اسلام کا بنیادی نکتہ ہے کہ عورت کی پردے میں رہنے میں ہی عافیت ہے اس تناظر میں عمران خان کا یہ کہنا کہ مرد کوئی روبوٹ نہیں، اگر عورت کپڑے کم پہنے گی تو اس کا معاشرے پر اثر تو ہو گا۔ امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمارے ملک میں ڈسکو یا نائٹ کلب نہیں ہیں، یہ ایک مکمل طور پر مختلف معاشرہ ہے جب آپ لوگوں کو اکسائیں گے تو ان نوجوانوں کے پاس جانے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہو گی تو پھر اس کے نتائج ہوں گے۔ اس سوال پر کہ کیا واقعی خواتین کے لباس کا چناؤ ان پر جنسی تشدد کی وجہ ہے؟ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس طرح کے معاشرے میں رہتے ہیں۔ مرد کوئی روبوٹ نہیں ہے، اگر عورت کپڑے کم پہنے گی تو ا س کا اثر تو ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا جنسی جرائم کی روک تھام کیلئے معاشرے کے ہر طبقے کو کردار ادا کرنا ہو گا۔ ہمیں میڈیا کے ذریعے نوجوان نسل کو بہتر معاشرے کی تشکیل کیلئے تیار کرنا چاہیے۔
فلموں اور ڈراموں کا اثر معاشرے کے عمومی رویے پر ہوتا ہے۔پاکستانی خواتین کو لباس دھیان سے پہننا چاہئے، اسلام صرف عورت کے حجاب پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ حجاب کے احکامات مردوں کو عورتوں سے پہلے دئیے گئے۔ وزیر ِ اعظم کی باتوں سے انکار محال ہے لیکن بلاشبہ ملکی آئین اپنی مرضی کا لباس پہننے کی اجازت دیتا ہے مگر پاکستانی خواتین کو اپنے امیج، اخلاقیات، روایات اور حدود کا خیال رکھنا چاہئے۔ شلوار قمیض بہترین لباس ہے۔ تاہم ایسا لباس منتخب کرنا چاہئے جس میں بے حیائی بالکل نہ ہو انسان اور حیوان میں بنیادی فرق ہی لباس کا ہے۔ تاہم سورہ نور میں پہلے مردوں کو ہی حکم دیا گیا ہے کہ خواتین سے پردے کے پیچھے سے خطاب کریں۔ نظریں نیچی کرنے اور اپنی حیا کی حفاظت کریں۔ عورتوں کو احکام بعد میں آتے ہیں۔گویا مرد اور عورت دونوںحجاب کے مخاطب ہیں اسلام صرف عورت کے لباس پر بات نہیں کرتا بلکہ حجاب کے جتنے احکام سورہ نور اور سورہ احزاب میں آئے ہیں انکا خطاب سب سے پہلے مردوں سے ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے اس بیان پر کچھ خواتین کا رد ِ عمل شدید تھا ان کی دلیل یہ ہے کہ جنسی تشدد کی شکار عورت پر نامناسب لباس کا الزام تو لگایا جاسکتاہے مگر ان کمسن بچوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو جنسی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔
اگر یہی بات ہے تو ریپ آرڈیننس کیوں لایاگیا؟ جبکہ عورتوں کے تحفظ اور ہراسمنٹ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں توپھر ڈریس پر بات کرنا مناسب نہیں۔ ایسی باتیں کرکے وزیراعظم نے گویا تسلیم کرلیا ہے کہ معاشرے میں ثقافتی گھٹن بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے مردوں کی فرسٹریشن عورتوں کے استحصال کا سبب بن رہی ہے اور اب بڑھتے بڑھتے انتہائی کم عمر بچوں تک بھی آگئی ہے جس کی بناء پر معصوم بچوںکو درندگی کا نشانہ بنایا جارہاہے ۔ ان حالات میں تو اگر عورتوں کو گھروں میں زنجیریں بھی ڈال دیں تو بھی اس قسم کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ ایک خاتون کی رائے میں چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں جس انداز سے درندگی کا شکار ہورہی ہیں اس میں تو لباس کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتوں اور بچوں کے تحفظ کیلئے موجود قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے مجرم کو پکڑنے کی بجائے جنسی تشدد کی شکار عورت پر نا مناسب لباس پہننے کا الزام عجب منطق ہے حالانکہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا کپڑوں سے کوئی تعلق نہیں۔
اس طرح کے بیانات سے خواتین اور بچے مزید خطرے میں پڑرہے ہیں اس حوالے سے ہمارے قوانین واضح ہیں کہ خواتین کا احترام دیکھنے والے کی ذمہ داری ہے کسی مرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ لباس کو عورتوں پر تشدد اور جرائم کی وجہ قرار دے۔ وزیراعظم کا بیان غیر ذمہ دارانہ اور قابل مذمت ہے کیا وہ اس طرح کے بیانات سے مجرموں کو جواز فراہم کر رہے ہیں۔ جنسی زیادتی میں خواتین کا کوئی اقدام نہیں ہوتا بلکہ یہ مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد کا ناپاک فیصلہ ہوتا ہے ایسے بیانات ناکامی کا اعتراف ہے وہ خواتین پر تشدد کرنے والوں یا ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو روکنے میں ناکامی پر ایسا جواز پیش کر رہے ہیں جسے کوئی ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔
کیا دیہات میں ہونے والے جرائم کی وجہ بھی لباس ہے یہ تو جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی کر نے والی بات ہے کہ درندوں کو سزا دینے کی بجائے عورتوں پر شرمناک الزام لگادیاجائے سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو بچیاں پردے میں ہوتی ہیں، ان کے ساتھ زیادتی کا ذمہ دار کون ہے؟ افسوس وزیراعظم یہ نہیں جانتے کہ معاملے کی نزاکت کیا ہے۔ جب تک معاشرے میں ایسی ذہنیت والے مرد ہیں، عورتیں بالکل بھی محفوظ نہیں اگر صرف لباس کو بنیاد بنایا جائے تو کیا خواتین کھیلوں میں حصہ لینا چھوڑ دیں۔ کیا یہاں بھی لباس کو خواتین کے خلاف جرائم کی وجہ بنایا جائے گا۔ ہمیں مسائل حل کرنے کے بجائے عذر تلاش کرنے میں زیادہ دلچسپی رہتی ہے۔
حکومت کی ذمہ داری خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ہے اگر حکومت تحفظ کی فراہمی میں ناکام ہے تو پھر ایسے دلائل سے ایک بحث کا آغاز تو کیا جا سکتا ہے لیکن کوئی مثبت کام ممکن نہیں ہے ایسے دلائل سے مجرموں کی حوصلہ افزائی ہو گی نا مناسب لباس کے بارے میں ہر شخص کا نقطہ ٔ نظر اور دلائل سے اتفاق کریں یا اختلاف حقیقت میں معاشرے میں بڑھتی ہوئی درندگی کا بڑا سبب قانون کی حکمرانی نہ ہونا بھی ہے حالانکہ بلا امتیاز سب کے لئے ایک جیسے قوانین ہی ایک مہذب معاشرے کی پہچان ہوتے ہیں پاکستان جیسے ملک میں طاقتور کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا بااختیار،بارسوخ اور طاقتور کے سامنے قانون کو لقوہ ہو جاتاہے جبکہ کمزورپر قوانین کااطلاق اس طرح کا جاتناہے جیسے وہ دنیا کا سب سے بڑا مجرم ہو جب تک طاقتورکوقانون کا خوف نہ ہو معاشرے میں بہتری نہیں لائی جا سکتی وگرنہ یہی بحث ہوتی رہے گی کہ جنسی درندگی کاسبب نا مناسب لباس ہے۔