کراچی (جیوڈیسک) سندھ ہائی کورٹ نے تھر پارکر میں قحط سالی کے ذمے دار 3 افسران کو 8 اپریل کو طلب کر لیا۔
سندھ ہائی کورٹ میں چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں تھر میں قحط سے اموات پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران محکمہ صحت، محکمہ خوراک اور چیف سیکرٹری کی جانب سے رپورٹ جمع کرائی گئی۔ سیکریٹری خوراک نے کہا کہ 22 ہزار587 خاندانوں میں تاحال ریلیف کا سامان نہیں پہنچ سکا۔
عدالت نے تمام رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بڑے افسوس کا مقام ہے اب تک گندم کی تقسیم کا کوئی فارمولا نہیں بنایا گیا، پیش کی جانے والی رپورٹس میں ہزاروں سوال اٹھتے ہیں لیکن افسوس ہے ان سوالوں کا کوئی جواب دینے والا نہیں ہے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے تھر کے 22 ہزار خاندانوں کو فوری گندم فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا یہ ثابت ہوچکا ہے کہ تھر میں زیادہ تر اموات خواراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ سماعت کے دوران ایڈوکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک نے عدالت کے سامنے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ افسران تو موجود ہیں لیکن وہ زیادہ تر وقت کراچی اور حیدرآباد میں گزارتے ہیں، افسران پوری رات جاگتے ہیں جب کہ دن کے وقت سوتے رہتے ہیں۔
عدالت میں بتایا گیا کہ تھرپارکر میں قحط کے ذمہ دار 3 افسران ہیں جنہیں عدالت نے 8 اپریل کو طلب کرلیا۔ افسران میں ریلیف کمشنر لالا فضل الرحمان، کمشنر میرپورخاص غلام مصطفیٰ اور ڈپٹی کمشنر میرپور خاص مخدوم عقیل الزمان شامل ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے تھر میں حکومتی ریلیف کا جائزہ لینے کے لئے تھر پارکر کے سیشن جج کی سربراہی میں 3 رکنی کمیشن قائم کردیا جو صحت اور خوراک سے متعلق رپورٹ ایک ہفتے میں پیش کرے گا۔