تحریر : عامر اسماعیل اعلی تعلیم کسی بھی معاشرے کی سماجی، اقتصادی اور معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔وطن عزیز کی ترقی میں اعلی تعلیمی شعبہ کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن بد قسمتی سے تعلیم کسی بھی دور میں ارباب اقتدار کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی ۔تعلیم کو انتخابی نعروں کیلئے ضرور استعمال کیا مگر کسی سیا سی جماعت کے منشور میں تعلیم اور بالخصوص اعلی تعلیم سے متعلق کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آئی ۔موجو دہ حکمران جماعت کے وفاقی وزیر خزانہ نے بھی مالی سال 2015/16کی بجٹ تقریر سے خطاب کرتے ہوئے تعلیم کیلئے مجموعی قومی آمدن کا 4 فیصد مختص کرنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا جو تاحال ایک سیاسی نعرہ بن کر رہ چکا ہے۔
ترقی یا فتہ ممالک اپنے ملک میں اعلی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے اور فروغ دینے کے نت نئے طر یقہ کار وضع کرنے میں ہمہ وقت کو شاں رہتے ہیں لیکن بد قسمتی سے پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں اعلی تعلیمی شعبہ کو مسلسل نظر انداز کیاجا رہا ہے اسکی بنیا دی وجہ اپریل 2010ء میں پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظور ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم پر عملدرآمد نہ ہونا ہے ۔اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم اور صحت کے شعبہ جات براہ راست صوبوں کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ 20اپریل 2010کو اٹھارہویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ کی متفقہ منظوری کے بعد پاکستان کے گزٹ کاحصہ بنادیاگیا تھا اس ا ئینی ترمیم کے تحت 280آرٹیکل میں سے 102میں ضروری ترامیم کی گئی تھیں جسکی روشنی میں اڑتالیس وفاقی قوانین بشمول ایچ ای سی ایکٹ 2002میں آئین کے مطابق ترامیم اور وفاقی مقننہ کی لسٹ 2 کے تحت نئے ادارے کمیشن برائے سٹینڈرڈز ان ہائر ایجوکیشن کاقیام تھا جس پر چھ سال گزرنے کے باوجود عملدرآمد نہیں کیا جاسکا ۔اٹھارہویں آئینی ترمیم پر تنقید کرنے والوں نے اسے تقسیم در تقسیم کا فارمولہ قرار دیا لیکن اگر بین الاقوامی ممالک کا جائزہ لیا جائے توکینیڈا کے معروف بین الاقوامی ادارے ” فورم آف فیڈریشن ” کے مطابق 12میں سے 10وفاقی ممالک میں اعلی تعلیم کے شعبہ میں انتظامی معاملات ، مالیاتی معاملات سمیت اکیڈ یمک پروگرامز کی منظوری کی ذمہ داری وفاقی اکائیوں کے پاس ہے جبکہ وفاقی حکومت کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم کی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے پنجاب اور سندھ نے اعلی تعلیم کے فروغ اور صو بوں میں اعلی تعلیمی نظام کو مستحکم کرنے کیلئے صو بائی ہائیر ایجو کیشن کا قیام کیا۔ مگر صو بائی ہائیر ایجو کیشن کے قیام کے بعد اختیارات کی منتقلی میں وفاقی ایچ ای سی کا 2002ء کا آرڈیننس گلے کی ہڈی بن چکا ہے ، اس آرڈیننس کے مطابق وفاقی ہائیر ایجو کیشن جامعات کے قیام ، وائس چانسلرز کی تقرری اور مالیاتی امور کی خو د نگرانی کرے گا لیکن چیئر مین سینٹ رضا ربانی کی سربراہی میں اٹھارہویں ترمیم کے عملد رآمد کمیشن نے وفاقی ایچ ای سی کے آرڈیننس 2002ء کو آئین کی بنیادی شقوں سے متصادم قرار دیا ہے کمیشن کے مطابق مذکو رہ بالا تمام اختیارات ترمیم کے بعد براہ راست صوبوں کے اختیارات ہیں جسمیں وفاقی ایچ ای سی کی مداخلت مناسب نہیں ۔یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ اگر اختیارات کی عدم منتقلی سے صوبائی حکومتیں اعلی تعلیم کے فروغ کیلئے اپنا فعال کردار ادا کرنے سے قاصر رہیں گی ۔ اگر وفاقی ہائیر ایجو کیشن کی سال 2016/17ء کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو نوحہ کناں ہونے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔
معروف بین االا قوامی ادارے ٹا ئمز ہا ئیر ایجو کیشن کی جانب سے جاری کردہ جامعات کی عالمی درجہ بند ی 2016ْ17/میں بھی ایک بھی پاکستانی جامعہ دنیا کی بہترین 600جامعات اور ایشیاء کی 100بہترین جامعات میں شامل نہیں ہے۔ یو نیو رسٹیوں کی رینکنگ کے مطابق پاکستان کے بر عکس 600صف اول کی جامعات میں 21کاتعلق چین،3سعودی عرب،2ملائیشیا ،8انڈیا،1ایران ،8تا ئیوان جبکہ 12کاتعلق ترکی سے ہے ،پاکستانی جامعات پہلی صرف 980 یونیورسٹیوں میں شامل ہیںکا مسیٹس انسی ٹیوٹ آف انفار میشن ٹیکنا لوجی اسلام آباد، نیشنل یو نیورسٹی آف سا ئنس اینڈ ٹیکنا لو جی ، یونیورسٹی آف سائنس و ٹیکنالوجی جبکہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد 601-800جبکہ یونیو رسٹی آف ایگری کلچر فیصل آباد ، بہا والدین زکریا یونیورسٹی ملتان ، ر،انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور،کراچی یونیورسٹی،یونیورسٹی آف لاہور 701ویں نمبر پر ہیں جبکہ ایشیاء کی 100بہترین جامعات میں بھارت کی 10جامعات شامل ہیں۔ درجہ بندی میں اکیڈمک اور ملازمین کی شہرت ،فیکلٹی طالب علم کی شرح ،بین الاقوامی طلباء کی تعداداور بین الاقوامی فیکلٹی کی موجودگی سمیت تحقیقی موادکی اشاعت کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔واضح رہے کہ اس سے قبل بھی پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے متعدد بین الاقوامی ادارے مایوس کن رپورٹ پیش کرتے رہے ہیں جیسا کہ گلوبل کمپیٹیٹونس رپورٹ کے مطابق پاکستان اعلیٰ تعلیم کے میدان میں 140میں سے 124ویں نمبر پرہے جبکہ ہمسایہ ممالک بھارت 90،چین28 اور ایران 69 نمبر پر ہیں ۔ افسو سناک امر یہ ہے کہ 90ارب سے زائدسالانہ بجٹ کا حامل اور 183 سرکاری جامعا ت کے معاملات کا نگران ادارہ ہائیر ایجو کیشن جس کی بہتری کیلئے جا ری اربوں کے فنڈز میں سے گزشتہ برس 48 فیصد فنڈز خرچ ہی نہیں کئے جا سکے ۔ ہائیر ایجو کیشن کمیشن کو مختلف منصو بوںکی مد میں 2762.30ملین جاری کئے گئے جسمیں سے صرف1437.63ملین روپے خرچ ہوئے جبکہ ملک کے سب سے زیادہ 27جامعات اور 22سب کیمپسسز والے صوبہ پنجاب کیلئے وفا قی ایچ ای سی کی جانب سے کل بجٹ کا صرف 11فیصد بجٹ جاری کیا گیا، جو جامعات کے ترقیا تی اور ریسر چ پر وگراموں کیلئے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں۔
قومی خزانے سے کڑوڑوں کے فنڈز استعمال کرکے کانفرسسز کا انقعا د بے سود ہے تاوقتیکہ کے اصل مسائل کی طرف توجہ نہ دی جائے ۔حیران کن طور پر وفاقی ایچ ای سی کے کمیشن ممبران کی تعداد تین سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود مکمل نہیں کی جاسکی جسے کی وجہ سے اکتوبر 2016ء کے بعد تاحال ہائیر ایجو کیشن کمیشن کا کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا۔ فاقی ایچ ای سی کے آرڈیننس 2002ء کے آرٹیکل 6کیمطابق ایچ ای سی کا کمیشن 18ممبران پر مشتمل ہے جسمیں چیئرمین ، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ایچ ای سی ،دو وفاقی سیکرٹریز ، چاروں صوبائی حکومتوں کے نمائندوں سمیت دس ماہرین پر شامل ہوتے ہیں ۔ان ماہرین کی فہرست ایچ ای سی کا کمیشن خود مرتب کرتا ہے جسکی منظوری وزیر اعظم پاکستان بطور کنٹرولنگ اتھارٹی ایچ ای سی دیتے ہیں لیکن تین سال گزر نے کے بعد بھی اعلی تعلیمی کمیشن کا کوئی پر سان حال نہیں۔
تمام تر خامیوں کے باوجود اگر وفاقی ایچ ای سی یہی خیال کرتا ہے کہ وہ صو بائی ہائیر ایجوکیشن کے عدم موجوگی میں پاکستان میں اعلی تعلیم کی مضبوطی اور فروغ کیلئے کوئی موثر کردار ادا کرسکتا ہے تو یہ محض خام خیالی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ بین الا قوامی ممالک کی سینکڑوں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں امریکہ ، کینیڈا ، جرمنی ، آسٹریلیا جہاں ہائیر ایجوکیشن کا شعبہ وفاق سے صوبوں کو منتقل کیا جا چکا ہے ان بین الاقوامی جامعات کے ہم پلہ آنے کیلئے ارباب اقتدار کو سنجید گی سے اعلی تعلیم پر توجہ دینا ہوگی ان جامعات کا بجٹ مسلم ممالک کی کل جامعات سے بھی ذیادہ ہے جو انکی تعلیم دوستی کا واضح ثبوت ہے ۔ اختیارات کی جنگ میں نقصان نہ وفاق کاہے نہ صوبائی حکومتیں ذمہ دار ہیں یہ دراصل پاکستان میں اعلی تعلیمی شعبہ کے ساتھ زیادتی ہے ۔ اگر ادارے آئینی حدود کا خیال رکھتے ہوئے اپنی ذمہ اداری اداکریں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کے اعلی تعلیمی شعبے کی مثالیں زبان زد ِ خاص وعام ہونگی اور پاکستان کی جامعات دنیا کی بہترین صف اول کی جامعات میں شامل ہونگی تاہم وزیر اعظم پاکستان کو بطور کنٹرولنگ اتھارٹی ایچ ای سی ان مسائل کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ان پر غورو فکر کرناہوگاکیونکہ ” ایچ ای سی کی بقا ہی ملکی تعمیرو ترقی کی ضامن ہے۔