اسلام آباد (جیوڈیسک) چار سال بعد ایک بار پھرجوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کے مابین اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے معاملہ پر تنازع کھڑا ہوگیا۔
پارلیمانی کمیٹی ازخود فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں، وزارت قانون نے اس اعتراض کے ساتھ جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کے برعکس جاری ہونے والا صدارتی حکم نامہ واپس بھجوا دیا۔
تفصیلات کے مطابق جون میں جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں سندھ ہائیکورٹ میں چار ایڈیشنل ججوں کی تقرری کی سفارش کی گئی تھی جبکہ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کی سفارش کے باوجود سندھ ہائیکورٹ کے دو ایڈیشنل ججوں جسٹس فاروق علی چنا اور جسٹس ریاضت علی سحرکو مستقل کرنے کی سفارش سے جوڈیشل کمیشن نے اتفاق نہیں کیا تھا۔
اور یوں ان دو ایڈیشنل ججوںکو اپنی مدت پوری ہوجانے پر عہدے سے فارغ ہوجانا تھا۔ جب معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے آیا تو اس نے چار نئے ایڈیشنل ججوں کی تقرری کی منظوری دینے کے ساتھ جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کے برعکس ان دو ججوںکی مدت ملازمت میں ایک سال توسیع کی منظوری دیدی۔
پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے وزیراعظم آفس کے ذریعے سمری صدر کوبھیجی گئی جنہوں نے دستخط کر دیے، جب معاملہ نوٹیفکیشن کے اجراء کیلئے وزارت قانون کے پاس آیا تو اس نے ججوںکی مدت ملازمت میں توسیع پر اعتراض کردیا۔
سپیشل سیکرٹری قانون جسٹس (ر) رضا خان نے بتایا کہ وزارت قانون نے دیگر دو ایڈیشنل ججوں کی ملازمت میںتوسیع کا نوٹیفکیشن روک لیا ہے۔ وزارت قانون سمجھتی ہے آئین کے مطابق پارلیمانی کمیٹی ججوںکی تقرری سے متعلق ازخود فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی، وزارت قانون نے صدرکو اس حوالے سے سمری واپس بھجوادی ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔