تحریر : شاہد شکیل چارلی چپلن ایک لیجنڈ آرٹسٹ تھا اس نے بہت کم عرصے میں اپنی سوچ اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر بہت کچھ پروڈیوس کرنے کے بعد دکھا دیا کہ دنیا میں ہر طرح کے انسان بستے ہیں اس کی کامیڈی فلمیں صرف انٹرٹینمنٹ ہی نہیں بلکہ سبق آموز بھی تھیں اسکی نقالی آج بھی دنیا بھر میں کی جاتی ہے۔ تھیٹر، سٹیج شوز، سنیما اور ٹیلی ویژن نے نیا ٹرینڈ لا کر دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے لیکن ساتھ ساتھ آج بھی کئی لوگ ان چیزوں سے شدید نفرت کرتے اور آرٹسٹوں کو میراثی اور کنجر وغیرہ کہتے ہیں حالانکہ آرٹسٹ وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں انسان ہونے کے ساتھ اپنے اندر جذبات اور احساسات کا سمندر رکھتے ہیں اور آرٹسٹ سے نفرت کرنا انسانیت سے نفرت کرنے کے مترادف ہے۔
کئی برسوں تک سنیما میں اگرچہ ہر دور میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا دکھایا جاتا اور شائقین محفوظ ہوتے لیکن ٹی وی آنے کے بعد انسانوں کی سوچ یکسر بدل گئی کیونکہ چھوٹی سکرین پر ایڈورٹائزنگ کی بدولت دنیا کی ہر اچھی اور بری شے نشر کی جانے لگی ایک طرف اگر معلومات کا خزانہ ہوتیں تو دوسری طرف کئی انسانوں کے لئے منفی بھی ثابت ہوتیں ،ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ٹی وی پر ہر نئی شے کو دیکھ کر ہر ایک کی زبان پر یہ ہوتا کہ دنیا کتنی ترقی کر گئی ہے ،سائنس کتنی ترقی کر گئی ہے وغیرہ ۔بات کچھ عجیب سی ہے کہ کچھ لوگ سائنسی ایجادات کو مانتے ہوئے عش عش کرتے ہیں ایجادات سے مستفید ہوتے ہیں اور پھر اسے برا بھی سمجھتے ہیں ۔سائنس اگرچہ خود ترقی نہیں کرتی بلکہ انسان اپنے دماغ اور سوچ کو بروئے کار لا کر اس کھوج میں رہتا ہے کہ کچھ نیا ایجاد کیا جائے یہ کہنا غلط نہیں کہ ہر انسان ایک سائنس دان ہے یعنی اسکا دماغ اتنا فاسٹ ہے کہ وہ چاہے تو ہر سیکنڈ میں نئی سوچ سے دنیا تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن افسوس کہ کچھ لوگ اپنا دماغ استعمال کرتے ہیں اور کچھ جانتے ہی نہیں کہ دماغ آخر ہوتا کیا ہے۔
مستقبل قریب یعنی دوہزار پچیس تک سائنسی دنیا میں نیا انقلاب آ جائے گا آنے والے سات آٹھ برسوں کے اندر ہم کئی پرانی اشیاء سے محروم ہو جائیں گے اور یہ اشیاء ماضی کا حصہ کہلاتے ہوئے اینٹک شمار کی جائیں گی جیسے کہ آج کل ٹرانزسٹر یا ٹیپ ریکارڈر وغیرہ کا کہیں نام و نشان نہیں ہے آج کی جنریشن نہیں جانتی کہ کیسٹ ریکارڈر کیا ہوتا ہے۔ہائی ٹیک یعنی ہائی ٹیکنالوجی دنیا بھر میں سپیڈ پکڑ چکی ہے اور ہر انسان کی ضرورت بھی بن گئی ہے کیونکہ جتنی تیزی سے سائنس ترقی کر رہی ہے انسان کیلئے سہولت پیدا ہو رہی ہے اتنی تیز رفتاری سے انسان سست اور نکما ہوتا جا رہا ہے ۔لیکویڈ کرسٹل ڈسپلے جنہیں ایل سی ڈی ٹیلی ویژن کہا جاتا ہے حیرت انگیز طور پر اپنی مخصوص بناوٹ سے دنیا بھر میں مقام حاصل کر چکے ہیں اور موٹی توند والے ٹی وی کو کچرے کے ڈبے یعنی ری سائیکلنگ کمپنیز کو واپس کر دیا گیا ہے آج ماضی کا حصہ بن چکے ہیں کیونکہ ایل سی ڈی ٹی وی بہت پتلے یعنی سمارٹ ہونے کے ساتھ بہت کم جگہ لیتے اور آج کل بہت ارزاں قیمت پر دستیاب ہیں اسکے باوجود گزشتہ برس ایل جی کمپنی نے مستقبل کیلئے ایک نیا ٹی وی متعارف کروایا ہے جسے اورگانِک لائٹ ایمٹنگ ڈاؤوڈ یعنی او ایل ای ڈی کانام دیا یہ نیا ٹی وی اپنی منفرد لائٹس سے فنکشن کرے گا جس سے انرجی کی بچت ہو گی اور آج کل کے فور کے ٹی وی سے زیادہ صاف وشفاف تصویر پیش کرے گا علاوہ ازیں یہ حیرت انگیز ٹی وی کاغذ کی طرف باریک ہونے کیساتھ رول اور فولڈ کیا جاسکے گا کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے اس ڈبلیو سیریز یعنی وال پیپرز کی موٹائی اندازً دو سے تین ملی میٹر ہو گی۔
High Tech Technology
مقناطیسی سسٹم سے دیوار میں ایڈجسٹ کیا جاسکے گا عام استعمال کے لئے اس سال کے آخر میں مارکیٹ میں دستیاب ہو گا۔لیڈ لیمپ۔عام بلب یا انرجی سیور لیمپس بہت جلد مارکیٹ سے ہٹا دئے جائیں گے انکی جگہ پر کرنے کیلئے او لیڈ لیمپ دستیاب ہونگے ان نئے لیمپ کا موازنہ ایل جی کے ٹی وی سسٹم سے کیا جا سکتا ہے معروف کمپنیز فلپس اور اوسرام بہت جلد یہ لیمپ متعارف کروائیں گی۔ سٹوریج میڈیا۔آج کل سی ڈیز ، ڈی وی ڈیز ڈسک کے علاوہ یو ایس بی سٹکس پر تمام ڈیٹا منتقل کرنے کے بعد سٹوریج کیا جاتا ہے جبکہ آنے والے برسوں میں یہ سب کچھ غائب ہو جائے گا اور اسکی جگہ بوکس، ایمزون اور گوگل کمپنیز ایک نیا سٹوریج میڈیا متعارف کروائیں گے جس میں وائی فائی سسٹم کے تحت اَن لمیٹڈ ڈیٹا سٹور کیا جا سکے گا ۔گیم کونزولز۔گیمز کھیلنے والے یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کنٹرولر یا دیگر کونزولز کے بغیر اپنی من پسند گیم ایکس بوکس یا پلے سٹیشن پر کھیل سکیں لیکن مستقبل قریب میں این وائی ڈییاکمپنی کونزولز فری کلاؤڈ گیم سسٹم متعارف کروائے گی جس سے گیمز کھیلی جا ئیں گی یہ کمپنی جی فورس ناؤ گیم سٹریمنگ سروس کے ذریعے گیم کھیلنے والوں کیلئے سہولت پیدا کرے گی علاوہ ازیں اپ لوڈ اور ڈاؤن لوڈ سسٹم کو بھی ریموٹ سرور کے ذریعے ہائی ٹیک طریقے سے استعمال کیا جا سکے گا۔
کیبل چارجرز۔سیمسنگ کمپنی نے حال ہی میں کیبل فری چارجر متعارف کروایا ہے۔ ایک مخصوص پیڈ کے ذریعے سمارٹ فونز ،لیپ ٹاپ اور دیگر الیکٹرونک انسٹرومنٹس چارج کئے جا سکیں گے ،پلگ یا ایڈیپٹر کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی،ایپل کمپنی نے بھی کیبل فری ایک نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی ہے جس سے تمام آلات کیبل کے بغیر چارج کئے جائیں گے۔ریموٹ کنٹرولز۔پروگرامنگ اور دیگر فنکشن کے لئے ریموٹ کنٹرول کی بجائے وائس سسٹم سے تمام آلات فنکشن کریں گے اس سسٹم کیلئے سینسور استعمال کیا جائے گا مثلاً ایکس بوکس یا پلے سٹیشن کو ٹی وی کے والیم سے منسلک کرنے کے بعد وائس کنٹرول سے استعما ل کیا جاسکے گا ۔پلاسٹک کارڈز اور پاس ورڈز سسٹم بھی بہت جلد ختم کرنے کے بعد تمام ڈیٹا سمارٹ فونز پر منتقل کرنے سے ہر قسم کی شاپنگ کی جاسکے گی بائیو میٹرک سینسر اور ہائی ٹیک الفا بیٹک سسٹم کے علاوہ فنگر پرنٹس اور چہرے کی شناخت سے تمام عوامل باآسانی طے پائیں گے۔انسان ایک طرف کہتا ہے کہ سائنس ترقی کر رہی ہے ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور دوسری طرف سائنسدانوں کو برا بھلا بھی کہا جاتا ہے ۔چارلی چپلن آج زندہ ہوتا تو بہترین ایکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم سائنسدان بھی ہوتاجو ہنستے ہنساتے بہت کچھ دریافت کرتا اور لوگ اس کی تعریف بھی کرتے۔