طور پر وکلا کے چیمبرز گرائے، جس میں ان کا لاکھوں کا نقصان ہوا۔ اگر یہ چیمبرز غیر قانونی جگہ پر بھی تھے تو پھر بھی سی ڈی اے کو نوٹس پہلے دینا چاہیے تھا۔”
تاہم ملک کے کئی دوسرے حلقے وکلا برادری کی اس دلیل کو مناننے کے لئے تیار نہیں اور ان کے خیال میں وکلا خود قانون کی دھجیاں اڑاتے پھر رہے ہیں اور وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ معروف سیاست دان، سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے رہنما اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے کہ وکلا نے تمام حدود کو کراس کر دیا ہے۔ “پہلے مجسٹریٹ یا سول جج یا سیشن جج وغیرہ پر حملے ہوتے تھے۔ ایسے بھی واقعات ہوئے ہیں جہاں وکلا نے نہ صرف ججوں پر تشدد کیا ہے بلکہ ایک واقعے میں ایک جج کے کپڑے بھی اتروائے گئے۔ لیکن ان کا روکا نہیں گیا اور نوبت اب ہائی کورٹ تک آگئی۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر بار کے معیار کو بہتر کرنے کے لئے اقدامات نہیں کئے گئے تو ایسے واقعات اور ہوں گے۔ “وکالت کا لائسینس جاری کرنے کے لئے سخت پیمانے رکھنے چاہیے۔ کئی نام نہاد وکلا صرف ڈگری جیسے تیسے لے آتے ہیں لیکن نہ انہیں قانون پتہ ہے اور نہ وہ پریکٹس کرتے ہیں۔ وہ بار کی سیاست میں ملوث ہوکر ججوں سے من پسند فیصلے کروانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ بہت خطرناک رجحان ہے۔”
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لائرز موومنٹ کی کامیابی کے بعد وکلا برادری بہت اوپر چلی گئی ہے۔ “پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ بارکی سیاست میں سیاسی جماعتیں ملوث ہوگئی ہیں اور وہاں کے انتخابات عام انتخابات سے بھی بدتر ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے وکلا سیاست زدہ ہوگئے ہیں اور اس طرح کے رویے سامنے آرہے ہیں۔”وکلا اور ڈاکٹروں کے تنازعے کے پیچھے کون ہے؟
انہوں نے مطالبہ کیا کہ جو بھی اس واقعے میں ملوث ہے، اسے سخت سزا دی جائے۔ “اس واقعے کی مکمل جانچ ہونی چاہیے اور جو بھی وکیل اس میں ملوث ہو، اس کو سزا ملنی چاہیے۔ اس بات کو نہیں دیکھنا چاہیے کہ اس کا بار میں کیا عہدہ یا مرتبہ ہے۔”